پاناما فیصلہ۔۔۔۔۔ فاتح کون؟

سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی جانب سے پاناما کیس کا فیصلہ سنائے تین دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس فیصلے میں فاتح کون ہے۔ فیصلہ سامنے آنے کے فورا بعد مسلم لیگ ن کے راہنماوں نے سپریم کورٹ میں ہی مٹھائیاں تقسیم کر دیں، اس کی کچھ دیر بعد عمران خان کے ساتھیوں کی رس گلے کھاتے تصاویر جاری کر دی گئیں۔ پیپلز پارٹی فیصلے کی مزمت بھی کر رہی ہے اور نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی ۔۔ جماعت اسلامی بھی وزیراعظم سے استعفی مانگ رہی ہے اور حکومت مخالف گرینڈ الائنس بنانے کیلئے سراج الحق ماضی قریب میں جماعت اسلامی کے سب سے بڑے مخالف شیخ رشید کی لال حویلی میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں ایک عام آدمی کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ جشن منائے افسوس کرے یا پھر چپ کر کے تماشا دیکھے۔ میں کوئی قانون دان نہیں کہ اس فیصلےکا تجزیہ کرسکوں لیکن آنکھوں دیکھے اور کانوں سنے حقائق کی روشنی میں سیاست دانوں کے کردار کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ فاتح کون رہا۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے فرمایا تھا کہ وہ ایسا فیصلہ کریں گے جو بیس سال تک یاد رکھا جائے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فیصلے کا آغاز قانون کی کسی کتاب،آئین پاکستان یا عدالتی تاریخ کے کسی فیصلے سے نہیں بلکہ ایک ناول کے جملے سے شروع ہوتا ہے جس کے مطابق ”ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے جو اس مہارت سے کیا جاتا ہے کہ اسے کوئی پکڑ نہیں سکتا۔” اس جملے سے ایک تو دنیا کے امیر ترین اور ایماندار ترین افراد کا کردار مشکوک ہوتا ہے ان میں بل گیٹس ہوں، گولڈ سسمتھ ہوں یا کچھ اور تو دوسری جانب سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان اس جملے میں اپنی ناکامی بھی تسلیم کررہے ہیں کہ وہ نوازشریف اور ان کے خاندان کی کرپشن پکڑنے میں ناکام رہے ہیں۔فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔جن دو جج صاحبان نے نواز شریف کی نااہلی سے متعلق اختلافی نوٹ لکھا ہے وہ بھی بنیادی انسانی حقوق کا یہ قائدہ بھول گئے کہ سزا سے پہلے کسی بھی فرد کو ملزم ٹھہرایا جاتا ہے پھر اس پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے،اس فرد جرم پر جرح کی جاتی ہے اور اس کے بعد جرم کی سزا دی جاتی ہے۔جرم ثابت کیے اورکسی کو اپیل کا موقع دیے بغیر نااہلی کا فیصلہ تو کسی اور نے نہیں ان کے اپنے ساتھی ججز نے مسترد کر دیا ہے۔

دوران سماعت تمام فریقین نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس فیصلے کو من وعن تسلیم کریں گے، عمران خان نے اپنا عہد پورے ایک دن کیلئے نبھایا اور پہلے دن فیصلے کو تاریخی قرار دیا، دوسرے دن بازو پر کالی پٹی باندھ لی اور دوپہر کو جے آئی ٹی بنانے کے فیصلے کو مسترد کر دیا اور آخری اطلاعات تک وہ اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں اور حسب عادت جلسے کا بھی اعلان کر چکے ہیں۔ ن لیگ کی اکثریت نے فیصلے کو من وعن تسلیم کیا ہے لیکن اپنے مزاج کے مطابق خواجہ سعد رفیق اختلافی نوٹس پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اب آتے ہیں کہ اس فیصلے کا اصل فاتح کون ہے؟تحریک انصف کے چیئرمین عمران خان کا مقبول عام فرمان ہے کہ ”انسان کو تب تک نہیں کوئی نہیں ہرا سکتا جب تک وہ خود شکست تسلیم نہ کر لے” میری ناقص رائے میں عمران خان نے اپنے سیاسی کیریئر میں پہلی بار شکست تسلیم کر لی ہے۔ فیصلہ سننے کے بعد جس مایوسی کے عالم میں وہ سپریم کورٹ سے باہر نکلے اور اپنے کارکنان اور میڈیا سے گفتگو کیے بغیر روانہ ہوئے اور انکی باڈی لینگویج سے مایوسی چھلک رہی تھی، اس سے مسلم لیگ ن نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی فتح کا اعلان کر دیا۔ عمران خان کے اس مایوس کن عمل نے ملک بھر میں تحریک انصاف کے کارکنان کو مایوس کیا جبکہ لیگی راہنماوں نے اپنے مایوس کارکنان کو نیا حوصلہ بخش دیا۔ فیصلے میں معزز جج صاحبان کی آبزرویشن اپنی جگہ لیکن عوام میں ن لیگ کامیاب ٹھہری۔ پاناما لیکس سامنے آنے کے بعد عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ جب تک نواز شریف اپنے اوپر سے پاناما کا داغ ہٹا نہیں دیتے وہ تب تک قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ تنخواہ باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں، پاناما کا فیصلہ آنے کے فورا بعد عمران خان نے قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کا اعلان کر دیا گویا سپریم کورٹ نے تو نواز شریف کو کلیئر نہیں کیا تھا لیکن عمران خان نے انھیں کلیئرقرار دے دیا، یہ ن لیگ کی دوسری کامیابی تھی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تحریک انصاف کا پاناما کیس میں سب سے بڑا ہدف نواز شریف نہیں بلکہ مریم نواز تھیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مریم نواز نواز شریف کی زیرکفالت نہیں، جے آئی ٹی میں بھی مریم نواز کو پیش ہونے کا حکم نہیں دیا گیا اس سے مریم نواز 90 فیصد کلیئر قرار پائی ہیں یہ ن لیگ کی تیسری کامیابی ہے اور شاید یہی کامیابی ہے جس کا جشن منایا جارہا ہے۔

ایک عام آدمی کی رائے میں نواز شریف کو دھاندلی زدہ وزیر اعظم کے داغ سے چٹھکارہ پانے کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے اور اب ان کے گھنٹوں کے حساب سے بدلتے موقف سے ثابت ہورہا ہے کہ انھیں پاناما زدہ وزیراعظم سے کلیئر کرانے کا کریڈٹ بھی عمران خان کو ہی جائے گا۔ جس کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاناما کیس کا فاتح کون اور کیوں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے