سیاست و موروثیت

با دشاہی نظام میں کسی بھی بادشاہ کے بعد مملکت کا ولی عہد بادشاہ بن جاتا ہے ، شاید اسی لیے عوام نے اس نظام کو پسند نہیں کیا کیونکہ ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف بادشاہ کے پاس ہوتا تھا ، بادشاہ کے کسی بھی فیصلے کے خلاف آواز اٹھانے پر رعایا کو سنگین نتائج بھگتنے پڑتے تھے ۔

اس نظام کو ناپسند کرنے والے کچھ دانشوروں نے اس کے مقابل ایک ایسا نظام لانے کی جدوجہد کی جس میں عوام /رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جائیں اور اسی نظام کو جمہوریت کا نام دیا گیا ۔ اگرچہ جمہوری نظام کا آغازقدیم یونان سے 431قبل مسیح میں ہوا مگر کامیاب نہ ہوسکا اور پھر
چھٹی صدی میں ایک اور کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکی ، کیونکہ جمہوریت ابتداء سے ہی اشرافیہ کی آنکھوں کا کانٹا رہی ہے اور آج بھی چند ممالک میں جمہوریت سے زیادہ اشرافیہ مضبوط ہے ۔

جمہوریت (لوگوں کی طاقت)، جس میں اصولاً بالغ رائے دہی کے ذریعے ملکی فیصلوں میں شامل ہوا جا سکتا ہے اس طرح انسانی مساوات پر مبنی حکمت عملی طے کرتے ہوئے منتخب لوگ مفاد عامہ میں قانون سازی سمیت اہم فیصلے کرتے ہیں ۔

بد قسمتی سے وطن عزیز میں کبھی بھی کسی بھی زاویے سے جمہوریت نظر نہیں آئی ،جو بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار آئی ان کے سربراہان نے ڈکٹیٹر ز کے ساتھ مل کر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا ، تمام قوم اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایوبی مارشل لاء کی پیداوار ہیں اور موجودہ وزیر اعظم نواز شریف ضیائی مارشل لاء کی پیداوار ہیں ۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی تشکیل انہی حضرات نے کی ہے۔

بات اگر یہی تک محدود رہتی تو ٹھیک تھا مگر سیاست میں موروثیت کا آغازاے این پی یعنی عوامی نیشنل پارٹی سے ہوا جس میں باچا خان ،خان عبدالغفار خان ، ولی خان ، بیگم نسیم ولی خان اور اسفندیار ولی خان بلترتیب پارٹی کے سربراہان بنے ۔

پیپلزپارٹی میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعدان کی بیٹی اور سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے پارٹی کی کمان سنبھالی اور 27دسمبر 2007تک پارٹی کی سربراہ رہیں ان کی شہادت کے ان کے خاوند سابق صدر آصف علی زرداری اور بیٹے بلاول زرداری پارٹی کے مشترکہ چیئرمین بنے ۔ ا ب بلاول زرداری بھٹو کی چھاپ لیے پارٹی کے چیئرمین بنے ہوئے ہیں ۔

80کی دہائی میں ہی ایک اور جماعت جو کہ دینی سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام میں بھی موروثیت کا سلسلہ چل پڑا ،جے یو آئی کے امیر مولانا مفتی محمود کے بعد ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمان نے ان کی جگہ لی پہلے وہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری بنے اور کچھ عرصے بعد جماعت کے امیر بن گئے اور گزشتہ 3دہائیوں سے امیر کی کرسی پر براجمان ہیں ۔

80کی ہی دہائی میں میاں محمد نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھی پہلے وہ ضیاء الحق کے دور میں 1985کے انتخابات میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور 90کے انتخابات میں وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے اور بعد ازاں 1997میں دو تہائی اکثریت سے دوسری مرتبہ اور 2013کے انتخابات میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ۔

اب میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز اور شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کے درمیان پارٹی سربراہی یا پھر وزارت عظمٰی کے لیے سرد جنگ ہونے کا خدشہ ہے
1999میں پرویز مشرف کی طرف سے جب نواز حکومت کا خاتمہ کیا گیا اور نواز شریف کو اٹک جیل اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی تو غالب گمان یہی تھا کہ اب شاید دو جماعتوں کی موروثی سیاست کا اختتام ہو جائے مگر ایسا نہ ہوا ، نواز شریف برادر ملک سعودی عرب کی مداخلت پر پاکستان سے سعودیہ منتقل ہوگئے ، یہاں تک اپنے والد میاں محمد شریف کی تدفین میں بھی شرکت نہ کر سکے۔

اب سیاست میں موروثیت کس نہج پر پہنچے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔

جون ایلیا نے کہا تھا کہ

"جو رد ہوئے تھے زمانے میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں ”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے