شفاف تحقیقات کے لیے استعفیٰ اہم

بالآخر عدالت عظمیٰ نے طویل دورانیہ کے بعد پاکستان کی تاریخ کے ایک اہم ترین کیس پانامہ کا فیصلہ سنادیا ۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد اور جماعت اسلامی کے سراج الحق نے پاناما لیکس سے متعلق درخواستیں دائر کی تھیں، درخواست گزاروں نے عدالت عظمٰی سے درخواست کی تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف، کیپٹن صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نااہل قرار دیا جائے . عدالت عظمیٰ نے 23 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا اور 57 روز بعد آج 20 اپریل کو سنادیا ۔

سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ایک میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما کیس کا 540 صفحات پر مشتمل پہلے سے محفوظ فیصلہ پڑھ کر سنا یا ۔ یہ فیصلہ جسٹس اعجاز افضل خان نے تحریر کیا ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ سنانے سے پہلے کہا کہ فیصلہ 547 صفحات پر مشتمل ہے جس میں سب نے اپنی رائے دی ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،سب نے اپنی رائے دی ہے،فیصلہ تین اور دو کا ہے ، رقم کیسے قطر گئی تحقیقات کی ضرورت ہے، چیئرمین نیب غیررضامند پائے گئے، چیئرمین اپنا کام کرنے میں ناکام رہے، اس لیے جے آئی ٹی بنائی جائے، وزیراعظم، حسن اور حسین جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں ، جے آئی ٹی ہر دو ہفتے کے بعد بینچ کے سامنے رپورٹ پیش کرے گی، ڈی جی ایف آئی اے وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات میں ناکام رہے، جے آئی ٹی سات روز میں بنائی جائے،جے آئی ٹی میں ایف آئی اے،نیب اور ایس ای سی پی کو شامل کیا جائے، آئی ایس آئی، ایم آئی کو بھی جے آئی ٹی میں شامل کیا جائے، فیصلے میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اختلافی نوٹ لکھا کہ وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جائے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تین ججز کا فیصلہ ہے کہ معاملے کی تحقیقات ہوں۔

اس فیصلے کے بعد ملک بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے ۔ ایک طرف حکمراں جماعت اسے اپنی کامیابی قرار دے کر بھنگڑے ڈال رہی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن اپنی کامیابی کے شادیانے بجا رہی ہے ۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے جے آئی ٹی کی تحقیقات مکمل ہونے تک وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کردیا ہے ۔ میری نظر میں یہ فیصلہ درخواست گزاروں کے پیش کردہ شواہد کی روشنی میں مناسب فیصلہ ہے ۔ کوئی بھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ملک کا حکمراں خاندان کا اس طرح تمسخر اڑے گا ، انہیں جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ کرپشن ، بدیانتی ، جھوٹ ، کی مہر جو نواز شریف اور انکی جماعت پر لگ چکی ہے ، اسے پانامہ کے فیصلہ سے مٹایا نہیں جاسکتا ۔ عدالت کی ججمنٹ نے وزیراعظم اور ان کے بچوں کو مجرم نہیں مگر ملزم تو ثابت کردیا ہے ۔ عمومی طور پر جے آئی ٹی کسی ملزم ، یا دہشتگرد سے تحقیقات کرنے کی غرض سے بنائی جاتی ہیں ۔ وزیراعظم کا 19 گریڈ کے سرکاری افسر کے سامنے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی غرض سے پیش ہونا اس سے بڑھ کر اور کیا توہین ہوگی ؟ کیا یہ وزیراعظم کے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں ؟ بظاہر تو وزیراعظم نااہل ہونے سے بچ گئے مگر مزید تحقیقات تک ناہلی کی تلوار سر پر منذلاتی رہے گی ۔ مریم نواز وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں پانامہ کیس میں کلین چٹ ملی ہے ۔

جبکہ دو سینئر ججوں نے نوازشریف کو نااہل قرار دیا ہے،باقی 3ججز نے اس رائے کی تردید نہیں کی،معاملہ مؤخر کر دیا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دو سینئر ججز کی رائے سپریم کورٹ کی رائے سمجھی جا سکتی ہے ۔ لہذٰا دو معزز سینئر ترین جج اور مستقبل کے چیف جسٹس کے اختلافی نوٹ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، اور نہ ہی درخواست گذاروں کی شکست کہا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ اپوزیشن کی ناکامی تب ہوگی جب تمام ججز کے جانب سے متفقہ فیصلہ آتا ۔ سپریم کورٹ نے جہاں وزیراعظم اور انکے بچوں کی جانب سے پیش کی گئی منی ٹریل ، قطری خط کو مسترد کیا وہاں عدالت نے درخواست گذاروں کے پیش کردہ ثبوت و شواہد کو بھی نامناسب قرار دیا ۔

اب جے آئی ٹی آئندہ سات روز کے اندر قائم ہوجائےگی جو ہر چودہ دن بعد سپریم کورٹ کو اپنی پروگریس رپورٹ جمع کرائے گی ۔ دو جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کے بعد اور اخلاقی و قانونی طور پر بطور وزیراعظم نواز شریف کو تحقیقات مکمل ہونے تک استعفیٰ دے دینا چاہیے ۔ شفاف تحقیقات وزیراعظم کے استعفیٰ کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس خدشہ کا اظہار اپوزیشن جماعتیں بھی کرچکی ہیں ۔ اگر یہی فیصلہ کسی دوسرے مہذب اور مستحکم ملک میں آیا ہوتا تو وزیراعظم کو عدالتی کاروائی سے قبل ہی اسٹیپ ڈاوُن کرنا پڑجاتا ۔ آئیس لینڈ ، برطانیہ جیسے ملکوں کے وزیراعظم پہلے ہی استعفیٰ دے چکے ہیں ۔ حکمراں جماعت کا اس فیصلے کو اپنی کامیابی قرار دے کر اپوزیشن کی ناکامی کا ڈھول پیٹنا بے وقوفی کی علامت ہے ۔ حالانکہ دو سینئر ججز کے اختلافی نوٹ ، بینچ کی جانب سے قطری خط کو مسترد کرنا ، پھر مزید گیارہ سوالات اٹھا دینا اور تین ججز کی جانب سے اس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کے قیام کا حکم دینا اور ساتھ میں یہ بھی کہنا کہ وزیراعظم اپنے بچوں سمیت جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوں ۔ اسکے باوجود مٹھائیاں بانٹ کر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنا اور اپوزیشن کو ناکام قرار دینا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے سامنے کوئی ادارہ جب ثبوت نہیں پیش کرسکا تو وزیراعظم کے خلاف ڈپٹی ڈاریکٹر اور ڈاریکٹر لیول کی کیا ثبوت جمع کرسکے گی ؟؟ لہٰذا عملی طور پر وزیر اعظم کے اپنے عہدے پر برقرار رہتے ہوئے ان کے خلاف کسی شفاف تحقیقات کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ فی الوقت استعفیٰ ہی شفاف تحقیقات کا واحد ذریعہ ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے