اسلام آبادائیرپورٹ واقعے کاتیسرا رُخ

ہم عدم برداشت کی جس فضاء میں رہتے ہیں یہاں ایک ایسا شخص بھی اپنا فیصلہ سڑک پر سنانا اپنا حق سمجھتا ہے جس کے پاس کسی قسم کے بھی اختیارات نہیں ہوتے ، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جن لوگوں کے پاس اختیارات ہوں وہ اپنے ساتھ ہوئے کسی منفی عمل پر ویسا ہی منفی ردعمل نہ دیں ؟

گزشتہ دنوں اسلام آباد ایئر پورٹ پر ایک واقعہ پیش آیا تھا جس کی وجہ پاکستانی نژاد غیر ملکی دو خواتین کی طرف سے ایئر پورٹ ٹائیلٹ میں ٹشو پیپر نہ ہونے پر حکام سے پوچھا جانا تھا ، جو دراصل کسی چیز کے پوچھے جانے سے زیادہ متعلقہ لوگوں پر غصہ کرنا تھا – اس کے بعد ایف آئی اے کی خواتین اہل کاروں نے ان دونوں خواتین پر تشدد کیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی اور اس ویڈیو کے بعد ہی چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو تین دن کے اندر سارے دستاویزی ثبوت جمع کروانے کا کہا تھا – ایف آئی اے کی دونوں اہلکار معطل ہو چکی ہیں اور معاملہ عدالت میں ہے –

مندرجہ بالا واقعے کی ویڈیو دیکھنے کے بعد ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو میرے جیسا ایک عام پاکستانی شہری اپنے اداروں سے پوچھنے کا حق رکھتا ہے جیسے کہ :

سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے سے پہلے اعلیٰ حکام کی طرف سے متعلقہ اہل کاروں کے خلاف کسی قسم کی کاروائی عمل میں کیوں نہیں لائی گئی ؟

جب جھگڑا ہو رہا تھا تو اس وقت آپریشن پر موجود اعلی افسران نے مداخلت کیوں نہیں کی ؟

تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو کاغذات پورے ہونے کے باوجود سفر کرنے سے کیوں روکا گیا ؟

ویڈیو میں ہی ون ونڈو پر ڈیوٹی کرنے والے اہل کار کی آواز سنائی دے رہی ہے جو ایف آئی اے کے ایک افسر سے کہہ رہا ہے کہ یہ زیادتی ہے اسے روکیں جبکہ جواب میں وہ افسر اس سے کہہ رہا ہے تم اس معاملہ میں بولنے والے کون ہو – تم جاکر اپنا کام کرو ، جاؤ یہاں سے – کیا ایف آئی اے افسر کا ایسا کہنا سول ایوی ایشن اور ایف آئی اے کے حکام میں دیگر اداروں کی طرح ہی کے تصادم کی صورتحال کا عملی نمونہ تھا ؟

پاکستان کے دارالحکومت کے بین الاقوامی ایئر پورٹ پر کسٹمر سروسز کی صورتحال اتنی مخدوش کیوں ہے ؟ وغیرہ وغیرہ –

مندرجہ بالا سوالات کے جواب تلاشتے ہوئے بہت سارے اہل قلم ایئر پورٹ آپریشن کی صورتحال کو مد نظر رکھے بغیر لکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے اکثریت کی تحریروں میں ایئر پورٹ پر آپریشن میں موجود تمام ہی ریاستی اداروں کو مورود الزام ٹھہرایا جانا نظر آتا ہے ، اور کچھ امریکہ و یورپی ممالک میں رہنے والے پاکستانی قلم کار پاکستانی ایئر پورٹ پر موجود سارے ہی عملے ( سرکاری و غیر سرکاری ) کا امریکی و یورپی ایئر پورٹ عملے سے موازنہ کرتے ہوئے رگیدنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں جبکہ زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں اور ہم جیسے عام شہریوں کو ریاستی اداروں پر صرف تنقید کے بجائے ان حقائق کا بھی ادراک کرنا چاہیئے –

پاکستان کے فضائی اڈوں پر درج ذیل بڑے سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں

سول ایوی ایشن اتھارٹی

ایئر پورٹ سکیورٹی فورس

اینٹی نارکوٹکس فورس

پاکستان کسٹمز / ایف بی آر

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی امیگریشن ونگ –

اور متعلقہ صوبے کی پولیس –

جبکہ اینٹیلیجنس ادارے ان کے علاوہ ہیں جس میں ایف آئی یو ، ایف آئی اے ، اینٹی ہیومن ٹریفکنگ ونگ اور ایس آئی بی اہم ہیں – اس کے علاوہ غیر سرکاری ایئر لائنز کسٹمر سروسز اور کارگو سروسز وغیرہ فعال ہوتے ہیں –

درجہ بالا اداروں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں اور اختیارات ہیں جن سے تجاوز کرنا ڈیوٹی پر موجود اہل کاروں کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا ، آپریشنل عملہ اپنی ایس او پی کے مطابق ہی اپنا آپریشنل سٹیٹس برقرار رکھتا ہے – اسلام آباد ایئر پورٹ کیس میں تقریبا” سارے اداروں کو ملوث کر کے انہیں عوامی نظروں میں بدنام کرنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اسے میں درست نہیں سمجھتا –

میں گزشتہ چھ سات سالوں میں پاکستان سے تین ممالک کا پاکستان کے مختلف فضائی اڈوں سے دس بارہ دفعہ سفر کر چکا ہوں ، ایئر پورٹ کے گیٹ پر چوکس کھڑے اے ایس ایف کے جوان سے لے کر اینٹی نارکوٹیکس کے بد لحاظ فوجیوں سمیت امیگریشن کے عملے سے پالا پڑتا رہا ہے اور واپس پاکستان میں اترتے ہی کسٹم والوں کی للچاتی ناجائز نظروں کو اپنے ڈیوٹی پیڈ سامان پر مرکوز دیکھ کر آہیں بھرتے بھی دیکھا ہے ، مگر آج تک نہ تو کسی نے کبھی رشوت طلب کی ہے اور نہ ہی کبھی کسی نے بدتمیزی کی ہے –

ایئر پورٹ پر شاید اے این ایف کے جوانوں سے زیادہ بدتمیز اور کسی محکمے کے لوگ نہیں ہوتے مگر انہوں نے بھی سامان چیک کرتے ہوئے کبھی بھی کسی ناجائز خوائش کا اظہار نہیں کیا ( ناجائز خوائش کا مطلب صرف رشوت ہی لیا جائے ) اور کسٹم حکام نے بھی کسٹم دینے کے بجائے شارٹ کٹ راستہ دیکھا کر کبھی پیسے طلب نہیں کیے – رہی اے ایس ایف والوں کی بات تو شاید ان سے زیادہ مسکین فورسز میں کوئی اور محکمہ نہیں ، سوائے ڈیوٹی روسٹر اچھا ہونے کے ایئر پورٹ پر ان کے لیے ایسا کچھ ہوتا ہی نہیں ہے جس سے وہ موج اڑا سکیں –

کئی دفعہ اے این ایف والوں نے سامان کھولا ہے ، اے ایس ایف کے اے ایس آئی نے سکینگ مشین پر سے گزرتے میرے ہینڈ بیگ کو اپنی سٹک لگا کر ساتھ کھڑے کانسٹیبل کو میرا بیگ دوبارہ چیک کرنے کا اشارہ دیا ہے ، امیگریشن کے ریکارڈ میں تصویر پرانی ہونے کی وجہ سے ری چیک ہونے کے لیے تھوڑا سا زیادہ وقت ضرور لگا ہے ، کئی بار ٹائیلٹ میں ٹشو نہیں تھے ، ویٹنگ ایریا میں چائے اور سگریٹ مہنگے تھے مگر یہ سارے معاملات تو دنیا کے مہذب ترین ممالک کے فضائی اڈوں پر بھی پیش آنا معمول کی بات ہے- تو کیا ان ساری چیزوں کو بنیاد بنا کر سسٹم پر چڑھ دوڑوں ؟؟

شاید آپ کو یاد ہو کہ ٢٠١١ میں امریکہ نے دنیا کے ١٤ ممالک کے شہریوں کے لیے سکرینک کا ایک سسٹم متعارف کروایا تھا ان ممالک میں پاکستان سمیت ، لیبیا اور ایران بھی شامل تھے ، اس پالیسی کے مطابق امریکہ آنے والے ان ممالک کے شہریوں کی ننگا کر کے تلاشی لی جانی تھی – اس سے پہلے ٢٠٠٦ میں پاکستان کے وزیر اعظم شوکت عزیز کی نیویارک ایئر پورٹ پر باڈی سرچ کی گئی تھی اور حالیہ امریکی ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد تو پاکستانیوں کی سکرینگ امریکی حکام دبئی میں ہی کرتے رہے ہیں اس کے علاوہ امریکی ایئر پورٹ انتظامیہ کا دیگر ممالک کے شہریوں کے ساتھ سلوک بھی ریکارڈ پر موجود ہے –

آپ اگر پاکستانی شہری ہیں تو جیسے چاہئیں اپنے اداروں سے سوال پوچھیں یہ آپ کا اور میرا حق ہے کیونکہ میں اور آپ اپنے خون پسینے کی کمائی سے ان اداروں کو چلاتے ہیں ، مگر اگر آپ صرف پاکستانی نژاد ہیں اور اپنا سب کچھ پاکستان سے باھر لے جا چکے ہیں اور آپ فرنگی کارڈ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں اور اب آپ کو پاکستان میں تبدیلی لانے جنون سوار ہے تو یقین جانیں آپ کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہو گا جیسا اسلام آباد میں دیکھنے میں آیا ہے –

آپ زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے سکیورٹی و منشیات کے ایشوز کو سمجھیں ، آپ کا چیخنا چلانا سکیل ٩ کے امیگریشن یا اے ایس ایف کے سرچ کرنے والے جوان پر کوئی اثر نہیں کرتا ، اگر آپ کسی مہذب ملک سے پاکستان آ ہی گئے ہیں تو اپنا مہذب پن ساتھ لانا کیوں بھول گئے ہیں ؟؟ سوال کریں مگر ”انگلی” مت کریں –

پاکستان پائندہ باد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے