کراچی کی سیاست میں منافقانہ کردار

کراچی میں گرمی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اسکے ساتھ کراچی کے سیاسی درجہ حرارت بھی دن بدن بڑھتا جارہا ہے ۔ عام انتخابات میں ایک سال باقی ہے ہر جماعت اپنی پوزیشن کو بحال کرنے اور عوام کو مطمئن کرنے کی سرتوڑ کوشش کرہی ہے ۔ آنے والے عام انتخابات حالی ہی میں وجود میں آنے والی ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے لیے محض الیکشن ہی نہیں ، بلکہ انکے لیے یہ آزمائش کا لمحہ بھی ہے ۔ کیونکہ دونوں جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ سے کے بطن سے جنم لینے والے گروہ ہیں ۔ جن جماعتوں کو کراچی کی عوام گذشتہ تیس سالوں سے مسترد کرتی آئی ہے ان جماعتوں نے بھی کمر کس لی ہے ۔ مگر فل وقت کوئی ایک جماعت بھی کراچی کے شہریوں کو بنیادی سہولیات دلوانے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔ کچرے کے ڈھیر اور گندگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ شہری طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں ۔ ابلتے گٹر ، ٹوٹی سڑکیں ،سیوریج کا ناقص نظام ، جہاں حکومت کی گورنس پر سوالات اٹھارہے ہے ، وہاں مقامی حکومت بھی انکی بحالی میں ناکام دکھائی دی ۔ پی ایس پی اپنے سولہ مطالبات کے ساتھ دو ہفتوں سے پریس کلب پر دھرنا دیے بیٹھی ہے ، لیکن ابھی تک کوئی ایک مطالبہ بھی نہ منواسکی ۔ جس جماعت کے اشارے پر جیلوں سے مجرم رہا ہوجائیں پھر کیا وجہ ہے وہ جماعت حکومت کو اپنے مطالبات کے حل کی جانب مائل نہ کرسکی ؟ کہیں اس دھرنے کے پس پردہ کوئی سیاست تو نہیں ؟ یا پھر دھرنا محض تماشہ ہے ، ڈھونگ ہے وجہ کچھ اور ہے ؟ اسکا فیصلہ دھرنے کے اختتام پر ہو ہی جائیگا ۔

دوسری طرف بائیس اگست کے بعد بانی ایم کیو ایم اور لندن قیادت سے علیحدگی اختیار کرنے والی جماعت ایم کیو ایم پاکستان بھی بروز اتوار ایک ریلی نکالنے جارہی ہے ۔ یہ ریلی حکومت سندھ کے خلاف نکالی جارہی ہے ، کراچی اور اربن سندھ کی عوام کی محرومیوں اور انکے حقوق کے حصول کی خاطر نکالی جارہی ہے ۔ مگر بانی تحریک سے لاتعلقی کے بعد اب تمام مسائل کے حل کی چوسنی جو کراچی کی عوام کے منہ میں دی گئی تھی ، اسکا کیا ہوا ؟ ستم تو یہ ہے کہ جو مقامی لوگ سندھ حکومت میں شمولیت کے وقت پروٹوکول اور عیش و آرائش کے مزے لیتے رہے ، انہیں نمائندگان کا گروہ اب اسی سندھ حکومت کے خلاف احتجاج کرہا ہے ۔ جنہوں نے ماضی میں جاہ مال کے خمار میں اصول سیاست اور خدمت سے انحراف کیا ، آج وہ قوم کا مستقبل سنوارنے چلے ہیں ؟ جو قرآن پر حلف لے کر اپنے موقف سے پھِر جائیں کیا وہ اب حقوق کے حصول کی تحریک کو منزل تک پہنچائیں گے ؟ کیا مذاق ہے کہ اب ماضی کہ چائنہ کٹنگ اور بھتہ خوری میں ملوث افراد پریس کلب پر دھرنا دے کر عوام کو ریلیف دلائینگے ؟ تف ہے

اب تو سخت ترین ناقدین بھی حلیف بن رہے ہیں ۔ ایک طرف تو ایم کیو ایم پاکستان کے چند رہنما تمام برائی کی جڑ لندن قیادت کو ٹھیراتے ہیں اور ان پر طعن و تشنیع کے تیر برساتے ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف وہ اپنے سخت ناقد مصطفی کمال کا ریلی کی حمایت کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں ۔ کون مصطفی کمال ؟ وہ مصطفیٰ کمال جس پر فاروق ستار اسٹیبلشمنٹ کا ہمنوا ہونے کا الزام لگاتے تھے ، اسکے کہنے پر ایم کیو ایم کارکنان رہنماوٴں پر دباوٴ ڈال کر انہیں پی ایس پی کا حصہ بننے پر مجبور کیا جاتا ہے ، وہ مصطفیٰ کمال جسکی ہذیان گوئی کے خلاف لمبی لمبی پریس کانفرنس کی گئیں ۔ آج وہ مصطفیٰ کمال فاروق ستار صاحب کی جماعت کو اچھا لگنے لگ گیا ہے . کراچی کی سیاست میں ایم کیو ایم پاکستان ، پی ایس پی اور مہاجر قومی موومنٹ میں اتحاد بننے جارہا ہے ۔ جب اقبال کاظمی نے ریلی نکالنے اور الطاف حسین کا خطاب کرانے کا اعلان کیا تھا ، تب فاروق ستار کی جماعت کی جانب سے اعتراض سامنے آیا تھا اور اقبال کاظمی کو آفاق کا وکیل قرار دیا تھاگیا ۔ مگر آج اسی آفاق احمد کی جانب سے ریلی کی حمایت کی گئی تو خرمقدم کیا جارہا ہے ۔ دوسری جانب ایم کیو ایم لندن پر فتنہ فساد ، طرح طرح کے الزامات لگا کر انہیں عوام سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ عوام کے اذہان میں بیرون ملک ایم کیو ایم کی قیادت سے متلعق نفرت بھری جارہی ہے ۔ بانی تحریک سے متعلق سوشل میڈیا پر نازیبا جملے کٙسے جارہے ہیں ۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ایک منظم پلاننگ کے تحت یہ سب کیا جارہا ہے ۔ تاکہ سرزنش کرنے والوں اور مقامی قیادت کے ہر عمل پر نظر رکھنے والوں کو سائیڈ کرکے اپنے جرائم اور گناہوں کےلیے سازگار ماحول بنایا جائے ۔ کیا یہ منافقت نہیں ؟ کراچی کی عوام کو پھر سے کسی سیاست کی نظر تو نہیں کیا جارہا ؟

کیا اس طرح سے شہری سندھ کی عوام کی خدمت کی جائیگی ؟ افسوس ! کل چائنہ کٹر ، عیش و عشرت کے مزے لینے والے آج قوم کو ایک بار پھر سے اپنی سیاست کی خاطر اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں ۔ لندن قیادت سے خود کو الگ کرنا پھر پی ایس پی جیسی جماعت کی حمایت کو قبول کرنا فاروق ستار کی جماعت کے اس منافقانہ اقدام پر بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں ۔ عامر خان ، فاروق ستار ، فیصل سبزواری کو بابر غوری ، واسع جلیل ، ندیم نصرت میں تو خامیاں نظر آرہی ہیں مگر جن پر خود وہ چائنہ کٹنگ ، ٹارگٹ کلنگ کے الزامات لگاتے تھے آج ان سے بغل گیر ہورہے ہیں ۔ کراچی کی عوام ان چالبازوں سے ہوشیار رہے اور خود کو ان ضمیر فروشوں کی سیاست میں جھونکنے سے گریز کرے ۔ ورنہ یہ پھر عوام کو اپنی ذاتی سیاست کی بھینٹ چڑھادیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے