مسئلہ کشمیر، گلگت بلتستان اور سی پیک ، کون کیا کہتا ہے ؟ مکمل رپورٹ

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پر کام شروع ہوئے ابھی کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ پاکستان کے شمال میں واقع متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کی ایک جغرافیائی اکائی”گلگت بلتستان “کو ملک کا پانچواں صوبہ بنائے جانے کی خبروں پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور جہاں کچھ لوگ سی پیک کے تناظر میں جی بی کو پانچواں صوبہ ڈکلیئر کرنے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے ہیں وہیں بیشتر افراد کا ماننا ہے کہ سی پیک سے اگر چہ بے شک پاکستان اقتصادی طور مضبوط ہوسکتا ہے تاہم گلگت بلتستان کے ساتھ چھیڑنا سیاسی خود کشی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں کشمیر پر پاکستان کی دعویداری ہی ختم ہوجائے گا جبکہ کچھ ایسا ہی تاثر کشمیری سیاسی قیادت میں بھی پایا جارہا ہے ۔

[pullquote]سیاسی مواقف[/pullquote]

جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم مانتے ہیں کہ” سی پیک سے مالی مفادات اپنی جگہ لیکن اس سے مسئلہ کشمیر میں خاصی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور اگر اس کو بنیاد بنا کر پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بناتا ہے ،یہ مسئلہ کشمیر کیلئے انتہائی خطرناک ہو گا اور کشمیری اس فیصلے کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔پاکستان کا آئین اور اقوام متحدہ کی قراردادیں کوئی بھی اس کی اجازت نہیں دیتا“۔

خالد ابراہیم کی طرح ہی پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کا کہناہے کہ ”سی پیک کی آڑ میں مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایسی سی پیک پر لعنت بھیجتا ہوں جس سے کشمیر کے مسئلے کو نقصان پہنچے۔”

پیپلز پارٹی پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے صدر چوہدری لطیف اکبربھی ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں” اگر سی پیک کی آڑ میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنایا گیا تو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا اور تقسیم کشمیر کی راہ ہموار ہو گی۔گلگت بلتستان کو صوبہ بنا کر پاکستان 1956 میں شیخ عبداللہ کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے کو مضبوط جواز فراہم کرےگا“۔

پاکستان میں برسر اقتدار جماعت مسلم لیگ ن کے علاقائی نمائندے اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر بھی کہتے ہیں کہ معاہدہ کراچی کی رو سے گلگت بلتستان ریاست کی اکائی ہے اور حکومت پاکستان کو چاہئے کہ گلگت بلتستان پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ریاست جموں کشمیر کو اعتماد میں لے اور کوئی ایسا فیصلہ نہ کرنے جس سے مسئلہ کشمیر متاثر ہو تاہم ان کا ماننا ہے کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو کوئی بھی حیثیت دیتے وقت مسئلہ کشمیر کو مد نظر رکھے گی ۔

[pullquote] قانونی دلائل [/pullquote]

قانونی دلائل بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے حق میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اورجموں کشمیر لبریشن لیگ کے سربراہ اورجسٹس (ر)مجید ملک کہتے ہیں” کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے اس معاملے پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے دو قرار دادیں منظور کر رکھیں ہیں جن میں پہلی قرارداد 30 مارچ 1951 کو اور دوسری قرارداد 24جنوری1957کو منظور ہوئی۔

دونوں قراردادوں کا متن ہے کہ ریاست جموں کشمیر کا کوئی حصہ اگر کوئی ملک مکمل رائے شماری سے قبل آئینی دھارے میں لے آتا ہے تو وہ کالعدم ہوں گے۔اس سے قبل پاکستان اور ہندوستان 21اپریل1948، 13 اگست1948 اور 5جنوری1949 کو اقوام متحدہ میں یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف ریاست کے عوام کریں گے۔ اس لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدہ تاشقند، شملہ معاہدہ، اعلان لاہور اور اس طرح کے کسی معاہدہ کی کشمیر کے حوالے سے کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اس وقت جموں کشمیر مسلمہ طور پر متنازعہ ریاست ہے یہ ہندوستان کا حصہ ہے نہ ہی پاکستان کا، نہ ہی دونوں ممالک اسے تقسیم کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی ایک اکائی کے عوام کو فیصلے کا کوئی حق حاصل ہے“۔انکا مزید کہنا تھا” 1956 میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی (جو ریاست کے وسیع علاقے اور 90 لاکھ کی نمائندہ تھی )نے بھارت سے الحاق کیا تھا اور اس وقت پاکستان نے اس کی مخالفت کی تھی اور 24 جنوری1957کو سیکورٹی کونسل میں پاکستان کی جانب سے جمع کروائی گئی قرارداد منظور ہوئی تھی ۔ اگر پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بناتا ہے تو اس سے پاکستان کی قرارداد کی نفی ہو گی اور ہندوستان کا موقف مضبوط ہو گا“۔

[pullquote]گلگت بلتستان کیا کہتا ہے ؟[/pullquote]

اس بات سے قطعی انکار کی گنجائش نہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام اپنے آپ کو پاکستان سے ہم آہنگ پاتے ہیں تاہم وہ مسئلہ کشمیر کی باریکیوں سے بھی واقف ہیں ۔ان کے نزدیک سی پیک کافی اہمیت کا حامل ہے لیکن وہ اس بات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ صوبہ کا درجہ ملنا اتنا آسان نہیں ہے ۔ا

س ضمن میں گلگت بلتستان کے سابق نگران وزیر عنایت اللہ شمالی کہتے ہیں” سی پیک پاکستان کی ترقی کیلئے اہم منصوبہ ہے اس کے کشمیر پر مثبت اور منفی اثرات ہونگے۔اس سلسلے میں وفاق کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر ، حریت کانفرنس اور گلگت بلتستان کے نمائندوں کو بلا کر بات چیت سے اس قسم کے مسائل کا فوری ادراک کرنا چاہئے“۔

گلگت بلتستان کونسل کے سابق ممبر اور جمعیت علمائے اسلام گلگت بلتستان کے راہنما عطااللہ شہاب بھی مانتے ہیں کہ سی پیک پاکستان کے معاشی مستقبل کا ضامن ہو گا تاہم ان کے مطابق جہاں پاکستان مضبوط ہو گا وہیں علاقائی ثقافت متاثر ختم ہو کر رہ جائے گی اور عین ممکن ہے کہ کشمیر کے حوالے سے جغرافیائی تبدیلیوں کا باعث بھی بنے۔ شہاب کہتے ہیں ” اگر گلگت بلتستان کو صوبہ بنایا جاتا ہے تو یہ مسئلہ کشمیر کیلئے آزمائشی صورتحال ہو گی لیکن ریاست پاکستان سی پیک اور کشمیر دونوں کی ضامن ہے، اس لئے ایساممکن نظر نہیں آتا کہ ریاست پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنا کر مسئلہ کشمیر پر اپنے ستر سالہ موقف کو یکدم ختم کر دے“۔

گلگت بلتستان میں قوم پرست جماعت بلورستان نیشنل فرنٹ کے سربراہ اور ممبرگلگت بلتستان اسمبلی نواز خان ناجی تو کہتے ہیں کہ اگر گلگت بلتستان کو اگر صوبہ بنایا گیا تو مسئلہ کشمیر ہی ختم ہو جائے گا ۔اس لئے ان کا مشورہ ہے کہ اگر پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم رہتا ہے تو یہ اس کیلئے بہتر رہے گا۔ناجی کی رائے ہے کہ پاکستان گلگت بلتستان کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر طرز کا اسٹیٹس دیکر مشترکہ کونسل بنائے کیونکہ مشترکہ اسمبلی کی مخالفت انتہائی زیادہ ہو گی اور وہ خود بھی مشترکہ اسمبلی کے حق میں نہیں ہیں۔

پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو کھل کرجی بی کو صوبہ بنانے کی بات کررہی ہے اور ان کے نزدیک اس اقدام سے مسئلہ کشمیرکوایک نئی جہت مل سکتی ہے۔پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدرامجد حسین ایڈووکیٹ اس ضمن میں کہتے ہیں” سی پیک کے مسئلہ کشمیر پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اس تناظر میں اگر گلگت بلتستان کو صوبہ بنایا جاتا ہے تو مسئلہ کشمیر کو ایک نئی جہت ملے گی اور گلگت بلتستان کی حیثیت بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے برابر ہو جائے گی ۔اس سے ہندوستان مذاکرات کی میز پر آئے گا اور مسئلہ اپنے حل کی طرف بڑھے گا“۔

ان کا استدلال ہے کہ جموں کشمیر کو آئینی طور پر متنازعہ رکھا گیا ہے جس کی تصدیق پاکستانی آئین کی دفعہ 257 اور ہندوستا نی آئین کی دفعہ 370کرتا ہے لیکن گلگت بلتستان کو کہیں بھی متنازعہ نہیں دکھایا گیا ہے،اس سے گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت ملے گی اور مسئلہ اپنے حل کی طرف بڑھے گا۔

[pullquote]سیاسی مبصرین کا موقف[/pullquote]

سیاستدانوں کا موقف اپنی جگہ لیکن سیاسی مبصرین بھی جہاں سی پیک کے فوائد گنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے تاہم ان کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنا کر پاکستان کا کشمیر پر موقف کمزور پڑ جائے گا۔

پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد میں مقیم سینئر صحافی اورکشمیر جرنلسٹس فورم کے صدر عابد خورشید کا کہنا ہے کہ جیو اکنامک منصوبہ خطے کی معیشت اور سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔یہ منصوبہ مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف ایک قدم بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ متنازعہ ریاست کے عوام کو اس منصوبے کوپاک و ہند کی سیاست سے آگے دیکھنا ہو گا اور اس سے بھرپور معاشی فوائد حاصل کرنے چاہئیں۔

سینئرصحافی اور تجزیہ نگار ارشاد محمود اس ضمن میں کہتے ہیں کہ سی پیک سے کشمیر پر مثبت اثر ہو گا،جب پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہو گا تو دنیا اس کی بات سنے گی کیونکہ مضبوط معیشت ہی کامیاب سفارتکاری کی ضامن ہوتی ہے۔

بیرون ملک مقیم کشمیری کالم نگار نقی اشرف کہتے ہیں سی پیک کا روٹ چونکہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے اس لئے ممکن ہے چین کوئی ضمانت مانگ رہا ہو کہ متنازعہ خطے میں سرمایہ کاری غیر محفوظ نہ ہوتاہم ایسے کوئی امکانات نہیں نظر آ رہے جس سے یہ منصوبہ مسئلہ کشمیر کے حل کی ضمانت ہو ۔

گلگت بلتستان کے سرکردہ صحافی اور تبصرہ نگار قاسم شاہ کہتے ہیں سی پیک کیلئے گلگت بلتستان کو کوئی آئینی حیثیت دینا لازمی نہیں اور نہ ہی ایسا ممکن ہے اگر چین کو کسی سے معاہدہ کرنا ہے تو وہ یہاں(گلگت بلتستان )کی مقامی قیادت سے کرے کیونکہ یہ متنازعہ علاقہ ہے۔

سکردو سے صحافی موسی چلونکھ کہتے ہیں کہ اس منصوبے سے اقتصادی و معاشی حالات پر مثبت اثر ہو گا لیکن کشمیر پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا کیونکہ بقول ان کے گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانا پاکستان کیلئے انتہائی مشکل ہے۔

گلگت کے ہی سینئر صحافی شبیر میر کہتے ہیں کہ سی پیک سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے وقتی ہلچل لازمی ہو گی لیکن کوئی دور رس نتائج نظر نہیں آ رہے ہیں۔ان کے مطابق گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانا ریاست پاکستان کیلئے نا ممکن ہے اور کوئی بھی پاکستانی حکومت یہ کام نہیں کر سکتی ۔

اسلام آباد میں مقیم سینئر صحافی وتجزیہ کار اورصباح نیوز کے ایڈیٹر سردار عاشق کی رائے تاہم مختلف ہے ۔وہ کہتے ہیں ”یہ منصوبہ گلگت بلتستان کے راستے پاکستان میں داخل ہو رہا ہے جو متنازعہ ریاست جموں کشمیر کی اکائی ہے۔آخر کیسے ممکن ہے کہ چین ایک متنازعہ علاقے میں اس قدر سرمایہ کاری کریگا۔چنانچہ اس تناظر میں گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانا اہم ہے ،چین کی دلچسپی اسی صورت ہو سکتی ہے جب وہ پاکستان کا علاقہ ہو۔آنے والے دنوں میں پاکستان گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرسکتا ہے اور اگر یہ پاکستان کا صوبہ بن گیا تو تقسیم کشمیر کا موجب ہو گا چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سی پیک سے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار ہو گی“۔

سیاسی قائدین اور تجزیہ کاروں کی رائے ایک طرف تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے وقت گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت آڑے نہیں آئی تھی تو آج سی پیک کے مسئلہ پر یہ کیسے اثر انداز ہوسکتا ہے ،ویسے بھی 1963میں ہونے والے پاک چین معاہدہ (سینو پاک معاہدہ)کے مطابق چین کو گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری کیلئے ان علاقوں کا پاکستان کا آئینی حصہ ہونا ضروری نہیں ہے۔

اس معاہدہ کی دفعہ6کے مطابق پاکستان اور چین اس بات پر متفق ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد ان علاقوں(گلگت بلتستان اور تبت)پر جو (ہندوستان یا پاکستان) اقتدار اعلی ہو گا چین اس کے ساتھ اسی معاہدہ کی شق نمبر دو کے مطابق دوبارہ معاہدہ کرے گا اور نیا معاہدہ اس معاہدہ کی جگہ لے گا۔اگر اقتدار اعلی پاکستان کے پاس ہی رہتا ہے تو کسی نئے معاہدے کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ معاہد ہ ہذا برقرار رہے گا۔

یہ معاہدہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ چین کو گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کا احترام ہے اور وہ اس کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے سرمایہ کاری کیلئے تیار ہے ۔اگر 1963میں چین کا موقف ایسا رہا ہے تو آج اس کو بدلنے کی ضرورت کیا ہے جبکہ چین کو بھی معلوم ہے کہ سی پیک کی بدولت عالمی منڈیوں تک چین کی سستی رسائی ممکن ہوپائیے گی اور اس راہداری کا سب سے بڑا فائدہ بیجنگ کو ہی ہوگا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے