خلافت علی المرتضی

854

تحریر : محمد یونس قاسمی

1

خلافت راشدہ میں امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کا دور خلافت ایسا ہے جس کے متعلق بہت سے سوالات ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔اس دور میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں جنگیں ہوئیں۔تاریخ کا ایک طالب علم جب ان جنگوں کو دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قدسیوں کا وہ گروہ جسے قرآن کریم نے ”رحماءبینہم“کہا ہے ،وہ کیسے ایک دوسرے کے مقابل آگئے۔ان جنگوں اور باغیوں کی سازشوں سے نمٹتے نمٹتے حضرت علی المرتضیٰؓ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔اسی وجہ سے بعض لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ حضرت علیؓ کی خلافت ناکام رہی۔وہ آپ کے دور کا موازنہ حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اورحضرت عثمان ؓ کے ادوار سے کرتے ہیں کہ ان ادوار میں مسلمانوں کو کس قدر فتوحات نصیب ہوئیں اور قیصر و کسری کی سلطنتیں سرنگوں ہوئیں۔ اس کے برعکس حضرت علی ؓکے دور میں خانہ جنگی رہی اور مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہے۔ بیرونی فتوحات رک گئیں اور عالم اسلام انتشار کا شکار ہو گیا۔ دوسری طرف باغی حکومتی معاملات پر چھائے رہے اور انہوں نے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانا شروع کر دیا۔

علم عمرانیات اور تاریخ کے ماہرین یہ بات جانتے ہیں کہ فتوحات اور بحران ، سلطنتوں کی تاریخ کا ہمیشہ سے حصہ رہے ہیں۔ کبھی تو حالات مثبت رخ اختیار کرتے ہیں اور ایک سلطنت فتوحات حاصل کر کے پھیلتی چلی جاتی ہے اور کبھی سلطنتوں کو بحران پیش آتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اورحضرت عثمان ؓکے ادوار میں پہلی کیفیت تھی جبکہ حضرت عثمان ؓکے آخری اور حضرت علی ؓکے پورے دور میں بحران کی سی کیفیت تھی۔ اس وجہ سے حضرت علیؓ کے دور کا موازنہ سابقہ ادوار سے درست نہیں ہے۔ یہ بات کسی حکمران کے بس میں نہیں ہوتی کہ وہ حالات کو مثبت یا منفی بنا سکے بلکہ اس کا کمال اس میں ہوتا ہے کہ وہ مثبت یا منفی حالات میں کس طرح سے پرفارم کرتا ہے اور امکانات کو کس طرح سے استعمال کرتا ہے۔حضرت علیؓ کاکمال یہ ہے کہ آپ نے بحرانوں کے دور میں خلافت کی باگ ڈور سنبھالی، آپ نے اندرونی و بیرونی خطرات سے جس طرح امت مسلمہ کی حفاظت فرمائی، اس کی تفصیل کو دیکھا جائے تو آپ ایک کامیاب حکمران تھے۔

باغی تحریک جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے زمانے سے پروان چڑھ رہی تھی، نے پیدا ہونا ہی تھا اور اس تحریک کے ابھرنے پر کسی بھی خلیفہ کو اختیار نہ تھا۔ اگر حضرت علیؓ کی جگہ حضرت عمر ؓیا کوئی اور صحابیؓ بھی خلیفہ ہوتے، تو باغی تحریک نے پھر بھی پیدا ہونا ہی تھاکیونکہ باغیوں کی یہ تحریک اقتدار کی ہوس پروجود میںآئی تھی اور ان باغیوں نے وہی کرنا تھا، جو انہوں نے کیا۔ حضرت علی ؓنے جس خوبی کے ساتھ باغی تحریک کو لگام دی، یہ آپ ہی کا خاصہ تھا۔اس تحریک کے خاتمے کیلئے حضرت علی المرتضیٰؓ نے جو منصوبہ بندی کی وہ کچھ یوں تھی۔

باغیوں کو وقتی طور پر کسی کام میں مصروف کر دیا تاکہ اہل مدینہ کی جان، مال اور آبرو ان سے محفوظ ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے ان کی کچھ باتیں اگر ماننا بھی پڑیں تو اس میں مضائقہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؓ نے انہیں حکومتی امور میں شریک کر لیا تاکہ ان کی توجہ دوسری طرف نہ ہو سکے۔

 باغیوں میں سے ایک طبقہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو ورغلائے گئے تھے،اپنے تئیں وہ مخلصانہ کوششیں کررہے تھے ،وہ محض حضرت علیؓ سے منسوب جھوٹے خطوط سے متاثر ہو کر باغیوں کے ساتھ مل گئے تھے۔ انہی لوگوں کی وجہ سے باغی لیڈر حضرت علیؓ سے ایک حد تک دبتے تھے اور ان سے اپنی ہر بات نہیں منوا سکتے تھے۔ حضرت علیؓ کی کوشش تھی کہ اس طبقے کو باغیوں سے الگ کر لیا جائے۔

حضرت علی المرتضیٰؓ یہ بھی چاہتے تھے کہ باغیوں کوایک طرف مصروف کر دیا جائے اور دوسری طرف حضرت طلحہ ؓوحضرت زبیرؓمدینہ سے خاموشی سے نکل جائیں اور دیگر علاقوں میں موجود منتشر افواج کو منظم کریں تاکہ ان باغیوں پر فیصلہ کن ضرب لگائی جا سکے۔

حضرت علیؓ مسلمانوں کی افواج کو متحد کرکے اتحاد کی وہ فضاقائم کرنا چاہتے تھے جو حضرت عثمانؓ کی شہادت سے پہلے قائم تھی۔

۔آپؓ یہ چاہتے تھے کہ اس سب کچھ کے بعد باغیوں کی بیخ کنی کی جائے۔ قاتلوں کو قصاص میں قتل کیا جائے اور بقیہ لوگوں کومناسب سزائیں دی جائیں۔ یہ منصوبہ بہت کامیاب رہتا اگر باغی جنگ جمل میں دونوں جانب حملہ کر کے جنگ نہ کروا دیتے۔ جنگ جمل کے بعد مخلص مسلمانوں کی قوت کسی حد تک کمزور پڑ گئی تھی۔ اس کے بعد جب باغیوں نے شام پر حملہ کیا تو اس وقت بھی حضرت علی ؓنے انہیں کنٹرول کرنے کی آخری حد تک کوشش کی۔ آپؓ کا ارادہ یہ تھا کہ اہل شام سے اتحاد کر لیا جائے او رپھر باغیوں کی سرکوبی کی جائے لیکن آپؓ کی شہادت نے آپ کو اس کا موقع نہیں دیا۔ آپؓ نے شہید ہونے سے کچھ دیر پہلے اپنے بیٹے حضرت حسنؓ کو اس مشن کی تلقین فرمائی، جسے انہوں نے آپ کے بعد پورا کیا۔یہ کوششیں داخلی محاذ پر کی گئیں۔اس بڑی اندرونی بغاوت سے ہٹ کر مسلمانوں کو ایک بیرونی خطرہ ایرانیوں سے درپیش تھا۔ جب مسلمانوں نے ایرانیوں کو شکست دی تو ان کی ہزاروں سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ عام ایرانیوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچا لیکن ایران کی وہ اشرافیہ جو ملکی وسائل پرسال ہا سال سے قابض چلی آ رہی تھی اور ایرانی بادشاہت سے ان کے مفادات وابستہ تھے، اسے ہضم نہ کر سکی۔ انہوں نے ”قوم پرستی“ کے نام پر بار بار بغاوتیں پیدا کیں۔ حضرت علیؓ کے زمانے میں بھی ان بغاوتوں نے سراٹھایا جنہیں آپ ؓنے حضرت معاویہؓ کے بھائی حضرت زیاد بن ابی سفیان ؓ کے ذریعے ختم کیا۔حضرت زیادؓ اپنے بھائی حضرت معاویہ ؓ کی طرح ایک نہایت ہی قابل سیاستدان تھے، انہوں نے بڑی آسانی سے ایرانیوں کی ان بغاوتوں کو ختم کیا۔ یوں بیرونی محاذ پر بھی حضرت علیؓ کامیاب رہے۔

حضرت علی ؓ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ آپ نے خلافت راشدہ کے اسی کردار کو زندہ رکھا ، جس کے باعث اسے خلافت راشدہ کہا جا سکتا ہے۔ آپ نے حکومتی معاملات مشورے سے چلائے۔ لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی دی۔ بیت المال کا پوری دیانت داری سے استعمال کیا اور مسلمانوں کی خیر خواہی کی۔ اس معاملے میں آپ ؓ کہیں بھی اپنے پیش رو خلفاءسے آگے پیچھے نظر نہیں آتے۔ دوسری طرف آپ نے امت کو اس بات کی تعلیم دی کہ باغیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ تاریخ طبری میں حضرت علیؓ کے خطبات سے متعدد اقتباسات ایسے نقل کیے گئے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کتنا ناپسند فرماتے تھے۔دنیا کے کسی قانون میں باغی کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت برتنے کی اجازت نہیں ہے مگر امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اسلامی خلافت کے باغیوں کے زخمیوں کا علاج بھی کروایا،ان کا مال ودولت سوائے اسلحہ کے ان کے خاندانوں کو واپس کردیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی المرتضیٰؓ خود اخلاق کے کس بلندمقام پر فائز تھے اور اتنے بحرانوں کے باوجود کس طرح اخلاقی محاذ پر کامیابی حاصل کی۔

بحران کوئی انہونی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری مظہرہے۔ جن لوگوں نے قوموں کے عروج و زوال کا تقابلی مطالعہ کیا ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوموں کی تعمیر کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔پہلے مرحلے میں اس کی بنیادی تشکیل ہوتی ہے، دوسرے میں اس پر اثر انداز ہونے والے داخلی یا خارجی بحرانوں کا جائزہ لیا جاتا ہے،قوم دوسرے مرحلے میں اگر بحرانوں سے نمٹنے میں کامیاب ہوجائے تویہ بات اس کی قوت کا باعث بنتی ہے۔تیسرے مرحلے میں بحرانوں سے نمٹنے کے بعدقومی حالات بتدریج صحیح سمت آنا شروع ہوجاتے ہیں اور یہ وہ موقع ہوتا جب قوم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے اور بڑے بڑے کارنامے سرانجام دینا ہوتے ہیں۔یہ کارکردگی والا مرحلہ چوتھا مرحلہ کہلاتا ہے۔ آخری تین مراحل بار بار پیش آتے رہتے ہیں۔ بار بار طوفان اٹھتے ہیں،بار بار خارجی اور داخلی بحران قوم پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔اگر یہ قوم ان سے نبرد آزما ہوتی رہے تو اس کی قوت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ بحران کے بعد پھر حالات نارمل ہوتے ہیں، پھر قوم بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس کے بعد پھر کوئی نیا بحران سر اٹھا لیتا ہے۔ اس طرح پے در پے بحرانوں سے نمٹنے کا یہ عمل جاری رہتا ہے اور قوم آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جب قوم زوال پذیر ہوتی ہے تو پھر یہی بحران اسے کمزور کرتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر یہ ماضی کا ایک قصہ بن کر رہ جاتی ہے۔

امت مسلمہ کی تاریخ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کو ہم ابتدائی تشکیل کا مرحلہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد غزوہ خندق تک آپ کی مدنی زندگی دراصل بحرانوں سے نبردآزما ہونے کا مرحلہ ہے جس میں مشرکین عرب، یہود اور روم و ایران کی بیرونی قوتوں نے اس امت کے لیے بحران پیدا کیے۔ غزوہ خندق کے بعدحالات کے بہتر ہونے کا مرحلہ آیا جس میں حالات بتدریج مسلمانوں کے حق میں ہوتے چلے گئے اور یہ عمل فتح مکہ کے موقع پر اپنے عروج کو پہنچا۔

اس کے بعدکارکردگی دکھانے کا مرحلہ آیا جس میں حضرات صحابہ کرامؓ نے پورے جزیرہ نما عرب کواسلامی ریاست اور ایک امت مسلمہ میں تبدیل کر دیا۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دو سالہ دور کا پہلا سال بحرانوں سے نمٹنے کا دور ہے جب عرب قبائل نے بغاوت کر دی اور روم و ایران نے بھی اس نئی قوت پر حملے کا آغاز کر دیاتھا۔

دوسرا سال حالات کی بہتری کا دور ہے اور پھرامیر المومنین حضرت عمرفاروق اعظمؓ کا پورا دور بہترین،لازوال اور عظیم الشان کارکردگی دکھانے کا زمانہ ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت کے ابتدائی آٹھ نو سال تک جاری رہا۔

اس کے بعد فطری طور پر پھربحرانوں کا دور واپس آنا تھا، جو کہ حضرت عثمان غنیؓ ہی کے آخری زمانے میں آیا اور حضرت علیؓ کے دور میں جاری رہا۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس مرتبہ یہ بحران بیرونی نہیں بلکہ مسلم دنیا سے اٹھے۔ یہ ایک فطری عمل تھا ۔اس میں کوئی انہونی بات ہے نہ ہی اس معاملے میں کسی خلیفہ راشد کا کوئی قصور ہے۔

حضرت معاویہؓ کا ابتدائی دور حالات کی بہتری اور بقیہ دوربہترین کارکردگی کا ہے۔تاریخ میں یہی سائیکل بار بار دوہرایا جاتا رہا ہے اور آئندہ بھی قیامت تک یہی ہوتا رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے