بھارتی جبر کی شکار کشمیری خواتین

برصغیر کی تقسیم کے بعد سے اب تک تحریک آزادی کشمیر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنی منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہے۔لوگوں کی کمٹ منٹ ہی وہ سرمایہ ہے جس کے تحت اس تحریک نے مختلف ادوارپار کیے۔ لاکھوں معصوموں کی لاشیں، سینکڑوں ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی لٹی عصمتیں، اُجڑی بستیوں کی ان گنت تعداد، تعذیب خانوں میں گزرے لاکھوں نوجوانوں کے شب وروز، یتیم بچوں کی بہتات اور بے آسرا ماؤں بہنوں کی گودیں وہ عظیم قربانیاں ہیں جو کشمیریوں نے اپنے سیاسی مستقبل کو طے کرنے کی خاطر آج تک پیش کیں ہیں۔ ایک طرف یہاں کے نوجوانوں نے سرپر کفن باندھ کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا تو دوسری جانب صنف نازک بھی اس تحریک میں اپنا حصہ ادا کرتی رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خاتون کا دل فطرتاً کمزور ہوتا ہے اور اگر کسی حادثہ سے سابقہ پیش آجائے تو شائد ہی دوسری مرتبہ اس کو بصدق دل اپنانے پر تیار ہوجائے۔ مگرکشمیری خواتین نے ہر لمحہ اپنی سیاسی منزل کو حاصل کرنے کی خاطر اپنی جان اور عزت سے بڑھ کر تحریک آزادی کے ساتھ کی گئی کمٹ منٹ سے وفا نبھائی۔

دشمن نے اگرچہ اس طبقہ پر جنگی ہتھیار کی آڑ میں انتہائی نارروا سلوک جاری رکھا مگر یہ طبقہ آج بھی آزادی کی خاطر برسرجدوجہد ہے۔ فوج کی طرف سے سدبھاؤنا اور سیوک ایکشن پروگرامات بھی اس طبقہ کو تحریک سے پیچھے نہ ہٹاسکا۔’آزادی برائے خواتین‘، ’لبرلزم‘ اور ’ماڈرنزم‘ جیسے پُر فریب نعرے بھی یہاں ناکام ہوئے۔ آخری چارہ کے بطورظالم اب بلٹ، پیلٹ اور دیگر انسان کش ہتھیاروں کا سہارا لے رہا ہے تاکہ صنف نازک کو اس قدر دہشت زدہ کیا جائے کہ وہ آزادی کے نام تک سے کانپ اُٹھیں اور اس طرح انہیں تحریک کا حصہ بننے کے بجائے سائڈ لائن کیا جائے۔

جنگ زدہ علاقوں میں قابض افواج نے ہمیشہ سے ہی خواتین پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے ہیں۔ بھارت کی ریاست منی پور ، آسام، تریپورہ وغیرہ میں تو ان لوگوں نے انسانیت کو شرم سار کرنے والے جرائم کا ارتکاب کیا۔’’ قومی مفاد‘‘ کی آڑ میں انصاف مانگنے والوں کا خون بہایا گیا اور ہزاروں خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے واقعات انجام دیے گئے۔ ان دلدوز واقعات پر بھارتی حکومت کی جانب سے کوئی ردّعمل سامنے آیااور نہ ہی ملوثین کو سزا دی گئی۔نیز اندرون وبیرون میڈیا نے ان واقعات کو رپورٹ تک نہیں کیا۔ اندرون ذرائع کے مطابق بھارت کی ان ریاستوں میں میڈیا کو داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی انجمنوں کو وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کا اختیار ہے۔

اسی طرح کشمیر پر اپنے جبری اور ناجائز کنٹرول کو استحکام بخشنے کی خاطر بھارتی فوج نے یہاں بھی ’نیشنل انٹرسٹ‘ کی آڑ میں اس جرم کا ارتکاب کیا۔تحریک حق خود ارادیت پر کاری ضرب لگانے اور تحریک کے تئیں حمایت کرنے والی خواتین کو چکی کے دو پاٹوں میں ڈال کر اس طرح پیسا گیا کہ روح آج بھی اُن مظالم کو یاداشت میں لاتے ہوئے کانپ اُٹھتی ہے۔کشمیر کے اندر صنف نازک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ کنن پوش پورہ، ہندواڑہ، بدراپائین اور شوپیان جیسے شرمناک سانحات ہندوستان کی جمہوریت پر بدنما داغ ہے جو ابھی بھی تحقیق طلب ہے۔

۲۳؍اور ۲۴؍فروری ۱۹۹۱ء کی درمیانی رات کو کپواڑہ کی دو بستیوں کنن اور پوش پورہ میں فوج کی ۴؍راجپوت رائفلز نے ۲۳؍خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرکے نام نہاد ’’سیکورٹی فورس‘‘ کے غبارے سے ہوانکال دی۔ انسانی حقوق کی سرگرم تنظیمیں بشمول ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق اس واقعہ میں ایک سو سے زائد خواتین کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ بیرونی دباؤ کے نتیجے میں اگر چہ اس واقعہ کے متعلق اُس وقت کے چیف جسٹس ہائی کورٹ جموں وکشمیر مفتی بہاؤ الدین فاروقی نے ۱۷؍مارچ ۱۹۹۱ء کو ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے ان علاقوں کا دورہ کرکے متاثرین کے ساتھ ہوئی زیادتی کے بارے میں جانکاری حاصل کی، مگر آج ۲۶؍سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود متاثرین انصاف کی منتظر ہیں۔

چیف جسٹس نے علاقہ کا دورہ کیا ۵۳؍خواتین کا انٹرویو لیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ بھارتی فورسز نے اُن کے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔بھارت کی اُس وقت کی سیاسی قیادت کی طرف سے متاثرہ خواتین کو انصاف فراہم کرنے میں لیت و لعل کو دیکھتے ہوئے جسٹس موصوف نے برملا طور پر اعتراف کیا کہ میری ۴۳؍سالہ سروس میں کبھی بھی اس طرح کے کیس کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے جس طرح کنن اور پوش پورہ واقعات کو ٹالا جارہا ہے۔بعد میں اگرچہ بیرونی و اندرونی دباؤ کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر دلباغ سنگھ نامی اسسٹنٹ ایس پی رینک کے آفیسر کو واقعے کا تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیامگر بدقسمتی سے چار مہینے کے مختصر وقفے کے بعد ہی کیس کو گول کرنے کی غرض سے جولائی ۱۹۹۱ء کو دلباغ سنگھ کو دوسری جگہ تعینات کیا گیا اور اس طرح صنف نازک پر ہوئے طوفان بدتمیزی کو’’قومی مفاد‘‘ کی آڑ میں زمین برد کردیا گیا۔

اسی طرح مئی ۲۰۰۹ء میں ضلع شوپیان میں فوج اور پولیس نے آسیہ اور نیلوفر نامی دو خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کرکے اپنے ناپاک اور مذموم پالیسی کا اعادہ کیا تاکہ یہاں کی صنف نازک کو تحریک آزادی کشمیر سے کوسوں دور رکھا جائے۔ نیز بٹہ بدرا پائین ہندواڑہ میں بھی فوجی آپریشن کے دوران ماں اور بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی جس دوران بیٹی نے مکان کی دوسری منزل سے کود کر اپنی عصمت کو بچانے کی کوشش کی۔بٹہ پورہ لنگیٹ ہندواڑہ میں بھی تابندہ غنی نامی طالبہ کے ساتھ فورسز نے جنگی ہتھیار کی آڑ میں جنسی زیادتی انجام دی۔کشمیر میں اس طرح کے بے شمار واقعات رونما ہوئے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق گیارہ ہزار خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں انجام دی گئیں۔ مگر جس غرض کے لیے ایسے واقعات انجام دیے گئے‘ اُن میں بھارتی پالیسی سازوں کو ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ خواتین پر جتنا زیادہ ظلم روا رکھا گیا اُتنا ہی یہ طبقہ تحریک آزادی کے ساتھ ذہنی اور قلبی طور جڑتا گیا اور مردوں کے شانہ بشانہ تحریک کے ہر اوّل دستے میں اپنا شمار کراتا گیا۔

گزشتہ کئی برسوں سے وادی میں عوامی احتجاج کے دوران خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سڑکوں پر اپنے غصب شدہ حقوق کی بازیافت کے لیے دھرنے دیے، انکاؤنٹر والی جگہوں پر جنگجوؤں کی حمایت میں سیکورٹی کور کو توڑتے ہوئے آگے بڑھی اور قوم کے جیالوں کی نماز جنازہ کے موقعہ پر سمندر کی مانند اپنی قوت کا اظہار کیا۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران وادی میں ہوئے عوامی احتجاج کے دوران خواتین پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ گولیوں اور پیلٹ سے کئی خواتین شہید ہوئیں جبکہ ایک بڑی تعداد بلٹ اور پیلٹ کے چھروں سے زندگی بھر کے لیے مضروب ہوئیں۔

سال ۲۰۱۶ء کے عوامی احتجاج میں خواتین پر پیلٹ کی برسات کی گئی اور اس طرح بے شمار خواتین جن میں بچیاں بھی شامل ہیں کو زندگی بھر کے لیے بے نور کردیا گیا۔سیدھو شوپیان کی انشاء نامی بچی احتجاج میں شامل ہوئے بغیر ہی فورسز کی بربریت کا نشانہ بن گئی۔ اپنے مکان کی اُوپری منزل سے جھانک رہی اس بچی پر بھارتی فورسز نے پیلٹ کا پورا کارٹریج فائر کیا جس کے نتیجے میں انشاء ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھوں کی روشنی سے محروم کردی گئی۔ للہار پلوامہ میں بھی شائستہ حمید نامی طالبہ کو فوج اہلکاروں نے راست فائرنگ کرکے شہید کردیا۔

نیز ۲۲؍فروری ۲۰۱۷ء کو شوپیان کے مولو چتراگام میں فوج اور جنگجوؤں کے درمیان ہوئی مختصر جھڑپ میں فوج نے نقصان کی برپائی کرنے اور اپنی خفت مٹانے کے لیے بزرگ خاتون تاجہ بیگم پر گولیاں چلاکر انہیں ابدی نیند سلادیا۔ ضلع پلوامہ میں گزشتہ برسوں سے فوج اور جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے موقعہ پر خواتین اپنا گھر بار چھوڑ کر عسکریت پسندوں کی حمایت میں نعرے اور قصیدے پڑھ پڑھ کو نوجوانوں کو متحرک کردیتی ہے جو بھارت کے پالیسی سازوں کے لیے بہرحال ایک تشویش ناک معاملہ ہے۔گزشتہ سال سرینگر جموں شاہراہ پر پانپور میں قائم سرکاری عمارت میں فوج اور جنگجوؤں کے درمیان تین دن تک جھڑپ جاری رہی جس دوران شاہراہ پر ہر قسم کی آمدودرفت معطل رہی۔

اس دوران پانپور اور ملحقہ بستیوں کی خواتین نے جھڑپ کے مقام کو چہار سو گھیرے میں لے کر اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بلند کیے اور کشمیری ’’وَن وُن‘‘ گاگا کر تحریک آزادی کے ساتھ اپنی گہری وابستگی کا برملا اظہار کیا اور یوں قابض افواج کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کردیا۔انہی واقعات کے پیش نظر حال ہی میں بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے دھمکی آمیز لہجے میں کشمیریوں کو انکاؤنٹر والے مقامات سے دوری بنائے رکھنے کو کہا ۔ آرمی چیف نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر عوام نے ہمارے کہنے پر کان نہیں دھرا تو اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا جو جنگجوؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ رواں مہینے کی ۱۵؍تاریخ کو فورسز نے ڈگری کالج پلوامہ میں گھس کر وہاں طالبات کی مارپیٹ کی اور کالج کے اندر طالبات پر پیلٹ و بلٹ کی بارش کی۔

اس واقعہ میں متعدد طالبات زخمی ہوگئیں۔ واقعہ کی خبر پوری وادی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پوری وادی کے تعلیمی ادارے بھارت مخالف نعروں سے گونج اُٹھے۔ احتجاجی طلاب کو زیر کرنے کی خاطر پولیس و سی آر پی ایف نے بے تحاشا طاقت کااستعمال کیا جس دوران درجنوں طالبات کی ہڈی پسلی ایک کردی گئی۔ ضلع کولگام میں ہی ۵۰؍کے قریب طالبات بری طرح زخمی کردی گئی جو ہنوز مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہے۔سرینگر کے نواکدل کالج برائے خواتین کی طالبہ اقرأ بشیر کے سر پر بھارتی فورسز نے پتھر مار کر اپنی بھڑاس نکالی۔ اقرأ اس وقت سرینگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں زیر علاج ہے جہاں ڈاکٹروں کے مطابق اُن کے دماغ میں گہری چوٹ آنے کے علاوہ Skullمیں مختلف فریکچرز واقع ہوئے ہیں۔ صورتحال اس قدر بے قابو ہوگئی کہ ریاستی حکومت کو ایک ہفتے تک تمام اسکول، کالجز اور یونی ورسٹیاں بند رکھنے پڑے۔

اسی طرح ۹؍اپریل ۲۰۱۷ء کو سرینگر بڈگام پارلیمانی نشست پر ووٹنگ کے دوران جو مشاہدہ پوری دنیا نے کیا اُس سے بھارت کے تمام دعوے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے۔ 7.14فیصدی پولنگ نے ہندوستانی اسٹیبلشمنت کے در وبام ہلادیے۔ جو لوگ کل تک بے تکی باتیں کرکے بھارت کےapoliticalعوام اور اقوام عالم کو گمراہ کرنے کی انتھک کوششیں کرتے رہتے تھے ان نتائج کے اظہار کے بعد وہ سب سکتہ کی حالت میں ہیں۔ 5فیصدی کا راگ الاپنے والے ہندنواز لوگوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ’’مقدس اتحاد‘‘ اب ٹوٹنے کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے‘ تو بیجا نہ ہوگا۔ مزاحمتی قیادت کی کال پر لبیک اور دن بھر بھارتی فورسز کے ساتھ بے تیغ لڑکر جس طرح نوجوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے آج ایک بار پھر عالمی دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی وہ قابل خراج ہے۔

پولنگ کے روز خواتین نے صبح سے ہی بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج کیا اور دن بھر آہنی ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوج اور پولیس کے ساتھ لڑتے رہے۔ پیلٹ اور بلٹ کے ہر وار کا مقابلہ کرتی رہیں اور اپنے وعدے کے مطابق اپنا حصہ ادا کرتی گئیں۔ بیشتر پولنگ بوتھوں کے باہر تو خواتین نے پہرہ بٹھادیا تھا تاکہ یہ معلوم کرسکے کہ کون لوگ اس تحریک کے ساتھ بے وفائی کرنے والے ہیں۔ ’’اٹوٹ انگ‘‘ کے غبارے سے تو ۱۳؍اپریل کو بالکل ہوا ہی نکل گئی جب دوبارہ الیکشن کی آڑ میں بھارت کے کھاتے میں صرف 2فیصدی ووٹ چلے گئے جس سے بھارت کے تمام دعوے سراب ثابت ہوئے اور یوں عوام نے اپنا ریفرنڈم پیش کردیا۔ان حالات کے پیش نظر الیکشن کمیشن آف انڈیا نے مین اسٹریم پارٹیوں کی سفارش پر پلوامہ اسلام آباد پارلیمانی نشست پر ہونے والی ووٹنگ کو فی الحال ۲۵؍مئی تک مؤخر کردیا ہے۔

ان تمام حالات و واقعات کی روشنی میں بھارت میں بیٹھی کشمیر دشمن لابی پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ کشمیر کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر یہ لوگ ہمیں ٹھنڈے پیٹ برداشت کرنے والے نہیں ہیں بلکہ گزشتہ ہفتوں سے ہی سیاست دانوں سے لے کر فوجی قیادت بند کمروں میں بیٹھ کر کھچڑی پکانے میں محو ہیں۔ کشمیر میں ۱۹۹۰ء والے خوفناک اور ڈروانے حالات کا اعادہ چاہنے والے لوگ سر جوڑ کر مشورہ کررہے ہیں ۔ اخوان، آپریشن بلو سٹار، آپریشن کیچ اینڈ کل جیسے مہلک فارمولے ذہن میں پک رہے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے حکومت ہند وادی کے سابق بدنام زمانہ پولیس افسران جنہوں نے یہاں ہٹلر اور ہلاکوخان کے مظالم کو بھی مات دی تھی‘ کی خدمات دوبارہ حاصل کرنے جارہی ہیں تاکہ یہاں اُبھرچکی مزاحمت کو پھر سے کچلا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے