تُرک ریفرنڈم پر عالمی ردِعمل

ترکی میں16 ؍اپریل کو ہونے والے عوامی ریفرنڈم پر دنیابھر میں تبصرے ،تنقید اورتعریف کاسلسلہ جاری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ترک صدر کو فون کرکے ریفرنڈم میں کامیابی پر مبارک بادی دی ۔وائٹ ہاؤس کے ترجمان شان اسپائیسر نے کہا کہ امریکا ترکی ریفرنڈم پر عالمی مبصرین کے تحفظات کو دیکھ رہا ہے اور اِس حوالے سے عالمی مبصرین کی حتمی رپورٹ کاانتظارہے ۔صدر اور وزیر اعظم پاکستان نے طیب اردوغان کو مبارکباد پیش کی اور کہاکہ یہ ریفرنڈم مضبوط اور طاقتور مملکت کے لئے ترک عوام کی خواہشات کا عکاس ہے ۔ انہوں نے اِس امید کا اظہار کیاکہ یہ ریفرنڈم ترکی میں استحکام اور خوشحالی کے لئے گزشتہ پندرہ سال میں کی جانے والی کوششوں کو مزید مربوط بنائے گا۔آذربائیجان کے صدر الہٰام علی یوف نے اپنے پیغام میں کہا کہ ریفرنڈم کے نتائج ترک عوام کی صدر رجب طیب اردوغان کی پالیسیوں کی ایک بڑی سطح پر حمایت کا مظہر ہیں۔

جرمنی کے وزیر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ریفرنڈم میں بڑے کم مارجن سے کامیابی کے بعد صدر اردوغان پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے ،کیونکہ اس ریفرنڈم کے نتیجے میں ترک قوم میں تقسیم واضح نظر آتی ہے ۔ روس نے ترک ریفرنڈم کے نتائج کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے ۔ روسی نیوز ایجنسی تاس کے مطابق کریملن کے ترجمان دیمتری پیشکوف نے کہا کہ روس اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ہر کسی کو ترک عوام کی خواہشات اور فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے ۔ علاوہ ازیں ترکی کے شہر استنبول میں ریفرنڈم کے خلاف مظاہرہ بھی کیا گیاہے۔ مظاہرے کے شرکاء صدر کو حاصل وسیع اختیارات کے خلاف احتجاج کررہے تھے ۔ادھر ترکی میں پہلے سے نافذ اَیمرجنسی میں مزید تین ماہ کی توسیع کردی گئی ہے ۔

صدررجب طیب اردوغان کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔انہوں نے استنبول کی میئرشپ سے آغازکیا اورترکی کی صدارت تک جاپہنچے۔وہ اتاترک مصطفی کمال پاشا کے بعد طویل ترین عرصہ تک مسندِ اقتدارپر فائض رہنے والے منتخب حکمران ہیں۔صدرطیب اردوغان اسلام پسندحلقے کے ہیروسمجھے جاتے ہیں۔ 623برس تک خلافت عثمانیہ کا مرکز رہنے والے ترکی میں خلافت کے خاتمہ کے بعد1923 میں اتاترک نے جس ترک جمہوریہ کی بنیاد رکھی تھی،اُس کاقبلہ مغرب اور1928 سے اُس کا نظام مملکت سیکولرزم تھا،مگر 80 برس بعد جب 2003 میں اردوغان نے اقتدارسنبھالا تو انہوں نے سرکاری دفاتر میں عورتوں کے حجاب لینے پر عائد پابندی ختم کر دی۔ جس کی اعتدال پسندحلقوں نے بھی حمایت کی۔جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے اردوغان کی چیئرمین شپ میں ترک سیکولرآئین کے ہوتے ہوئے کئی اہم مذہبی اقدامات کیے۔جس سے اتاترک کے سیکولرخیالات کی مالک فوج اوراُردوغان کی جماعت میں ٹکراؤ پیداہوا،مگرآہستہ آہستہ فوج کو پسپائی اختیارکرنے میں ہی عافیت محسوس ہونے لگی۔اب ترکی میں اسلام اورسیکولرزم میں فاصلے انتہاؤں کو چُھونے لگے ہیں۔

طیب اُردوغان کے حکومت میں آنے سے پہلے ترکی کا بال بال بیرونی قرضوں میں جکڑاہواتھا،مگر صدرطیب کی جاندارمعاشی پالیسی کی بدولت ترکی عالمی ساہوکاروں کے چنگل سے آزادہوگیااورتمام غیرملکی قرضوں سے نجات حاصل کرلی ہے۔اب ترکی کا شماردنیاکے معاشی لحاظ سے بڑے سترہ ممالک میں ہوچکاہے۔اِسی طرح تعلیم کو عام کرنے میں بھی طیب اردوغان کا اہم کردارہے۔جس سے عوام میں شعورجاگا۔اگرچہ سیکولر فوج نے صدرطیب کے خلاف بغاوت کی مگرانہوں نے عوامی قوت کے بل بوتے پر اُسے کچل دیاگیا۔صدرطیب کی پالیسیوں نے ترکی کو ترقی کی منزل سے آشناکیاہے۔

ترکی میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔صدرطیب اردوغان کو نئے اقدامات کے لیے پارلیمانی نظام میں محدوداِختیارات اورکئی آئینی روکاوٹیں درپیش تھیں۔اِس کا حل انہوں نے ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے میں بہترخیال کیا۔صدرطیب کے بقول:’’ جمہوریہ ترکی کے قیام کی 100ویں سالگرہ 2023ء کے لیے ہم نے جن اہداف کاتعین کیاہے ‘ان تک صدارتی نظام کے ساتھ ہی رسائی ممکن ہے ۔ ‘‘ اب وہ 16 ؍اپریل کے صدارتی ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔صدارتی نظام کے لیے ریفرنڈم میں اُن کی کامیابی کاتناسب 51.03فی صدرہا۔اگر وہ اِس کامیابی کے ہوتے ہوئے،جبکہ ترکی کی اپوزیشن ان نتائج کو چیلنج کرنے کا اعلان کرچکی ہے، ملکی نظام میں تبدیلی لانے کا اختیارحاصل کرلیتے ہیں تووہ اِس صورت میں 2029 تک عہدے پر فائز رہیں گے اور انہیں وہ اختیارات حاصل ہوجائیں گے جو اِس سے قبل وزیراعظم کو حاصل تھے۔ جن میں کابینہ کے وزرا کا انتخاب، سینئر ججوں کے چناؤ اور پارلیمان کو برخاست کرنے کے وسیع اختیارات شامل ہیں اوروہ قوانین کے اجراکا حکم بھی جاری کر سکیں گے ۔نیز صدر کے پاس عدلیہ میں مداخلت کرنے کا اختیار بھی ہوگا، جو صدر اردوغان کے مطابق فتح اللہ گولن کے دباؤ میں آ چکی ہے ۔جبکہ ملک میں ایمرجنسی کو نافذ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بھی صدر ہی کرے گا۔

صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ یہ تجویز کردہ اصلاحات ترکی کو مزید مستحکم کرنے میں مدد دیں گی۔ تاہم ناقدین صدر پر آمرانہ رویے کا الزام لگا رہے ہیں کہ اِس طرح حکومت اورجماعت ایک ہی مُٹھّی میں بندہوجائیں گی۔حالانکہ ترکی میں صدر مصطفیٰ کمال اتاترک اورصدر عصمت انونو طویل مدت تک ملک کے صدرہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو صدرطیب کا صدارتی نظام لانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔دنیاکے بیشتر مستحکم ممالک میں صدارتی نظام حکومت رائج ہے ۔، اگر ستر ممالک میں صدارتی نظام موجود ہے تو پھر ترکی میں صدارتی نظام پر اعتراض کیوں کیاجارہاہے۔ہرملک کو اپنے امورچلانے کے لیے، اپنی صوابدید پر نظامِ مملکت ترتیب دینے کا حق حاصل ہوتاہے۔دراصل صدرطیب اردوغان کے صدارتی نظام لانے پر یورپی دنیاشدیدبے چینی سے دوچارہے،کیونکہ آٹھ کروڑ کی آبادی پر مشتمل ترکی، کی ترقی نے یورپی یونین کو حواس باختہ کررکھاہے۔یورپی یونین اورترکی کے مابین تجارتی برآمدات کا تناسب 48 فی صدتک جاپہنچاہے اورترکی کو اِس وقت یورپی ممالک میں چھٹا بڑا اقتصادی نظام ہونے کا درجہ بھی حاصل ہے۔

ترکی پر اعتراضات کی بوچھاڑکرنے والے درحقیقت ایک مضبوط ومستحکم اسلامی ملک کی قوت سے خائف ہیں۔اکیسویں صدی کے جدیدترکی نے اپنی آزادانہ قوت کا احساس دلایاہے۔مسلم اُمہ اورمجبورومقہورقوموں کو اَپنی امدادوتعاون سے قوت و حوصلہ بخشاہے۔ ملک میں اسلام کی بالادستی اوراسلامی تشخص کی بحالی کے لیے ترکی کے اقدامات عالم اسلام میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔شام ،عراق اورکشمیرکے مظلوم مسلمانوں کی دادرسی ،داخلی وسرحدی مسائل کے حل،شام کے ساتھ تنازعات کے خاتمے اورعالم اسلام کی رہنمائی وقیادت کے لیے اگرصدر اردوغان اپنے تدبرو بصیرت کوبروئے کارلانے میں کامیاب ہوتے ہیں اورترکی میں اسلام کی تمام شعبہ ہائے زندگی میں عمل داری قائم کرنے میں کامرانی اُن کامقدربنتی ہے تو خلافت عثمانیہ کی یادیں زندہ ہوجائیں گی ،وگرنہ محض لامحدود اِختیارات اوربے لگام قوت، استبدادوآمریت کوفروغ دینے کا باعث بنے گی۔جس کانتیجہ ملک وقوم اورعالم اسلام کی بدنامی اورذِلت ورُسوائی پر منتج ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے