کچھ انتہائی ذاتی کہانیاں

میں نے کچھ دن قبل ایک کہانی لکھی تھی جس میں اپنے معاشرے کا روشن رُخ دکھانے کی کوشش کی تھی ۔ دفتر جاتے ہوئے ایک ٹھیلہ دیکھا تھا جس پر ہر خاص و عام کو صرف بیس روپے میں کھانا ملتا ہے ۔ وہ تحریر فیس بک (پر برادرم فہد شبیر) کے توسط سے اس منصوبے کے سربراہ تک پہنچی تو انہوں نے ان باکس میں شکریہ ادا کیا ۔ اس کے بعد اوپر تَلے کچھ واقعات اور بھی پیش آئے ، سوچا کہ آپ سے شیئر کردوں۔

پہلے تو یہ جان لیجیے کہ میں بڑا ہی بُھلکٹر واقع ہوا ہوں ۔ بائیک اسٹارٹ کرنے کے بعد اکثر اس کا اسٹینڈ اٹھانا بھول جاتا ہوں ۔ میں کراچی ، راولپنڈی اور لاہور میں عمر کا بڑا حصہ گزار چکا ہوں ، اس طویل مسافرت میں ایک جملہ اب یوں سمجھیے کہ ذہن کی دیوار پر کندہ ہوچکا ہے ۔ جملہ اُردومیں یوں ہے :’’بھائی! اسٹینڈ اُٹھا لو ‘‘ ، پوٹھوہاری میں ’’پہائی جی ! اسٹینڈ اُپر کریا‘‘ اور پنجابی میں ’’پائین! اسٹینٖڈ چُک لو‘‘ ۔ان شہروں کی سڑکیں گواہ ہیں کہ یہ جملہ اس درویش نے ہزاروں بار سنا ہے ۔

ابھی کچھ دن قبل اسی طرح کا ایک لطیفہ ہوا۔ میں گیارہ بجے کے قریب اپنے فلیٹ سے دفتر جانے کے لیے نکلا ، ابھی چند قدم دُور دھوبی کی دکان کے پاس پہنچا تھا کہ ایک طرف سے آواز آئی ۔ پائین ۔ ۔ ۔! میں ٹھٹک کر مُڑا ۔ دیکھا تو تین بچے کھڑے تھے اور ہاتھ سے اِشارہ کر رہے تھے ۔ اشارے کا ترجمہ یہی تھا کہ ’’پائین !اسٹینڈ چُک لو ‘‘ میں نے پاؤں کو اندازے سے دائروی سی حرکت دی تو پتا چلا کہ اسٹینڈ اپنی جگہ پر ہے ۔ یعنی ’’مِس کال‘‘ ہوگئی تھی ۔ ان میں سے ایک بچہ جس نے گہرے سُرخ رنگ کی میلی سی شرٹ پہن رکھی تھی، اس نے جب قہقہہ لگایا تو یقین ہوا کہ میرے ساتھ واقعی ’’ہاتھ‘‘ ہو گیا ہے۔ اب کر بھی کیا سکتا تھا،بس کھسیانی ہنسی کے ساتھ پتلی گَلی سے نکل گیا ۔ گلی کے موڑ تک ان شریروں کے فاتحانہ قہقہے میری سماعت سے ٹکراتے رہے ۔ وہ شاید مجھ ایسے کئی لوگوں کو ’’ماموں‘‘ بنا چکے تھے ۔

یہ تو تھی اسٹینڈ ’’چُکنا‘‘ بھول جانے کی کہانی ۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے سرٹیفائیڈ بُھلکڑ ہونے کی سچی اور(کم ازکم اپنی حد تک ) ناقابل فراموش داستان۔ اب آپ یہاں تک آہی گئے ہیں تو ذرا اور سُنتے جائیں۔

کچھ دن قبل قریبی مارکیٹ میں برگر سے ’’عیاشی‘‘ کی ۔ مجھے لگتا ہے میں اس خاص دکان کے زِنگر برگر کا باقاعدہ اڈیکٹڈ ہو چکا ہوں ۔ ساقی تو مئے میں ’’کُچھ ‘‘ ملاتا تھا نہ جانے یہ برگر والے کیا مِلاتے ہیں اس میں ۔ کرسی پر بیٹھتے ہوئے موبائل فون ، ہینڈز فری، چابی اور بٹوا سامنے میز پر رکھتا ہوں ۔ ہلکا ہو کر سکون سے بیٹھا جاتا ہے ۔ اس دن ایک موبائل فون جو حجم میں چھوٹا اور نسبتاً سَستا ہے ، برابر والی کرسی پر رکھا ۔ برگر کھایا ، سامان سمیٹا اور فلیٹ پر آگیا ۔

رات اڑھائی بجے سونے لگا تو خیال آیا کہ صبح (یعنی میری صبح ۔ ۔ ۔ آپ جیسے نارمل لوگوں کی تو وہ دوپہر ہوتی ہو گی)جاگنے کے لیے الارم لگایا جائے ، اِدھر اُدھر دیکھا تو چھوٹا موبائل فون غائب تھا ، تشویش ہوئی ۔ پہلی فرصت میں وہی کیا جو آپ سب کرتے ہیں۔ یعنی دوسرے موبائل فون سے گھنٹی بجائی۔ خوش قسمتی کہیے کہ چند سیکنڈ میں کال ریسیو کر لی گئی ۔ پوچھنے پر مخاطب نے بتایا کہ وہ برگر شاپ کا ملازم ہے اور طے ہوا کہ کل شام موبائل دکان سے مل جائے گا ۔ مختصر یہ کہ اگلی شام موبائل فون مِل گیا۔

ابھی بس نہیں ہوئی ۔ذرا اور ساتھ دیجیے ۔اب دوستی کا حق اتنا تو بنتا ہے ناں ۔ ۔ ۔!

10 اپریل کو ہمارے نئے اخبار نے مارکیٹ میں آنا تھا ۔ کام کا کافی دباؤ تھا ۔ میں دفتر سے کافی تاخیر سے نکلا ۔ ڈرائیو کرتے ہوئے میرا ہاتھ پینٹ کی دائیں جیب پر پڑا ، معمول کی چیزوں میں کچھ کمی سی محسوس ہوئی ۔(میں نے دونوں جیبوں کو بیلنس رکھنے کے لیے ان کے ’سَودے‘ طے کر رکھے ہیں) ذرا اور ٹٹولا تو پتا چلا کہ میرا وائی انٹر نیٹ کنکنشن (ڈیوائس )دفتر کے ایک کمپیوٹر میں لگا رہ گیا ہے ۔ میں قریب ہی ایک پان شاپ پر رُکا ۔ اپنے سینئر رفیق کار محمود الحسن سے رابطہ کیا جو ایڈیٹر صاحب کے ساتھ ان کی ’’یادگارِ اسلاف‘‘ سواری باد بہاری(کار) کی سواری سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ انہوں نے تُرنت نعمان شاہ جی کا نام لیا تو میرے سانس بحال ہوئے ۔ نعمان شاہ نیوز روم میں کام کرتے ہیں اور رات گئے فارغ ہوتے ہیں ۔میرا مطلب ہے دفتر کے کام سے ’فارغ‘ ہوتے ہیں۔ انہیں کال کر کے گزارش کی کہ ڈیوائس وہاں سے لے کر پا س رکھ لیجیے ۔ہو گیا ۔ اگلے دن شام کو ڈیوائس مُجھے سالم مل گئی ۔

اچھا اِس بیچ ایک اور حادثہ بھی ہوا ۔

وہ یہ کہ میرے ہاتھ میں اس وقت ایک ڈائجسٹ (قومی ڈائجسٹ کا نومبر دوہزار نو کا شمارہ) اور عامر رانا کی مشہور کتاب’’ جہاد اور جہادی‘‘ تھی ۔ وہ پان شاپ پر رہ گئی ۔ میں کچھ ’’لازمی اشیاء‘‘ اور ایک بوتل(بِگ ایپل) کے ساتھ فلیٹ پہنچ گیا ۔ دو دن بعد کتاب کی ضرورت پڑی ، نہ ملنے پر تشویش لاحق ہوئی ، کافی سوچنے پر یاد آیا کہ میں اس دن تو ایک پان شاپ پر رُکا تھا۔ تیسرے دن دفتر جاتے ہوئے پہلے غلط اور پھر دَرُست دُکان پر پہنچ گیا ۔ مجھے کتابیں ایک نئے لفافے میں ڈال کر لوٹا دی گئیں ۔ وہاں کھڑے ایک آدمی نے کتاب کا نام پڑھا تو پنجابی زبان میں کہا : ’’پائین! اے جہاد شہاد آلیاں کتاباں لئی پھردے او ، پُولس پَھڑ لینا جے ‘‘ میں مُسکرا کر نکل لیا۔

یہاں اگر آپ میری حماقتوں پر قہقہہ نہ لگائیں تو ایک بات اور بتا دوں۔ ۔ ۔؟

میں آج بھی وہ انٹر نیٹ ڈیوائس دفتر ہی بھول آیا ہوں اور آخری اطلاعات کے مطابق نعمان شاہ آج بھی اسے اپنی حفاظتی تحویل میں لے چکے ہیں ۔ لیکن اس ’’بُھولنے‘‘ کا مجھے ایک فائدہ ہوا۔ بھلا کیا؟ بس یہی کہ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے سرہانے کے پاس دو دن سے پڑی کتاب کو لِفٹ مل گئی ۔ یہ جاوید صدیقی کی خاکوں پر مبنی کتاب ’’روشن دان‘‘ ہے ۔ پہلا خاکہ تو کل رات پڑھا تھا ، ابھی دوسرا خاکہ ’’حجیانی ‘‘ پڑھ چکا ہوں ۔ واہ کیا کمال کی حجیانی تھی ، کیسی نمک حلال مگر مُنہ پھٹ ملازمہ ۔ ایسی مُنہ پھٹ جس کی تلخی بھی بَھلی لگتی ہے ۔ ہمدردی بھری تلخی ۔

اب کتاب چھوڑ کر یہ سطور کیوں لکھ رہا ہوں؟ یہ بھی سُنتے جائیں ۔

میں کافی دنوں سے دفتر سے دیر سے آتا ہوں ۔ اس ہفتے کی ’’سَروس‘‘ بھی وقت پر نہ ہو سکی اور کچھ خریداری کرنی تھی جو اِلتواء کا شکار تھی ۔ آج آفس سے جلدی نکلا ۔ ایک دوست کو ڈراپ کرنے کے بعد پیس ( شاپنگ مال) گیا ۔ کچھ خریداری کی ، دکاندار سے معاملات طے ہو رہے تھے کہ چھوٹے بھائی جواد خان کی کال آئی ۔ جواد کسی آفیشل ورکشاپ کے سلسلے میں تین دن پہلے کراچی گیا تھا۔ آج اس کی بذریعہ ٹرین واپسی ہوئی ۔ اس نے بتایا کہ وہ راولپنڈی پہنچ چکا ہے مگر ۔ ۔ ۔ مگر کیا؟ اس کا بٹوا غائب ہے، جس میں کچھ پیسے اور سارے کارڈز وغیرہ ہیں ۔ مجھے پہلے تو شدید غصہ آیا ۔ اسے سخت سُنائیں ۔ اس کا ایک بٹوا چند ماہ قبل ایک گاڑی میں رہ گیا تھا جس میں حساس نوعیت کی چیزیں چلی گئیں تھیں اور کچھ پیسے بھی ۔ وہ ریلوے پولیس اسٹیشن بیٹھا ہوا تھا اور کافی غصے میں تھا ۔ شاید پولیس والے ایف آئی آر نہیں ڈال رہے تھے ۔ جب میں نے اسے ڈانٹا تو اس نے کرخت لہجے میں میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا:’’اب چلا گیا ہے میں کیا کروں ، میں بھی تو انسان ہوں‘‘ اور فون کاٹ دیا ۔

میں کچھ دیر پہلے واپس اپنے فلیٹ پہنچا ۔ مشکل سے یہ’’ حجیانی‘‘ والا خاکہ پورا کیا تھا کہ اس کا پھر فون آیا ۔ ’’جناب! بٹوا مل گیا ہے‘‘ ۔ مجھے حیرت کا جھٹکا لگا ۔ ک ک کیسے ۔ ۔ ۔؟ اس نے بپتا سنائی کہ وہ اسٹیشن سے کسی رکشے پر سوار ہوا یا پھر کہیں اُترا ۔(ترتیب یاد نہیں ، بھلکڑ جو ہوں) بیگ اٹھا کر باہر رکھا تو جناب کو کسی ’’منظر‘‘ نے اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔صاحب پر آج کل فوٹو گرافی کا بڑاجنون سوار ہے ۔کوئی تصویر بنائی اور پھر اپنے بیگ کی طرف متوجہ ہوئے ۔ رکشے والا جا چکا تھا ۔ جواد کو کچھ دیر بعد خیال آیا کہ اس کے ساتھ انگریزی والا ’’ہاتھ ‘‘ ہو چکا ہے۔

اب آگے جو کہانی ہے اس کا بیش تر حصہ رکشے والے کی زبانی جواد نے اور اس کی زبانی میں نے سنا ۔

کہانی کچھ یوں تھی کہ وہ رکشے والا گھر پہنچا تو اس نے بٹوا اپنی بیگم کو دکھایا ۔ اس میں چند ہزار روپے اور کارڈز وغیرہ تھے ۔ بیگم سے پوچھا کہ کیا کیا جائے؟ وہ کوئی خدا ترس خاتون تھی اس نے جو کہا وہ اچھا ہی تھا ۔ بٹوے سے رکشہ ڈرائیور کو ایک وزٹنگ کارڈ ملا جو کسی ملٹری آفیسر کا تھا۔کارڈ اُلٹا تو اس کے پیچھے کوئی اور نمبر درج تھا ۔ وہ ہاتھ کا لکھا نمبر ملایا گیا ، آگے جواد تھا ، بات ہوگئی ۔ طے ہوا کہ اسٹیشن پر ملتے ہیں ۔ کچھ دیر میں وہ رکشا ڈرائیو ریلوے اسٹیشن پہنچا اور جواد کو لے کر پولیس اسٹیشن چلاگیا ۔ایک ایک چیز گِن کر واپس کردی ۔ پھر یہ کُھلا کہ یہ رکشا ڈرائیور بھی پولیس کا ملازم ہے جو فارغ وقت میں رکشہ چلا کر گزارہ کرتا ہے ۔ خیر جواد نے اُسے ’’حسب توفیق‘‘ انعام دیا اور شکریے کے ساتھ رخصت کر دیا۔بقول جواداس رکشا ڈرائیور پولیس والے نے کہا کہ ’’مجھے اگر اس طرح پیسے مارنے ہوتے تو رکشہ کیوں چلاتا‘‘

میں نے آپ کو یہ کہانی سنانے کے لیے اوپر کافی سارا اپناذاتی نوعیت کا ’’لُچ‘‘ بھی تَل دیا ہے ، مگر ایک بات ہے ، اور وہ یہ کہ ابھی بہت کچھ بہت بُرا نہیں ہے ۔ ابھی دیانت داری کا کال نہیں پڑا، ابھی بہت سے ایسے ہیں جن کے خون سفید نہیں ہوئے ، بے شمار ایسے ہیں جو حرص کی رزالت سے پاک ہیں ۔ انہیں اقدار کا پاس ہے۔ یہ ہمارے سماج کا روشن رُخ ہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کے ہیروز ہیں ۔ گم نام مگر سچے ہیروز ۔ اس رکشا ڈرائیور پولیس والے کی کہانی تو میں نے لکھ دی ہے مگر یہاں کئی ایسی اچھی کہانیاں روز بنتی ہوں گی ، انہیں شاید کوئی لکھنے یا بیان کرنے والا میسر نہیں آتا ، مگر مجھے یقین ہے کہ انہی گم نام سچے ہیروز کی وجہ سے ہمارا کچھ بھرم باقی ہے ۔ خدا کرے یہ بھرم قائم رہے ۔

(فرحان خان)
جمعہ، 14اپریل 2017ء
گارڈن ٹاؤن ،لاہور
نوٹ: مجھے ابھی ابھی اپنی انٹرنیٹ ڈیوائس بدست نعمان شاہ جی موصول ہوئی ہے اور اب یہ کہانی آپ تک پہنچانے کے قابل ہو رہا ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے