وہ جو بے نوا ہیں‌ انہیں‌آواز دو

یہ کتنی اذیت ناک حقیقت ہے کہ ہم بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی کے مطالبے کی بجائے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنا پسند کرتے ہیں ۔ بجلی جو اس وقت ہر شخص کی بنیادی ضرورت ہے ، اس کا بحران حل نہیں ہو سکا ۔ لوگ گرمی سے بلبلا رہے ہیں لیکن پھر بھی انہیں زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ 20 تاریخ کو پاناما کیس کا ڈراپ سین کیا ہو گا۔

مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم لوگ اپنی ذات کے بارے میں بھی کس قدر بے پروا واقع ہوئے ہیں ۔ بھول جانا ہماری قومی بیماری ہے ۔ کیا کوئی پوچھے گا ان وزیروں سے جو 2013 کے الیکشن کے دوران دعوے کرتے تھے کہ 6 ماہ میں بجلی کا بحران ختم نہ کیا تو ان کا نام بدل دیا جائے ۔ کوئی پوچھے گا معزز وزیر اعظم کی معزز صاحب زادی سے جو ٹوئیٹر پر لوگوں کو یہ مژدے سناتی رہی کہ 2017 میں ہم ضرورت سے زیادہ(سرپلس) بجلی پیدا کر لیں گے ۔ جھوٹ بلکہ بدترین جھوٹ بولنا کیا اس ملک کے بھوکے ننگے عوام کے ساتھ سنگین مذاق نہیں؟

ابھی ایک منظر دیکھا ۔ جانے اب رات نیند آئے گی بھی یا نہیں ۔ ایک کچرے کا ڈھیر ہے جس سے چند قدم فاصلے پر ایک پورا خاندان خاک پر پڑاہے ۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ نما ماں زمین پر پڑی سو رہی ہے یا شاید سونے کی اداکاری کر رہی ہے . دو بیٹیاں اور ایک چھوٹا سا بچہ بھی اس کے ساتھ لیٹا ہے ۔ایک بچی کی آنکھیں کُھلی ہوئی ہیں ۔ چھوٹا بچہ درمیان میں ہے اور میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس بے ہنگم بڑھی ہوئی شیو والا باپ ہاتھ میں گتے کا ٹکڑا پکڑے بیٹھا ہے ، وہ بچے کو گرمی سے بچانے کے لیے گتے کو دائیں بائیں ہلا رہا ہے ۔ ممکن ہے کسی آسودہ حال کو رحم آئے اور وہ اس بے چھت کے پری وار کو ایک وقت کھانا سامنے کے ہوٹل سے کھلا دے لیکن مجھے بتائیے کہ ریاست کہاں ہے؟ ہے بھی یا نہیں؟ مر گئی ہے؟

مجھے میڈیا سے کوئی شکوہ نہیں ، میں خود اسی انڈسٹری کا ملازم ہوں ۔ جی میں نے ”انڈسٹری” کہا ہے اور ”ملازم” کہا ہے اور میں اس وقت ہوش میں ہوں. جانتا ہوں کہ میڈیا وہی دکھاتا ہے جس سے ریٹنگ ملتی ہو ۔ جس سے سرمایہ ملتا ہو۔ لیکن عام آدمی سے یہ شکوہ ہے کہ وہ کیوں نہیں پھٹ پڑتا ۔ وہ کیوں ان ظالم حکمرانوں ہی کو اپنا مسیحا سمجھتا ہے ۔ اس کی چیخ کیوں نہیں نکلتی ۔ کیوں وہ گونگا مظلوم بن چکا ہے ؟

یہ ڈرامے باز لیڈر نما لٹیرےالیکشن سے 15 دن پہلے آپ کو بجلی دیں گے ، نئی گلیوں اور سٹرکوں کی تختیاں لگائیں گے ۔ جلسے کریں گے ۔ٹوٹی سڑکوں پر کالک پھیریں گے ، آپ کے محلے میں آ کر آپ کے ساتھ مصافحہ بھی کریں گے ، مجھے یقین ہے کہ آپ سب کچھ بھول بھال کر انہیں گلوں میں مالائیں اور ہار ڈالیں گے ۔ آپ ان کے لیے نعرے لگائیں اور پھر انہیں خود ہی اپنے اوپر مسلط کر لیں گے ۔ ایسی قوم کو کیا کسی اورسے شکوہ کرنا زیب دیتا ہے؟

مجھے حیرت ہوتی ہے ۔ گزشتہ چند ماہ سے پنجاب کے وزیر اعلی نے شہر میں بہت ساری لال رنگ کی بسیں چلا رکھی ہیں ، ہر بس کی پشت پر خود کو خادم کہنے والے اس شخص کی تصویر آویزاں ہے اور ساتھ لکھا ہے پنجاب اسپیڈ ۔ ۔ ۔ کیسی اسپیڈ ہے بھائی یہ ؟ ذرا بتاو تو ۔ بسیں ہیں کہ سڑکوں پر خالی دوڑتی پھر رہی ہیں اور ان کے اندر لگی ہوئی ٹھنڈی مشینوں(اے سی) کی ہوا کو صرف اکیلا ڈرائیور انجوائے کر رہا ہے ۔ بتاو یہ کروڑوں روپے کا ایندھن کس کی جیب سے جا رہا ہے ۔ عوام کی یاپھرحکمرانوں کی؟ ظلم یہ نہیں تو پھر اور کیا ہے؟

عام آدمی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ، بے شمار ایسے ہیں جن کے سر پر چھت نہیں ، شہروں کی مخصوص شاہراہوں سے ذرا ہٹ کر جو آبادیاں ہیں ، وہاں زندگی حیوانوں سے بدتر ہے ، گلیاں ٹوٹی پھوٹی اور گٹر ابل رہے ہیں ، عام آدمی اپنے بچے کو تعلیم نہیں دلا سکتا ، ہسپتالوں میں جو خواری ہے اس کا تصور کر کے حساس آدمی ہِل کر رہ جاتا ہے ، تھانوں میں انسانیت کی جو تذلیل کی جاتی ہے اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے اور یہ بے حس حکمران کہتے ہیں کہ ہم شہروں کو استنبول جیسا بنا رہے ہیں۔یہ بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد نہیں‌ کیا؟

ابھی شہروں کی یہ حالت ہے ، ذرا تصور کیجیے اس گاوں کا جو جنوبی پنجاب کے کسی گرم ترین صحرا کے پاس واقع ہے یا وہ آبادی جو کسی بلند پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ جہاں مواصلات کا ڈھنگ کا نظام نہیں ، سڑکیں نہیں اور ایک دن بجلی آئے تو اگلے چھ دن غائب رہتی ہے ۔ جو آتی بھی ہے اس کا وولٹیج اتنا کم ہے کہ بلب کےاندر لگی تار مشکل سے لال ہوتی ہے. ہسپتال وہاں نام کو نہیں ، اسکولوں کی جو حالت ہے وہ ناقابل بیاں ہے . کیا ان لوگوں کی زندگی جنگلی جانوروں سے بدتر نہیں ہے ۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ان حکمرانوں کی ترجیح کبھی عوام رہے ہی نہیں ہیں ۔ اگر کسی حد تک ہیں بھی تو وہ صرف شہروں میں بسنے والے لوگ ۔ ۔ ۔ لیکن وہ بھی کیا؟

مجھے ان سیٹھوں سے کوئی دلچسپی نہیں جو درست و نادرست ہر طریقے سے دولت کما کر اور لوگوں کا خون چوس کر پھر کوئی ”عوامی دستر خوان” لگا کر خدا کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ، مجھے تو شکوہ ان حکمرانوں سے ہے جو دعوے عوام کی خدمت کے کرتے ہیں لیکن ان کی ترجیح اپنی دولت میں اضافہ ہوتا ہے ، مجھے حکومت سے بڑھ کر شکوہ ان عام لوگوں سے ہے جو اتنی ذلت آمیز زندگی پر صبر کیے ہوئے ہیں ۔ ان واعظوں سے شکوہ ہے جو ان حالات کو تقدیر کا لکھا بتا کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اور بالواسطہ وہ مذہب کی تشریحات سے دولت کے پجاریوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ اور گمراہ ہوجانے والے ان عوام کا کیا کیا جائے جو ننگی پشت پر کوڑے کھانے کے باوجود بھی بیدار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے