ہائے رے بجلی

شاعر نے کیا خوب انداز اپناتے ہوئے اپنی غزل کے ذریعے معبوب کو باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ تیرا روز کا آنا جانا ۔۔۔۔اب عادت سی ہو گئی ہے ۔پھر کچھ یوں ہوا کہ بجلی والوں نے شاعر کے ان خوبصورت الفاظ کو کچھ یوں عملی جامہ پہنایا کہ روزانہ کی بنیاد پر دس سے بارہ گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ کے ذریعے عوام کو شاعر کی کفیت سے آشنا کروایا اور بجلی کو عوام کا معبوب بنا ڈالا جس کے انتظار میں عوام صبح شام آگ کے انگاروں کی طرع سلگتی رہتی ہے افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ بجلی کی صورت حال اس وقت مرد کی غیرت کی مانند ہو چکی ہے جودرست وقت پر تو سوئی رہتی ہے اور دوسروں کے مقابلے پر فوراجاگ اٹھتی ہے یعنی کبھی آتی ہے تو کبھی نہیں آتی ۔

پچھلی کچھ دہائیوں سے ہمارا ملک تاریکی کے اندھیروں میں ڈوب چکا ہے جبکہ حکمران الیکشن کے دنوں میں اندھیرے کو مشعل بنا کر اپنا مستقبل روشن بنا لیتے ہیں یعنی عوام کو بجلی کا جھانسا دے کر ان سے ووٹ لے لئے جاتے ہیں بلند آہنگ وعدے کیے جاتے ہیں کہ آئندہ پانچ سالوں میں ہم اپنی اعلی کارکردگی اور حکمت عملی کے ذریعے ملک کو اندھیروں سے نجات دلادیں گے وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مگر آفسوس کا عالم ہے کہ پانچ سال گزرنے کو ہیں مگر تاریکی کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے ۔

پہلے پہل بجلی وافر مقدار میں موجود ہوتی تھی مگر بجلی سے چلنے والی چیزیں موجود نہ تھی اب معاملات اس کے برعکس ہو چکے ہیں یعنی لوگوں کے پاس چیزیں ہیں مگر ان کو چلانے کے لیے بجلی نہیں ہوتی ۔

پہلے لوگ محلے میں کسی گھر کو رنگ و روغن ہوتا ہوا یا نئے دروازے لگتے ہوئے دیکتھے تھے تو فورا مبارک باد دیتے اور اب کسی کے گھر میں بجلی کو دیکھ کر مبارک باد دیتے ہیں کیونکہ اس وقت بجلی اگر کسی کے گھر میں موجود ہو تو وہ واقعی مبارک باد کا مستحق ہوتا ہے بجلی اس وقت نایاب ہو چکی ہے اور نایاب چیزیں کسی کے گھر کی زنیت ہوں تو وہ مبارک دینا پڑتی ہے ۔

اسلام میں زکوۃکو بڑی اہمیت حاصل ہے لوگ اپنے مال و دولت پر خیرات کرتے ہیں ۔ہمارا ملک اس معاملے میں ماشاء اللہ اچھی شہرت رکھتا ہے کیوں نہ اس ملک میں ایسا قانون بنا دیا جائے کہ دو سو یونٹ سے زیادہ بجلی خرچ کرنے والے حضرات مال و دولت پر زکوۃ دینے کی بجائے بجلی کو خیرات میں دیا کریں تاکہ غریبوں کے گھروں میں بھی اجالا ہو سکے ۔

بجلی اپنے نام کی طرح بجلی ہے ۔۔۔۔۔۔۔کبھی یہاں کبھی وہاں ۔۔۔پل میں تولہ پل میں ماشہ ۔۔اج ادھر کل ادھر ۔۔۔آج کل لوگ اس قدر نئی آنے والی فلم کا انتطار نہیں کرتے جتنا بجلی کی آمد کا انتطار کرتے ہیں ۔

دوسرے ممالک میں لوگوں کے اوڑھنے بچھونے سے ان کے رہن سہن کی تبدیلیوں سے باخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہاں موسم تبدیل ہو چکا ہے جبکہ ہمارے ہاں سردیوں کی آمد کا اندازہ بدقسمتی سے گیس کی لوڈ شیڈنگ اور گرمیوں کی آمد کا اندازہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے کیا جاتا ہے یعنی جب بجلی آنکھ مچولی کھیلنے لگے تو سمجھ لیں موسم نے انگڑائی لے لی ہے اور گرمی آچکی ہے ۔بعض دفعہ تو ایسا اندیشہ ہونے لگا ہے کہیں محکمہ بجلی کے کچھ ملازم سیاروں پر تو موجود نہیں جو موسم کے بدلنے کی اطلاع فورا دے دیتے ہیں اور لودشیڈنگ عروج پر چلی جاتی ہے ۔

ایک وقت ہوتا تھا جب بجلی ہوتی تھی تو ہم اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے تھے ۔کبھی نہیں سنا کہ لوگ بجلی کی خاطر ہڑتالیں کر رہے ہیں اب جدھر بھی نکلیں تو لوگ آپ کو احتجاج کرتے ہوئے نظر آئیں گے پوچھنے پر پتہ چلتاہے کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے مردوزن حکومت کے خلاف سینہ کوبی کر رہے ہیں ۔ہر گلیِ ،محلے سے صرف ایک ہی دہائی سننے کو ملتی ہے ’’ہائے رے بجلی‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے