‘حلیم’ نہیں رہے

حلیم کا لفظ سنتے ہی دل للچا گیا ہوگا، منہ میں پانی بھر آیا ہوگا۔ گیہوں ،مختلف دالوں، چاول ، گوشت اور گرم مسالوں کے ساتھ بننے والا چٹخارے دار حلیم پاکستان بالخصوص کراچی کی پہچان ہے، جسے چمچ کے ساتھ ، روٹی کے ساتھ اور چاول کے ساتھ تناول فرمایا جاتا ہے ، ادرک ، لیموں ، ہری مرچیں اور گولڈن کی ہوئی کراری پیاز اس کا لطف دوبالا کردیتی ہے ۔

حلیم کا لفظ عربی زبان کے لفظ حلم سے ماخوذ ہے۔۔اور اردوزبان میں یہ دو طریقے سے مستعمل ہے، اسم نکرہ اور صفت ذاتی۔

اسم نکرہ میں اس کے معنی کھچڑا یا دلیم کےہیں جس کی تفصیلات اوپر پیش کی گئیں اور دوسرا یہ اک پودے کا نام بھی ہے ۔

صفت ذاتی میں حلیم کا مطلب بردبار، متحمل مزاج ، نرم دل ہے اور سب سے اہم یہ اللہ عزوجل کا ایک صفاتی نام ہے ،

بحیثیت مسلمان ہم سب کو یقین ہے کہ بروز قیامت اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے رحم وکرم سے عفو درگزر سے ثواب و حلیم سے ہمیں بخش دے گا اور ہمارے اعمال کے حساب میں نرمی برتے گا۔

ان سب باتوں کی تمہید اس لیے باندھی گئی کہ خالق تو حلیم کا درس دے رہا ہے اور مخلوق میں حلم ختم ہوتا جارہا ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصے میں آجانا، خرافات بکنا،تشدد کرنا، حتیٰ کہ جان سے ماردینا اور اسی پر اکتفا نہیں کرنا بلکہ ذلیل و رسوا کرکے ہلاک کیے جانے پر نعش کی بے حرمتی کرنا، لاش کے ٹکڑے کرنا، بے لباس کرنا، مار کٹائی کرنا، اور جلا دینا۔ یا پھر ایسے بیابان میں پھینک دینا جہاں یا تو مکھیاں بھنکتی رہیں ، کیڑے مکوڑوں کی غذا بنے یا پھر کتوں ، گدھوں اور جنگلی جانوروں کی خوراک ثابت ہو۔

انسانوں کو پر سکون رکھنے ، ان کو مثبت اور تعمیری کاموں میں حصہ لینے کے لیے معاشرتی تربیت کی جاتی ہے ، اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے ، مذہب کے قریب کیا جاتا ہے ، خوشی ، خوشحالی اوربرداشت کا درس دیا جاتا ہے۔ کھیلوں اور ثقافت کے طرف رجحان سازی کی جاتی ہے اور سب سے آخر میں ماہر نفسیات سے ٹریٹمنٹ کرایا جاتا ہے اور جب سب ہی لا علاج ہو جائے تو قانون کے حوالے کر کے قیدو بند میں رکھا جاتا ہے ، تاکہ اپنے ساتھ وہ ان افراد کو بھی نقصا ن نہ پہنچائیں جو ان سے بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلق میں رشتے میں ہوں ۔

انہی سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں 2 اکتوبر کو عدم تشدد کا عالمی دن اور16 نومبر کو برداشت کا عالمی دن منایا جاتا ہے ، جن کا مقصد معاشرے میں برداشت ، ہمدردی اور بھائی چارے کو فروغ دینا، عوام میں برداشت ، تحمل مزاجی ، خوش دلی اور بردباری پیدا کرناہے ،

درحقیقت ، حلم کو تفصیلاً بیان کرنے کا مقصد حالیہ ادوار میں بڑھتے ہوئے انتشار کےرجحانات ہیں ، جن کے زیر اثر بڑے واقعات و سانحات جنم لیتے ہیں ، اور پہلے بھولنے تک ایک نیا واقعہ سر اٹھالیتا ہے ۔

نیا واقعہ ہے اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا۔ جی ہاں ! غور سے سنئے انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا ۔۔۔ جہاں پرابتدائی اطلاعات کے مطابق پانچ مسافر خواتین نے خاتون کانسٹیبل کو بے دردی سے مارا پیٹا اور کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آیا، ستم ظریفی یہ کہ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی گئی ۔ عوام کی خدمت پر مامور سرکار کی اہلکار پر ظلم نے سب کو ہی ہلا ڈالا۔ مسافر خواتین نے خاتون کانسٹیبل سے واش روم میں ٹوائلٹ پیپر نہ ہونے کی شکایت کی تھی اور موثر جواب نہ ملنے پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ایف آئی اے کی مدعیت میں خاتون اہلکار سے بدکلامی کرنے کےواقعے کی رپورٹ درج کرلی گئی ،لیکن حسبِ طریقہ پُرتشدد واقعے کی تفتیش نہ ہوئی اور معاملہ فائلوں کی نذر ہوگیا۔

لیکن ایک آدھ دن کے بعد ہی ایک اور ویڈیو نے سب کوسوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر کب اپنا حق ماننا ہے اور کس حد تک اس کے لیے آواز بلند کرنا جائز ہے ،

نئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خاتون ایف آئی اے اہلکارنے دونوں مسافر خواتین کے بال کھینچے ، دھکم پیل کی اور انہیں مکے گھونسے رسید کیے ، مسافر خواتین تکلیف اور درد سے چیختی چلاتی رہیں ۔ کوپن ہیگن جانے والی مسافر خواتین حسینہ بیگم و فوزیہ مدد کے لیے آہ و بکا کرتی رہیں ۔ لیکن مرد یا خواتین میں سے کوئی ایک شخص بھی آگے نہ بڑھا۔ خاتون اہلکار نے دونوں مسافر خواتین جوکہ ماں بیٹی تھیں ، بالوں سے دبوچ کر انہیں مارتی رہی، ماں بیٹی یکے بعد دیگرے اک دوسرے کو اس کے چنگل سے آزاد کرارہی تھیں ، بلآخر بزرگ خاتون کے بارہا کہنے پر بیٹی نے ایف آئی اے اہلکارسے معافی مانگی اور جان کی خلاصی پائی ، ماں بیٹی روتی دھوتی مدد کو پکارتی لاونج سے باہر آگئیں ، جس کے بعد واقعے کی ایک اور ایف آئی آر درج کرلی گئی ،

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد وزیر داخلہ نے واقعے کا نوٹس لیا اور ملوث خاتون اہلکار کو معطل کردیا تاہم ایف آئی اے نے بھی ردعمل کے طور پر ایک ویڈیو جاری کی۔

بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان کا اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہونے والے واقعےاور خاتون کو زدکوب کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری ایوی ایشن سے 3 دن میں رپورٹ طلب کرلی۔

یہ وہ معاملہ تھا جس پر سوشل میڈیا اور میڈیا پر خوب ہاہاکار ہوئی ، لیکن کیا انٹرنیشنل ائیر پورٹ پرٹوائلٹ پیپر کی عدم موجودگی عجیب نہیں ؟ خواتین سیکشن میں خواتین ہاوسنگ کیپر نہ ہونا عجیب نہیں؟ کیا خواتین کو حق نہیں کہ وہ سوال کرسکیں؟ کیا خواتین کاکوئی حق نہیں کہ انہیں سوال کا جواب مل سکے؟

ان سوالات کے بیچ ذہن تذبذب کا شکار تھا کہ چھوٹی سی بات لڑائی جھگڑے تک کیو ں پہنچی ، کون سی وہ بات ہے جس کی پردہ داری ہے ، بالآخرتفتیش کا آغاز کیاگیااور سی سی ٹی وی ویڈیو نے پوری کہانی عیاں کردی کہ کس طرح مسافر خواتین کو بین الاقوامی ایئرپورٹ پر ٹشو نہیں‌ملے ، انہوں نے کس انداز میں اپنی شکایت درج کرائی، اور خاتون اہلکار کی عدم توجہی کی وجہ سے وہ کس طنطنے کے ساتھ کاونٹر پر پہنچیں اور اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی ، ائیر پورٹ عملے بدتمیزی اوربدکلامی کی ۔عملے نے ردعمل کی صورت میں موبائل ویڈیو بنانا چاہی ، تو ایک خاتون نے پاکستان کو براکہا اور کاونٹر پر گھس کر موبائل چھیننے کی کوشش کی ،سینئر اہلکار نے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکام بالا تک رسائی چاہی تو خاتون سیخ پا ہوگئیں ۔ چارو ناچار ان دونوں خواتین کو الگ لے جاکر معاملہ سلجھانے کی کوشش کی ، نہ سمجھنے پر شاید وہ ہوا جس کاانہیں اندازہ نہیں تھا اور اس کی آوازیں باہر کھڑے افراد سنتے رہے ۔ اور ویڈیووائرل ہوگئی۔

ایف آئی اے امیگریشن حکام نے نوشہرہ کے رہائشی عمر خالد، ان کی اہلیہ حسینہ خالد، دو بیٹیوں فوزیہ خالد اور فاطمہ خالد کو جمعہ (21 اپریل) کی صبح 8 بجے پشاور سے دوحہ جانے والی پرواز میں سوار ہونے سے روک دیا تھا۔ حکام کے مطابق ا سلام آباد ایئرپورٹ پر پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات جاری ہیں لہذا اس سلسلے میں معاونت کرنے اور بیان ریکارڈ کروانے کی غرض سے اس خاندان کو واپس اتارا گیا۔

امیگریشن حکام نے اپنی ابتدائی تحقیقات میں 3 امیگریشن اہلکاروں کو واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے چارج شیٹ داخل کردی، ان اہلکاروں میں 2 خواتین کانسٹیبل اور ایک شفٹ انچارج شامل ہیں۔

اس تمام قصے میں اک بات طے ہے کہ برادشت ، حلم من حیث القوم ختم ہوتا جارہا ہے ، کوئی بھی سننے کو تیار نہیں ، سب نے اپنی بات کہنی ہے اور اپنی ہی ماننی ہے۔

ٹشو پیپر ہونے اور مناسب جواب فراہم نہ ہونے پر فریقین کا اس طرح کے ردعمل نے پوری قوم کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا ، اور پاکستان کا مثبت چہرہ مسخ ہوتا جارہا ہے۔ بحیثیت فرد کوئی بھی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سےنہیں نبھارہا اور نتیجہ کرپشن اور استحصال کی صورت عفریت بن گیا ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق کرپشن، معاشرتی استحصال، لاقانونیت اور نا انصافی سے عوام میں احساس محرومی جنم لیتی ہے۔اور عام آدمی کو عزت و احترام ، بنیادی سہولتیں نہ ملنے کے باعث عدم برداشت بیماری کی طرح معاشرے میں سرائیت کر گئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے