اقلیتیں اور ہمارا رویہ

ربِ محمدﷺ دلوں کے بھید جانتا ہے، وہ جانتا ہے کہ میں نے جب بھی لکھا، اپنے احساسات اور آس پاس رونما ہونے والے واقعات سے متاثر ہوکر لکھا، مقصد اپنی رائے کی دوسروں تک رسائی ہے کیونکہ میں نے لکھاری بننا ہے نہ لفظوں کی جادوگری سے مجھے کوئی لگاؤ ہے، کیونکہ لفظوں کی جادوگری کرنے والے کتنے ہی خدا بن بیٹھے ہیں کہ انہیں گننا بھی محال ہے۔

ایک عرصے سے وطن عزیز پاکستان دھشت گردی کی لپیٹ میں ہے، اقلیت و اکثریت کسی کا بھی عبادت خانہ محفوظ نہیں، مسلم و غیر مسلم ابھی اس کی لپیٹ میں ہیں ، ملک دشمن عناصرکو ہماری کمزوریوں کا علم ہے پر یہ لوگ خود نہیں آتے، ہم جیسے ہی ان کی مدد کرتے ہیں۔

اقلیتیوں کا تحفظ باشعور معاشرے کے ہر فرد پر لازم ہے جبکہ اسلام میں تو ان کی حفاظت تمام مذاہب سے بڑھ کر ہے مگر نہایت افسوس کے ساتھ لکھ رہاہوں کہ ہمارے ہاں یہ فیشن بن چکا ہے کہ کہیں بھی کوئی بھی، کسی بھی اقلیتی فرد کا قتل ہوتا ہے تو کچھ دوست دانستہ اور کچھ سادہ لوح انجانے میں اُن واقعات کے مرثیے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا شروع ہوجاتے ہیں اور یقین مانئے اگر بغیر تحقیق کے بات آگے بڑھانے کو اولمپکس میں شامل کردیا جائے تو پاکستانی ہی سونے کے تمغے لیں گے، اس کیٹیگری میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ایسا ہی ایک مسلمان کے قتل پر بھی ہوتا ہے، بغیر تحقیق کے اُسے اسلامی شعائر یا قانونِ رسالت ﷺ سے جوڑ دیا جاتا ہے، انجان لوگ قاتلوں کی طرح خود جج بن کر فیصلے صادر کرنا شروع ہوجاتے ہیں جن کی واہ واہ ہم جیسے ہی کرتے نظر آتے ہیں۔

آئیے میں یہ بات آپ کو سمجھنے کیلئے کچھ مثالیں دوں:

1۔ کچھ عرصہ قبل خیبر پختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد میں ایک شیعہ سرکاری افسر کو گولیاں مار دی گئی، وہ پاڑہ چنار کا رہنے والا تھا مگر یہ واقعہ ایبٹ آباد میں پیش آیا۔ ہمارے کمپیوٹر ائزڈ ذہنوں میں فٹ خودساختہ ججوں نے اُسی وقت فیصلہ صادر کردیا کہ پاکستان میں شیعہ کو ایک شدت پسند سُنی ہی قتل کرسکتا ہے، لہٰذا مظلومیت کا علم لئے حقوق انسانی کے جاہل علمبردار نوحہ کناں ہوئے اور ملک میں شدت پسندی کو سُنیوں کے سر ڈال کر طنز و تشنیع کے نشتر ہر طرف چلانے لگے۔

ڈراپ سین: وہ شیعہ جائداد اور دوسری شادی کے گھریلو مسئلے کی وجہ سے اپنوں ہی کے ہاتھوں قتل ہوا تھا مگر جس تیزی سے اُس کے قتل کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا تھا، حقائق سامنے آنے کے بعد حقوقِ انسانی کے نام نہاد علمبرداروں نے رجوع کرنے کی زحمت تک گوارہ نہ کی۔

2۔ کچھ دن پہلے مشال خان جیسے خوبصورت جوان کو توہینِ رسالت ﷺ کے بے بنیاد الزام میں ظلم و بربریت کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا، معاملہ جیسے ہی سوشل میڈیا اور ٹی وی کی زینت بنا، یہ طبقہ اور یہ ذہنیت وہی ساز و سامان لے کر اُسی طریقہ واردات کے ساتھ اسلام پر حملہ آور ہوئے اور زمین آسمان ایک کرنے لگے ۔

ڈراپ سین: قتل کے پیچے یونیورسٹی انتظامیہ اور سیاسی مقاصد ہونے کے شواہد سامنے آئے۔

3۔ آج ایک قادیانی پرنسپل عورت کی خبر پڑھی جسے قتل کردیا گیاہے اور قادیان دوست لابی وہی طریقہ واردات، وہی آلاتِ جراحی لے کر اسلام اور مسلمانوں کے بغیر اجازت اور بغیر ضرورت آپریشن کرنے لگے ہیں جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔

ڈراپ سین: اطلاعات ہیں کہ اُسے ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت میں قتل کیا گیا۔

اب ان سارے واقعات کو غور سے پڑھنے کے بعد آپ اور میں ایک منٹ کیلئے گردن جھکا کر اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے یہ سوچ تو سکتے ہیں کہ بحیثیت ایک معاشرے کے ہم کہاں جا رہے ہیں اور ہم خود اس رفتار اوراس راستے کے تعین میں کتنے ملوث ہیں، یہاں کسی کے بھی قتل کو جواز فراہم نہیں کیا جارہا پر کیا ہم اتنا انتظار نہیں کرسکتے کہ حقائق سامنے آئیں؟ کیا ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ بلا تحقیق لوگوں کو گستاخ قرار دے دیتے ہیں۔ پشتو میں محاورہ ہے کہ سچ کے پہنچے تک جھوٹ کئی گاؤں ویران کرچکا ہوگا، ہمارے یہی ہوتا ہے کہ سچ کے آنے تک مخصوص لابی جھوٹ پر اپنے پسند کے لیبل لگا کر مارکیٹ میں اسے فروخت بھی کرچکی ہوتی ہے اور جب تک سچ آتا ہے تو مارکیٹ بند ہوچکی ہوتی ہے،اور وہاں سچ کے خریدار تو کیا مفت میں سننے والے بھی نہیں ملتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے