افغان باقی،کہسار باقی

ہم افغان یا پشتون بحثیت قوم اور عقیدہ، دو انتہاؤں کے بیچ معلق ہیں. ہم ماضی کو سنہری تخت پر بٹھا کر پوجا کر رہے ہیں اور بدقسمتی سے حال میں جی رہے ہیں. ہمیں بحثیت قوم زہر کی پڑیاں شربت میں پلائی جارہی ہیں اور مزے سے یہ شربت ہم اپنے بچوں کو بھی پلا رہے ہیں جسے تاریخ نے انتہاء پسندی کا نام دیا ہے.آپ ایک مردان کے واقعہ کو رو رہے ہیں ہم تو کابل کے فرخندہ تک بھول گئے ہیں جو شعلوں میں لپٹی وہاں قاتل ہجوم سے زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔میرا دوست فاروق شنواری کہتا ہے کہ پشتون وہ قوم ہے کہ اگر آپ اسے مسجد میں بٹھا دیں تو خودکش جیکٹ پہننے میں دس منٹ بھی نہیں لگائے گی ،اگر مسجد سے دس قدم دور لیجاؤ تو نعوذباللہ خدا کے وجود پر بھی انگلیاں اٹھائے گی برصغیر میں یہی دو نظریات براستہ پشتون ہوکر آئے ہیں۔ جسے ہم افغانیہ کا نام دیتے ہیں۔

اجتماعی طور پر بھی ہم ایک انفرادی قوم ہیں. ہماری سرکشی کا سراسر گھاٹا ہم نے اٹھایا ہے اور فائدہ دشمن نے. انفرادی طور ہم انفرادیت کے قائل ہیں اور مجموعی طور الزام امریکا یا سامراجی قوتوں پر ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔آج پاکستان لہولہان ہےافغانستان, عراق اور شام لہولہان ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ آپ بلا تعطل نام دیں گے امریکہ، روس اور چین یا سعودیہ کو مگر جناب اس کے ذمہ دار تم بھی ہو اور میں ہوںافغانستان کی مثال لیجیئے اور وجوہات ڈھونڈیئے.

1973 کو جب بادشاہ محمد ظاہر شاہ یورپ کے دورے پر تھا تو اس کے رشتہ دار داؤد نے اس کا تخت الٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ جما بیٹھا. جناب داؤد کو آپ نے اور میں نے سپورٹ کیا اور حکم مان کر اس کی رعایا بننے کو ترجیح دی تھی۔

1978 میں کمیونسٹ کے "ثور انقلاب”نے داؤد کو خاندان سمیت مارڈالا تو سب سے پہلےآپ نے انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے تھے.

1978 کو نور محمد ترکئی کو جب اپنے ہی انقلابیوں نے بے بس کرڈالا اور حفیظ اللہ آمین کوتبدیل کیا اور پھر جلد ہی ببرک کارمل کو افغانستان کا صدر بنادیا تو ان اقدامات کی حمایت بھی تو میں نے اور آپ نے کی تھی۔روس کو اپنا نجات دہندہ بھی تو آپ نے اور میں نے سمجھا تھا۔

1987 کو نجیب اللہ نے جو ایک انقلابی تھا ،ملک کی بھاگ ڈور سنبھالی جن کے دور حکومت میں افغانستان میں امن کی کچھ امید پیدا ہوئی مگر اسکی مخالفت بھی تو آپ نے کی ۔یہ ایجنٹ ہے اور الزام پاکستان کو دیا. آج طالبان قتل کی مذمت کررہے ہیں.

1989 میں روسی اپنی بچی کھچی فوج کیساتھ اپنا وجود تک کو کھو بیٹھے تو ہمیں اسلام یاد آیا اور امریکہ نے جہاد افغان کے دوران دیا گیا اسٹرینجر میزائل تکآخری لانچرپیڈ اپنے ساتھ واپس لے گیا اور ہم نے پھر نجیب جیسی شخصیت کو زور زبردستی سے حکومت سے ہٹا لیا اور کابل کو نیا کعبہ بنانے پر زور دیا۔

طالبان آئے اور بالاخر امریکہ اور اس کے اتحادی تک آگئے اور ہمیں بشارت دی کہ ہم آپ کو ان سب قوتوں سے آزاد کرانے کی نوید سناتے ہیں. اور ہم پھر خوش چلو ہمارا نجات دہندہ آگیا جس نے 1990 میں بے یارومددگار چھوڑ دیا تھا۔چلو دیر آید درست آید مگر آج 2017 میں مجھ پر زمین پھر تنگ کردی گئی کیونکہ 2,500 داعش جنگجوؤں سے اب ایران, چین, روس اور پاکستان کو شدید خطرات ہیں اورامریکہ انھیں کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ہیرو شیما اور ناگاساکی سے بھی زوردار بم میرے ضلع پر گرا رہا ہے کیونکہ یہ ضلع پوری دنیا کیلئے خطرہ ہے۔ہم پنجاب کو طعنہ دیتے ہیں کہ انھوں نے ہر حملہ آور کو خوش آمدید کہا تو جناب یہاں ہم بھی تو وہی کررہے ہیں۔

انقلاب نے ہمیں روٹی کپڑا مکان دینا تھا, مجاہدین نے جنت کے چکر میں میری نسلوں کی دنیا کو جہنم بنا ڈالا اور جمہوریت نے مجھےامن دینا ہے. بس نہیں دینا ہے تو ہسپتال اور مکتب نہیں دینا ہے. اس کیلئے آج بھی میں پشاور کا محتاج ہوں۔طورخم پر کھڑے امریکی وزیرخارجہ جو ہمیں روس کیخلاف جہاد کی فضیلتیں بیان کررہا تھے اور پاکستان نے اس جنگ کے بدلے ہمیں مہاجر کیمپ تک دلا دیئے اور اقوام متحدہ کے خوراک کے پرمٹ پاکستان نے لئے اور بدلے میں مجھ سے میرا ماضی حال کیا مجھ سے مستقبل بھی چھینا گیا.

کس کو الزام دوں پاکستان کو,امریکہ کو, روس کو یا اب چین کو؟

جناب غصہ نہ ہوں انکے ذمہ دار آپ ہیں اور میں ہوں. پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ جب اپنی کتیا کو جوانی کی شہوت لگی ہوئی ہے تو پڑوس کے کتوں کو الزام نہیں دیتے. اب بھی وقت گزرا نہیں ہے چلو آج یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم اور شعور دیتے ہیں جہاں پچھلے 45 سال سے اپنے بچوں کی لاشیں اٹھا رہا ہوں اب مزید بیس سال اور اٹھا لوں کم از کم میری آنیوالی نسلیں تو یہ سب نہیں سہیں گی جو میں پینتالیس سال سے سہہ رہا ہوں.

نوٹ: پاکستانی دوست اس مضمون کو الٹا پڑھیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے