مذہبی اختلافات کا حل تحقیق ہے

دو ذہین طالب علم تهے، ایک کا نام اسلم تها اور دوسرے کا نام انور’ دونوں محنتی اور عاشق علم تهے ،وسعت قلبی وذہنی سے دینی اور دنیوی مسائل کے بارے میں غور وخوض کرنا ان کا خاصہ تها ،ان کا بیشتر وقت لائبریری میں گزرتا، وہ مختلف کتابوں کا دقت اور باریک بینی سے مطالعہ کرتے، خصوصی طور پر مذہب اور فرقوں کے بارے میں تحقیقی مطالعہ کرکے مواد جمع کرنا ان کا محبوب مشغلہ تها، وہ دوسروں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے مذہبی بننے کے ہرگز قائل نہ تھے، وہ اصول اور فروع میں ہمیشہ دلیل ،برہان اور منطق کے تابع تهے- وہ اس بات پر ایمان رکهتے تهے کہ اسلام حکم عقل اور فطرت کے موافق ہے نہ مخالف ، ان دونوں کی ایک اچهی عادت یہ تهی کہ روزانہ لائبریری میں تین گھنٹے مطالعہ کرنے کے بعد وہ ایک گهنٹہ دینی موضوعات پر مباحثہ ضرور کرتے ، اپنے تحقیقی مواد ایک دوسرے کو سناتے- یہی وجہ تهی کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے اعتقادی اور فقہی مسائل سے وہ آشنا تهے، وہ پاکستان کے معاشرے میں رہتے تھے، جس کی وجہ سے شیعہ اور سنی اعتقادات کی تحقیق کرنا ان کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا، اس لئے کہ وہ اپنی آنکهوں سے اپنے معاشرے میں شیعہ اور سنی کے اختلافات کی شدت دیکهہ رہے تھے ، انہیں نظر آرہے تهے کہ پاکستان میں عوام اس بات پر باور کررہی ہے کہ شیعہ اور سنی دو متضاد فرقے ہیں، جن کا ایک نقطہ پر جمع اور متحد ہونا محال ہے- اسلم اور انور نے تعصب مذہبی کی عینک اتارکر پوری توجہ سے شیعہ اور سنی کے اعتقادات کی تحقیق کرنا شروع کیا ،سب سے پہلے انہوں نے اہل تشیع اور اہل تسنن کے اعتقادات کی ان کتابوں کا عمیق مطالعہ کیا جو منابع اصلی شمار ہوتے ہیں- اس کے بعد شیعہ اور سنی فقہآء کے آراء اور نظریات کی چهان بین کی ، مسلسل زحمت اور جستجو کرنے کے نتیجے میں یہ حقیقت ان کے لئے آشکار ہوئی کہ پاکستانی معاشرے میں جو شیعہ سنی کے اختلافات کو ناقابل حل بناکر ان کو ایک دوسرے کا دشمن بنایا ہوا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ دشمنوں کا بنا ہوا ایک جال ہے جس میں پاکستانی عوام گرفتار ہیں – مسلم دشمن عناصر نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر شیعہ اور سنی کے درمیان دوری بلکہ دشمنی پیدا کرنے کی کو شش کی گئی ہے اور وہ اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب دکھائی دے رہا ہے- انہیں تحقیق کی بدولت یہ پتہ چلا کہ شیعہ اور سنی کے اعتقادات میں مشترکات اتنے ذیادہ ہیں کہ گویا ان کے اعتقادات ایک ہیں, جیسے دونوں خدا کے وجود اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں، دونوں انبیآءورسل کی نبوت ورسالت اور معاد پر ایمان رکھتے ہیں، حضرت علی علیہ السلام، مہدویت کا مسئلہ، محبت اہل بیت علیہم السلام، فلسطین کے لوگوں کا دفاع، اسرائیل اور امریکہ کی دشمنی سے مقابلہ کرنے پر وہ یکسان اعتقاد رکهتے ہیں-

وہ یہ بهی جان چکے تھے کہ شیعہ اور سنی کے اعتقادات اور احکام میں اختلاف اس قدر کم ہے جو مشترکات کی نسبت آٹے میں نمک کی طرح ہے اور یہ مشترکات کے زیر سایہ دفن کرنے کے قابل ہے- اتحاد مسلمین کے سلسلے میں شیعہ سنی اکابرین اور فقہآء کے فتوے بالخصوص رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای اور الازهر یونیورسٹی کے معروف مفتی اعظم شیخ محمود شلتوت کے معروف فتوے پڑهکر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی آپ بهی دیکھیے ان کے فتوے

” امام خامنہ ای نے واضح طور پر فرمایا ہے” کہ زوجہ رسول (ص) حضرت عائشہ نیز اہل سنت کی مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے” اور دوسری جانب سے شیخ شلتوت صاحب کا یہ معروف تاریخی فتوی ہے آپ نے فرمایا” تمام مسلمانوں کو دوسرے چار مذاہب (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کی طرح مذہب جعفری کی پیروی کی بھی دعوت دی جاتی ہے، فقہ جعفری کے مطابق عمل کرنا جائز ہے”

اسلم اور انور کی دینی اور مذہبی معلومات میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا، کیونکہ وہ روزانہ تین گھنٹے ضرور پڑهتے تهے، مختلف موضوعات پر تحقیق کرکے وہ مضبوط اعتقادات اور مستحکم ایمان کے مالک بن چکے تھے- انہوں نے وحدت مسلمین کے سلسلے میں بهی مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا ، انہیں اس بات کا علم ہوا کہ اہل تشیع اور اہل سنت کی علمی شخصیات اور فقہاء نے اتحاد مسلمین کی حفاظت کے لئے بہت کوششیں کی ہیں، جیسے؛ آیت اللہ بروجردی ، امام خمینیؒ، علامہ شرف الدین، امام موسیٰ صدر وغیرہ اورمفتی اعظم شیخ شلتوت محمود فخام اور دوسرے اکابرین اہل سنت – انہوں نے مسلمانوں کے درمیان وحدت برقرار کرنے کے لئے بڑے ہی مؤثر اقدامات کئے ہیں-

بحث ومباحثہ کے دوران اسلم نے انور سے کہا” مجهے اتحاد مسلمین کے موضوع پر مطالعہ کے دوران کچهہ دلچسپ نکتے ملے جنہیں میں نے اپنی یاد داشت کی کاپی میں نوٹ کیا ہے وہ یہ تهے کہ مفتی اعظم شیخ محمود شلتوت دو چیزوں کو اتحاد بین المسلمین کیلئے بہت اہم سمجھتے ہیں۔ ١۔تعصب سے دوری: اسلامی مذاہب کے علما ء اگر بے جا تعصب کو ترک کریں اور انصاف و عدالت کی نگاہ سے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اتحاد اور یکجہتی میں کافی موثر ہے اس لئے کہ مسلمانوں میں اختلاف کی ایک وجہ ایک دوسرے کے نظریات و اعتقادات سے عدم آگاہی ہے۔ ٢۔علمائے دین :اتحاد کا دوسرا اہم عامل مسلمان علماء ہیں جو اختلاف کے نقصانات اور اتحاد کے فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی وحدت میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں …اسلئے کہ علماہی ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب اور اکٹھا کر سکتے ہیں اور اسلام ومسلمین کے عالمی دشمنوں کے مقابلے کھڑے ہو سکتے ہیں۔

شیخ شلتوت صاحب نے اپنے زمانے میں بہت سے سنی اور شیعہ علماء کو خطوط لکھے، ملاقاتیں کیں اور ان کو اتحاد واتفاق کی دعوت دی ۔ شیعہ علماء سے آپ کی گہری دوستی اور رابطہ تھا ۔ آیة اﷲ بروجردی سے آپ کو بہت گہرا لگاؤ تھا۔ آپ کا بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے اور مسلسل خط وکتابت کے ذریعہ مختلف اسلامی مسائل پر آپ سے بحث ومباحثہ بھی فرماتے تھے۔

یہ نکتے انور کو بهی پسند آیا اور کہا اسلم بهائی شکریہ آپ نے بہت اہم نکتے نوٹ کرکے مجهے بهی مستفیض کیا- اسلم نے بحث کے تسلسل کو برقرار رکهتے ہوئے بولا” اب آپ کی باری ہے اتحاد مسلمین کے بارے میں جو علمی مواد آپ کو ملا ہے وہ بیان کیجئے گا؟ انور نے ایک قہقہ لگایا پهر کہا آج میں لائبریری میں جاکر اتحاد مسلمین کے بارے میں ہمارے اپنے پاکستان کے شیعہ اور سنی قائدین کے نظریات پڑهہ رہا جو بات آج کے مطالعے میں جان کر میری مسرت کا سبب بنی وہ قائد شہید علامہ عارف حسین حسینی واقعی اتحاد کے داعی وعلمبردار ہونا ہے میں نے ان کی زندگی نامہ اور زندگی کی کارکردگی وفعالیتوں کا پوری توجہ سے مطالعہ کیا

ان کی پوری زندگی مسلمان کے درمیان اتحاد ہمدلی اور اخوت پیدا کرنے کی راہ میں گزری ہے وہ سچے مسلمانوں کے دکهہ درد رکهنے والے تهے یادگار کے طور پر ان کے چند جملے لکهہ کر لے آیا ہوں جو آپ کی سماعت کی نزر کروں گا اتحاد مسلمین کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک موقع پر انہوں نے فرمایا ” آج اتحاد اُمت کی اشد ضرورت ہے: آج کا مسلمان بیدار ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارا مرکز اور ہماری بقاء صرف اور صرف اسلام سے ہے اور ہمیں اتحاد بین المسلمین کے جھنڈے تلے جمع ہو کر روسی اور امریکی گماشتوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ آج مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے بلکہ اسلام و کفر کا مسئلہ درپیش ہے۔ مسلمان متحد ہوکر ہی قومیتوں کے بتوں کو توڑ سکتے ہیں۔ ہمیں ناصرف سازشی عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہوگی بلکہ فسادات برپا کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے۔پوری امت مسلمہ ایک جسد واحد کی طرح اپنے تمام وسائل کے ساتھ دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے، اور اگر ایسا ممکن ہوسکا اور انشاءاللہ ایک دن ضرور ایسا ہوگا تو پھر کسی بین الاقوامی استحصالی قوت کو امت مسلمہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی۔ ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کیلئے سرگرم عمل ہوجائیں گے اور باطل قوتوں کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل کو اپنانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف توجہ فرمائیں گے، نہ یہ کہ بعض حکومتوں کے ایماء پر آپ اسلامی کانفرنس کی طرف سے ایسی کانفرنس کا انعقاد کروائیں جو امت مسلمہ کے مفادات کو زک پہنچانے کے درپے ہو۔””

اسلم نے بهی انور کا شکریہ ادا کیا اور انور سے یہ سوال کیا یار پهر کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ میں نے اہل تشیع اور اہل سنت کے بہت سارے افراد کو مجالس محافل اور مختلف مناسبات میں ایک دوسرے کے عقائد کے خلاف توہین آمیز باتیں کرتے سنا ہے؟

انور نے جواب میں کہا بهائی ایسے افراد چاہیے سنی ہوں یا شیعہ حقیقت میں دشمنوں کے ہاتهوں بکے ہوئے کرائے کے افراد ہوتے ہیں، جو ناخواندہ اور جاہل ہوتے ہیں، انہیں مذہب، مکتب اور دین کا کچهہ پتہ نہیں ہوتا، آپ ان کے پاس جائیے اور قرآن کهول کر ان سے قرآن پڑهہ کر سنانے کا تقاضا کروگے تو یقین کیجئے وہ قرآن درست نہیں پڑهہ پائیں گے بے شک آپ تجربہ کریں- وہ لوگ ہماری عوام کی جہالت سے سوء استفادہ کرتے ہیں- ان کا ہدف صرف عوام کو خوش کرکے اپنی جیب گرم کرنا ہوتا ہے- یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کو خوش کرنے کے لئے کچهہ بکواسات سناکر اپنے اور سامعین کے اوقات ضائع کرکے اپنا مقصد پورا کرتے ہیں- ایسے افراد سے ہمیں کهبی متاثر نہیں ہونا چاہئے, دین فہمی اور قرآن واحادیث کی تعلیمات سمجهنے کے لئے ہماری عقل کہتی ہے کہ تم دین کے متخصص افراد کی جانب رجوع کریں- جس طرح جب ہم مریض ہوجاتے ہیں تو کهبی بهی ہم ہر کس وناکس ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے ہیں ، بلکہ ہم ہمیشہ انہی ڈاکٹروں کے پاس رجوع کرتے ہیں جو اسپیشلسٹ ہیں تو دینی مسائل میں بهی عقل یہی کہتی ہے کہ تم دین فہمی کے لئے ضرور دینی ماہرین ( مجتہد- مفتی ) سے رجوع کرو مگر ہماری عوام جسم کی بیماریوں کے علاج کے لئے تو متخصص ڈهونڈتے ہیں مگر روحی امراض کے مداوا اور معالجے کے لئے متخصص کی تلاش کرنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں- کاش ہماری عوام اب بهی ان حقائق کو سمجهنے کی کوشش کرتے – اسلم اور انور کی طرح تمام مسلم تعلیم یافتہ طبقے تحقیق, مطالعہ اور مباحثہ کرنے کی زحمت کریں تو کوئی حقیقت مخفی نہیں رہے گی شرط یہ ہے ان کی طرح تعصب مذہبی کی عینک اتار کر تحقیق کرنا شروع کریں بے شک مذہبی اختلافات کا حل تحقیق ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے