نعروں پرتعزیزاورترجمان ریلوےکی پُھرتیاں

بچوں کو خواجہ سعد رفیق کا چہرہ اچھا نہیں لگا۔۔ یا انھیں وزیراعظم نواز شریف سے چڑھ تھی۔۔وزیرریلوے کی تقریر کے دوران کراچی سے آئے طلبہ نے گونواز گو کے نعرے لگا دیئے۔۔پھر کیا تھا وزیر ریلوے سیخ پا ہو گئے۔۔ تقریب سے نکلتے ہوئے ریلوے حکام اور ریلوے پولیس کو ڈانٹتے ہوئے بولے کیا اس لئے مجھے بلایا تھا ؟۔۔۔ریلوے پولیس پھر حرکت میں آگئی۔۔ کراچی کے چار طلبہ کو حراست میں لے لیا۔۔ کئی کو پھینٹی لگائی ۔۔ چھوٹے بچے اور بچیاں روتے ہوئے بھی نظر آئے۔۔ یوں کھیلوں کی یہ تقریب بچوں پر تشدد اور گرفتاریوں کی نذر ہوگئی۔۔ میڈیا نے تقریب کے اندرونی مناظر بھی دکھائے اور پولیس وین میں گرفتار کرکے لے جائے گے طلبہ بھی۔

جب میڈ یا پرخبر چلی تو ۔۔ ترجمان ریلوے نجم ولی پینترے بدلتے رہے۔ کبھی کہا غیر سیاسی تقریب تھی اس میں نعرے لگائے گئے ہیں ۔ بحثیت ترجمان میرا موقف ہے کہ نعرہ لگانے والے گرفتار بھی ہوئے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی بھی ہوگی۔ کچھ دیر بعد بولے گرفتار ہونے والے لڑکے کسی لڑکی کو چھیڑ رہے تھے ۔جب اینکر ز نے سوالوں میں الجھایا تو سرکاری ملازم جو غیر سیاسی تقریب میں سیاست کے خلاف بول رہے تھے پھر خود مسلم لیگ ن کے ورکر کی طرح میدان میں آ گئے ۔۔۔بولے تحریک انصاف واقعے کی ذمہ دار دار ہے انھیں اس کلچر کو پروان نہیں چڑھانا چاہیے۔۔۔تھوڑ ی دیر بعد طلبہ کی گرفتاری کی بھی تردید کردی۔۔ ۔ ایک طرف وہ گرفتارنہ کرنے پر زور دے رہے تھے اور دوسری جانب چینلز پر طلبہ کو گرفتار کرکے لے جانے کی فٹیج چل رہی تھی۔

گونواز گو ، کانعرہ جرم ہے یا طلبہ کو یہ نعرہ لگانا چاہیئے ؟ اس پر آگے چل کر بات ہوتی ہے فی الحال قانون کے حرکت میں آنے پر بات کرلیں۔ ۔۔ کراچی کے طلبہ گرفتارہو گئے۔۔بعد میں وزیراعظم نواز شریف کے رہا کرنے کے احکامات بھی پہنچ گئے۔۔۔ یہی زندہ دلان لاہور کاشہر تھا جب کچھ ہی عرصہ پہلے ریلوے سٹیشن پر سابق وفاقی وزیر اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد پر کسی لیگی کارکن نے جوتا پھینک دیا تھا۔۔ میڈ یا پر خبر بھی چلی اور جھوتا پھینکنے والے کی فٹیج بھی۔۔۔سب نے خوب انجوائے کیا۔ کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی نہ کسی تحقیقات کے خبط میں پڑنے کی کوشش کی۔۔۔ قانون تو سب کیلئے برابر ہونا چایئے۔

رہی بات طلبہ کی طرف سے نعرے لگانے کی تو یہ کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔۔ آپ کھیلوں کے مقابلوں میں آئے ہیں۔۔ کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے خلاف ریلی میں نہیں۔۔۔بحثیت طلبہ خواجہ سعدر فیق آپ کیلئے مہمان خصوصی ہی نہیں عمر میں آپ کے باپوں کے برابرہے۔۔ کیا آپ کو سکولوں میں یہی سکھایا جاتاہے کہ آپ ایسی بدتمیزیاں کریں؟ ۔۔کیا آپ کے گونواز گو کہنے سے نواز شریف چلے جائیں گے ؟ ۔۔۔ یہ آپ کا کام ہی نہیں ہے۔۔ اس میں طلبہ کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ اور والدین بھی برابر کے قصور وارہیں جھنوں نے اپنے شاگردوں یا بچوں کی تربیت میں کوتائی برتی۔

بات یورسٹی کے طلبہ کی ہوتی تو پھر سیاسی جماعتوں پر الزام بنتا تھا ۔۔ وہ اس لئے کہ سیاسی جماعتوں نے طلبہ تنظیموں میں اپنے ونگز بنا رکھے ہیں۔۔دوسرا یونیورسٹی کا طالب علم تعلیم کے آخری سیڑھی پر ہوتاہے جس کے بعد اس نے عملی زندگی میں قدم رکھنا ہوتاہے۔۔ اس کی عمر شعور کی منزل تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔۔ وہ خود سے کچھ بھی اچھا یا برا کرسکتاہے۔۔۔ سکول کے طلبہ ہی اگر ایسی بڑی تقریب میں جہاں آپ کو صوبائیت ، سیاست سے بالا تر ہو کرپاکستانیت کے جذبہ کو انجوائے کرنے کی بجائے سیاسی نعرہ بازی شروع کردیں ۔۔ پارٹی بن کر سیاسی نعرے لگا نا شروع کردیں تو یہ کسی بھی طرح لائق تحسین عمل نہیں بلکہ خود اپنے ساتھ بھی انصافی ہے۔

ایسے طلبہ کے آرگنائزر کی تحقیقات ہونی چایئے، سکولوں میں ایسے بچوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ اصلاح کیلئے لیکچر دینے کی ضرورت ہے تاکہ انھیں اخلاقیات اور سیاسیات میں فرق واضح ہو۔۔۔لیکن تقریب میں ایسے گرفتاری کسی صورت نہیں بنتی ۔۔ آپ نے ایسا سلوک کرکے ان کے ذہینوں میں دیر پا منفی اثرات چھوڑ دیئے ہیں۔۔۔جن کو لے کروہ صوبائی تعصب کی جانب بھی سوچ سکتے ہیں۔۔ وزیر ریلوے کو ناگواری کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دے کر جاناچایئے تھا کہ کسی کو گرفتارنہ کریں بلکہ ان کے پیچھے جو تربیت کے ذمہ دار ہیں ان کی پکڑ ہونی چاہیئے۔

جب اداروں میں سیاست ہونے لگے تو پھر ایسے ہی ناخوشگوار واقعات اور منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔۔اب کیا ریلوے کے ترجمان سےبھی کوئی پوچھے گا کہ ایک طرف آپ غیر سیاسی پر زور دیتے ہیں اور دوسری جانب آپ سرکاری ملازم ہو کر کسی سیاسی جماعت پر بغیر ثبوت الزام بھی لگا رہے ہیں ۔۔۔۔بدقسمتی سے پنجاب میں اسی لیئے سیاسی پولیس اور اداروں میں سیاست کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔۔ جب آپ کے انتخابی جلسوں میں حاضر سروس ڈی پی او آ کرخطاب کریں اور لوگوں کومسلم لیگ ن کو ووٹ دینے پر قائل کریں گے تو پھر آپ کیسے اداروں کو غیر سیاسی بنائیں گے؟

سیاسی جماعتوں کے قائدین ان نکات پر مل بیٹھیں،ضابطہ اخلاق بنا ئیں کہ وہ انتخابات ہوں یا کوئی اور سیاسی جلسہ جلوس کسی پر ذاتی حملہ نہیں کیاجائے گا۔۔تنقید ہوگی تضحیک نہیں۔۔لاہور کے طلبہ کے نعرہ بازی ایسے واقعات کی حمایت نہیں کی جائے گی۔۔یہ کلچر چل نکلا تو سیاست میں تشدد کاایسا عنصر شامل ہو گا جو نفرتوں کو پروان چڑھائے گا۔۔ سیاسی پارٹیوں میں بیٹھے چند موقع پرست اور شارٹ کٹ کے زریعے آگے آنے والے اخلاقیات کی حدیں زیادہ پھلانگتے ہیں۔

دانیال عزیز ہوں یا عابد شیرعلی ۔۔ جب کسی پر ذاتی حملہ یا تضحیک آمیز لہجہ اپنائیں تو نواز شریف کو شاباش دینے کی بجائے انھیں بتا نا چایئے کہ یہ زبان استعمال نہ کریں۔۔۔ جب فیاض الحسن چوہان یا مراد سعید کسی پر کیچڑ اچھالیں تو عمران خان انھیں بتائیں کہ وہ نواز شریف یا آصف زرداری پر نہیں مجھ پر حملہ کررہے ہیں کیونکہ جب آپ کسی کے خلاف ذاتی حملہ کریں گے توجواباً آپ کا قائد بھی ہدف بنے گا۔۔۔ پیپلز پارٹی میں کبھی فیصل رضا عابدی لہو گرماتے تھے تو آج کل کرخت لہجے میں غدار اور چور خود بلاول بھٹو کہتے نظر آتے ہیں۔۔اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ چور کو چور ہی کہتے ہیں۔۔ لیکن جب آپ کو پتہ ہے تو چور کااحتساب کریں۔۔ صرف شہباز شریف کی طرح زبانی سڑکوں پر نہ گھسیٹیں۔

گو نواز گوگالی نہیں ہے ایک سیاسی نعرہ ہے۔ جب تک نواز شریف اقتدارمیں ہیں تو یہ نعرہ لگتا رہے گا ۔۔ دنیا بھر کے حکمرانوں کے خلاف یہ نعرہ لگتاہے۔۔ جواباً اگر آپ آصف زرداری، سراج الحق، عمران خان یا اسفند یار ولی کے خلاف یہ نعرہ لگانا شروع کردیں تو یہ نعرہ نہیں بنتا۔۔ ہاں سندھ میں صوبائی حکومت اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کے خلاف ایسا نعرہ لگ سکتاہے۔۔ گو کا نعرہ اقتدار کی مسند پر براجمان شخص کے خلاف ہی لگتاہے۔۔ اور تب لگتاہے جب رعایا خوش نہیں ہوتی اپنے حکمرانوں سے۔۔خواجہ سعدرفیق کے خلاف نعرہ لگنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ دوران خطابت ان کو اپنے لہجہ پر قابو نہیں رہتا۔۔ جذباتی انداز میں جب دلیل دیتے ہیں تو آداب ملحوظ خاطر نہیں رکھتے ۔۔ جب آپ خود ایسی مثال قائم کرتے ہوں تو ایک نہ ایک دن خود اس کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔۔۔اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے لہجے میں انکساری ان کو عوام میں زیادہ مقبولیت بناتی ہے رعونت نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے