برداشت اور اسوہ حسنہ

بعثت نبویؐ سے قبل چہار اطراف ظلمتیں، تاریکیاں، عصبیتیں، قومی تفاخر، لسانی و مذہبی تقسیمات عام تھیں امت افراق کی شکارتھی باہمی روادای بھائی چارگی انسان دوستی عنقا تھی۔مزدور کے حق کو غصب کیا جارہاتھا،ماں ،بہن،بیٹی اور بیوی کے حقوق کی حق تلفیاں کی جاتی تھیں،حصول جاہ و منزلت کے لیے اپنے والدین سمیت خونی رشتوں کا بھی قتل عام کیا جاتاتھا۔ایسے میں اللہ تعالی نے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کی تمام برائیوں کی بیخ کنی شروع فرمائی۔ ایسے ہی دور جدید میں امن عالم مفقود ہے۔ اخوت، بے مثال ربط و ضبط، ایثار، قربانی اور برداشت و حلم کے جذبے مجروح ہورہے ہیں۔ داغہائے غم اور چراغ سینہ کتنے ہیں۔ فلسطین، بوسنیا، لبنان، کشمیر اور دنیا کے دیگر خطوں میں مسلمانوں کا لہو کتنا ارزاں ہے۔ بین الاقوامی دہشت گردی، فرقہ واریت اور اسلحہ کی دوڑ عدم برداشت کی ہی قبیح شکلیں ہیں۔

قومی اور بین الاقوامی سطح پر عالمی طاقتوں کی طرف سے ظاہر ہونے والا عدم برداشت کا رجحان لاقانونیت اور انارکی کا سبب بنتا ہے۔ مختلف ممالک میں ان کی عسکری مداخلت ان کی بربریت اور عدم برداشت کی مظہر ہے۔ عدم برداشت کے اس رجحان کو ہم تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں روک سکتے ہیں۔ میں قرآن مجید میں اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر اتحاد و اتفاق یا اجتماعیت کے احکامات بیان فرمائے۔قومیت وعصبیت سے متعلق اللہ نے فرمایاکہ ’’یاایہاالناس انا خلقنٰکم من ذکر و انثی وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا،ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم،ان اللہ عیلم خبیر(سورہ حجرات آیت ۱۳)‘‘ترجمہ :’’اے لوگو!ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا اور اس لیے کنبے اور قبیلے بنادئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانو،اللہ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والاہے‘‘ ایک اور مقام پروحدت امت کی نشانی بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ ’’ ان ھذہ امتکم ام واحد ترجمہ:’’یقیناًتمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں ہی تم سب کا رب ہوں پس مجھ سے ڈرتے رہو‘‘۔

اسلام گروہ بندی سے منع کرتا ہے اس سلسلہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا گیاہے کہ ’’واعتصموا بحبل للہ جمیعاًوالاتفرقواواذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداً فاالف بین قلوبکم فااصبحتم بنعمتہ اخوانا،وکنتم علیٰ شفا حفرؓ من النار فانقذکم منھا،کذلک یبین اللہ لکم اٰیٰتہ لعلکم تھتدون(سورہ آل عمران آیت ۱۰۳)‘‘ترجمہ:’’اللہ تعالی کی رسی کو سب مل کر تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ،تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے،اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچالیا۔اللہ تعالی اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ‘‘۔م المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد گرامی ہے : ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام زندگی اپنے اوپر کی گئی زیادتی کا بدلہ نہیں لیا، بجز اس کے کہ خدائی حرمت کو پامال کیا گیا ہو، پس اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سختی سے مواخذہ فرماتے تھے‘‘۔ اہل طائف نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا سلوک کیا مگر 9ھ میں جب ان کا وفد مدینہ شریف پہنچا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو صحن مسجد میں مہمان ٹھہرایا اور ان سے عزت و حرمت سے پیش آئے۔رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی نے ہمیشہ درپردہ دشمنوں کی حمایت کی۔ وہ واقعہ افک میں براہ راست ملوث تھا۔ بقول علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ و علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ ’’دشمنوں کی شماتت، ناموس کی بدنامی۔۔۔ یہ باتیں انسانی صبر و تحمل کے پیمانہ میں نہیں سماسکتیں۔ تاہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب باتوں کے ساتھ کیا‘‘اس کے باوجود نہ صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو معاف کیا بلکہ مرنے کے بعد اسے اپنی قمیض پہنائی اور ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے کا وعدہ فرمایا۔ کئی بار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اسے قتل کی اجازت چاہی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا۔

ایک دن ایک بدو آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر اس زور سے کھینچی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک سرخ ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا، بولا کہ میرے اونٹوں کو غلہ سے لاد دے۔ اس نے گستاخانہ جملے بھی کہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے اونٹوں پر جَو اور کھجوریں لدوادیں اور کچھ تعرض نہ فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تھا : ’’طاقتور وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے‘‘۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے نصیحت سننے کی خواہش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’غصہ نہ کیا کر اور اسے تین مرتبہ دہرایا‘‘۔

ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسلمان قبیلے کے قحط دور کرنے کی خاطر ایک یہودی زید بن سعید سے اسّی دینار قرض لیا۔ چنانچہ اس سے قبیلے کو خوراک مہیا کردی گئی۔ ادائیگی کے وقت سے پہلے ہی زید، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور گستاخانہ انداز میں رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی گستاخی کو برداشت نہ کرسکے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا سر قلم کرنے کی اجازت چاہی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے عمررضی اللہ عنہ! تمہیں چاہئے تھا کہ مجھے حسن ادا کی تلقین کرتے اور اسے حسن طلب کی‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اس کے قرض کی فوری واپسی کا حکم دیا بلکہ بیس صاع (تقریباً دو من) زیادہ کھجوریں دینے کا حکم دیا۔ اس سلوک سے وہ مسلمان ہوگیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے