مشعال کا قتل اور ہمارامعاشرہ

ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اس معاشرے میں آج ہمارا سانس لینا بھی دشوار بنادیا گیا ہے ۔ مذہب ، سیاسی ، نظریاتی اور نسلی امتیاز ہمارے درمیان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہم کسی کو برداشت کرنے تو درکنار اسے سننے پر آمادہ نہیں ۔ تحقیق اور علم کا فقدان معاشرے میں دن بدن بڑھتا جارہا ہے اور اس کم علمی کے خلاء کو پُر کرنے کے لیے اسکی جگہ شدت پسندی نے لے لی ہے ۔ جہلاء کی بستی میں اگر کوئی سفاکیت ، حیوانیت کا مظاہرہ کرے تو حیرانگی نہیں ہوتی کیونکہ معاشرہ ہی جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے ۔ لیکن جب کسی تعلیم یافتہ ، تہذیب و روایات رکھنے والے معاشرے میں اشرف المخلوقات کا شرف رکھنے والی قوم کسی انسان پر جنگل کے وحشی جانوروں کی طرح حملہ آور ہو تو حیرانگی نہیں بلکہ روح تک کانپ جاتی ہے یا یوں کہہ لیں گویا مصنوعی موت مل گئی ہو ۔ تعلیمی درسگاہ اگر تعلیم و شعور دینے کے بجائے مقتل گاہ بن جائے ، اپنے ہی طالبعلم کی قاتل بن حائے تو پھر اس معاشرے پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے ۔ معاشرے کے اس بگاڑ کی وجہ معاشرے کا ہر فرد ہے ۔ کیا ہم ذاتی طور پر خود کو بدلنے کے خواہاں ہیں ؟ افسوس ہم اجتماعیت سے انفرادیت کی جانب جائے جارہے ہیں ۔

ظلم اگر میرے بچے پر ہو میرے عزیز پر ہو تو وہ ظلم ناقابل قبول ہے لیکن اگر ظلم میرے نظریاتی ، سیاسی ، نسلی اور مذہبی حریف پر ہو تو وہ ظلم قابل قبول ہے درست ہے بجا ہے ۔ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو ظلم ہوتا دیکھ کر خُود کے محفوظ ہونے پر شکر ادا کرے۔ یہ ہم معاشرے کو کس جانب لے کر جارہے ہیں ؟ قوم تباہ برباد ہوگئیں اس معاشرے کی جہاں تعلیم سے آراستہ افراد ننگی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے قاتل بن جائیں ، مکالمے دلائل کے بجائے مجنوں بن کر فیصلے کریں ۔ حقیقت اور افسوسناک امر تو یہ ہے کہ اس ذہنی مریضوں ، محدود سوچ کے حامل معاشرے میں ذی شعور تعلیم یافتہ ہی پاگل ہے ۔ ہم انتہا پسندی کی آگ کا ایندھن بنے جلتے جارہے ہیں جلتے جارہے ہیں لیکن واقعات سے سبق حاصل نہیں کرہے ۔ یہ کون لوگ ہیں جو ہمیں اس آگ میں مسلسل دھکیلے جارہے ہیں اور ہم غور و فکر کرنے پر بھی رضامند نہیں ۔

ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں لوگ توہین رسالت ص کا ثبوت تک نہیں مانگتے اور ملزم کو فوراً جہنم واصل کرنے کی ٹھان لیتے ہیں ۔ مردان کی یونیورسٹی میں صحافت کے طالبعلم کو بپھرے ہوئے ہجوم نے جس بےدردی کے ساتھ اسے موت کے گھاٹ اتارا ، اسکے نیم مردہ جسم پر جس طرح لاٹھیاں اینٹیں برسائی گئیں اس پرجنگل کے وحشی جانور تک شرما جائیں ۔ جس معاشرے میں انسانیت ختم ہوجائے تو اس معاشرے کے لوگ جانور کا روپ دھار لیتے ہیں ۔ معاشرے میں تیزی سے بڑھتا ہوا عدم برداشت انتہائی خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے ۔ یہ سب دہائیوں سے رائج انتہا پسندی کے فروغ کا نتیجہ ہے۔ ہم بجائے اس انتہا پسندی کی آگ سے بچاوٴ کی تدابیر اپنانے کے مزید اس آگ کی لپیٹ میں لپٹے جارہے ہیں ۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء اور دانشور ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر مذہب کے نام پرتشدد کو فروغ دیتے ہیں مگر ریاست خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے اس روکنے کی کوئی کوشش نہیں کرتی ۔ ایسے عناصر لوگوں کے جذبات ابھارنے کی خاطر ایسے الفاظ تک ادا کردیتے ہے کہ جنکی سنگینی کا اندازہ انہیں بھی نہیں ہوتا ، انکا مقصد صرف جذبات کو بڑھاوا دینا ہوتا ہے ۔ یہ حضرات مبینہ گستاخانہ مواد کو بنیاد بناکر واجب القتل کی باقاعدہ منظم مہم چلاتے رہے ۔ عوام میں مذہبی جذبات بھڑکا کر ، ایک ہجوم کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا راستہ ان عناصر نے ہی دکھایا ۔

ہم سب جن ہستیوں کے پیروکار ہیں انکے سامنے ہر طرح کی سوچ و فکر رکھنے والا شخص آکرسوال کرتا تھا ۔ جناب رسولﷺ نے تو عیسیٰ ع کو خدا کہنے والے عیسائیوں سے بھی مباہلہ کیا ۔ ایسا نبیؐ جسے طائف کے لوگوں نے پتھر مار کر لہولہان کر دیا تھا۔ جب جبرائیل نے ان سے پوچھا کہ آپؐ کہیں تو اس قوم کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں تو اس پیارے نبیؐ نے کہا نہیں، ہو سکتا ہے اس قوم کی نسل میں ایسے لوگ پیدا ہوں جو اللہ پر ایمان لے آئیں ۔ صبر استقامت اور اخلاقیات سے کفار کو کلمہ پڑھوانے والے اتنے صابر نبیؐ کے پیروکار کیا کسی شخص کو نیم مردہ نیم برہنہ کرکے اس کے جسم پر ٹھڈے مار کر ، لاٹھیاں برسا کر اس کے سر پر گملے توڑ کر قتل کرسکتے ہیں ؟؟ نہیں ہر گز نہیں میرے نبیؐ نے ایسی تعلیمات تو نہیں دیں ۔ تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو رسولﷺ کے نام پر انسانیت کی تذلیل اور بے حرمتی میں جانور بن گئے ؟ جو مذہب ایک جانور کو ذبح کرتے وقت اسے تکلیف نہ دینے کا حکم دے تو اسکے ماننے والے کیسے کسی شخص کو تکلیف اذیت دے کر مار سکتے ہیں ؟

ایک لمحہ کے لیے مان لیں مشعال گستاخ تھا ، کمیونسٹ تھا ، ملحد تھا ۔ مگر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا کسی بھی جرم کی سزا وہ حیوانیت والا سلوک ہے جو درندوں نے مشعال کےساتھ کیا ؟ ارے رسولﷺ تو انسانوں کی زندگی سنوارنے آئے تھے جہالت کے اندھیروں میں روشنی بن کر آئے تھے، مگر آج انہیں کے نام پر کسی کی زندگی چھیننا کونسی دین اسلام کی خدمت ہے ؟ ریاست قانون عدالت نام کا کوئی وجود بھی ہے یا نہیں ؟ شدت پسندی کی آگ نے معاشرےکو اس قدر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ اب فیصلے عدالت تک پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آتی بپھرے ہوئے ہجوم خود ہی کافر مرتد کا فیصلہ کرکے سزا مقرر کردیتے ہیں ۔تو پھر قانون کی کتابوں کو آگ لگا کر عدالتوں پر قفل لگادینے چاہیے ۔

خدارا ! اپنی خباثتوں ، دشمنیوں اور نفرتوں کو رسولﷺ کے نام پر نہ نمٹائیں ، خدا کے قہر کو دعوت مت دیں ۔

معاشرے کو اس نہج پر پہنچانے تک ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں ۔ اگر ہم سب اپنی اپنی ذمہ داری پر غور کریں گے اور اسکے ساتھ خود احتسابی کا عمل شروع کریں گے ، تو تبھی معاشرہ صلح و صفا کا روشن نمونہ بنے گا ۔ ان افراد کو پہچانیے جو آپ میں بیٹھ کر انتہا پسندی کی تعلیم دے رہے ہیں ، دوسرے انسانوں سے نفرت کی تلقین کرہے ہیں ۔ خصوصاً وہ لوگ جو ذرا سے اختلاف کے باعث ملحد ، کافر ، زندیق اور واجب القتل کے فتوے بانٹ رہے ہوتے ییں ۔ کسی بھی اختلاف کا علاج انتہاپسندانہ رویہ نہیں بلکہ دلیل اور مکالمے کی فضا کو قائم رکھنا ہے ۔ مشعال کے قتل کی کوئی جسٹیفیکیشن نہیں، کسی بھی جرم کی سزا یہ حیوانیت والا سلوک ہر گز نہیں ۔ لہذٰا مشعال کے قاتلوں سخت سزا دے کر انہیں نشان عبرت بنادینا چاہیے ۔ تاکہ آئندہ کوئی قانون ہاتھ میں لے کر شخصی عدالت نہ لگائے ۔ اگر اس سلسلے کو روکا نہ گیا تو سلسلہ چل پڑے گا اور اختلاف کے باعث کسی کی زندگی چھیننا آسان ہوجائے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے