کیا جنگ کا بگل بج چکا؟

پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے مقدمے کا بڑا فیصلہ آگیا۔ ویسے تو فاضل جج صاحبان نے کہا تھا کہ فیصلہ ایسا ہوگا جسے بیس برس تک یاد رکھا جائے گا۔ تاہم یہ فیصلے کے مؤثر ہونے پر ہے کہ کس کی یادوں کے البم کا کب تک حصہ بن سکتا ہے۔ میاں صاحب کو سپریم کورٹ کے پانچ ججز پر مشتمل بنچ میں دو نے مکمل طور پر نااہل قرار دیا ہے جبکہ باقی تین نے مشکوک ٹھہرایا ہے۔ عدالت نے فیصلہ ایسا دیا ہے کہ اس پر فریقین مٹھائی بانٹ رہےہیں۔ ن لیگی اسے اپنی فتح سمجھ رہے ہیں تو پی ٹی آئی اور دیگر فریقین اس کا سہرا اپنے سرسجاتے ہیں۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟ کسی کو نہیں معلوم۔۔ بس فیصلہ ہوا تو سب نے اس سے اپنی اپنی پسند کی چیزیں نکال لیں۔

کیا اس فیصلے سے پانامہ کا ہنگامہ تھم گیا؟ جو غلغلہ تھا، جو طنطنہ تھا، جو شور تھا اور سیاسی ہواؤں کا جو زور تھا کیا وہ ختم ہوگیا؟ یقیناً ہرگز نہیں۔ معاملات شاید گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے جارہےہیں۔ ہر آنے والا دن بھاری سے بھی بھاری ہوسکتا ہے۔ اب جبکہ عام انتخابات کا بگل بجنے میں زیادہ دیر باقی نہیں ہے تو پانامہ لیکس کا فائدہ اپوزیشن عمومی طور پر اورتحریک انصاف خصوصی طور پرخوب اٹھائے گی۔

جماعت اسلامی کے علاوہ پیپلزپارٹی اورپاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر فریقین نے مشترکہ تحقیقاتی ٹٰیم کو مسترد کرکے سرکار کو یہ کھلا پیغام دیا ہے کہ کچھ بھی ہو ’’ ہم پیچھے نہیں ہٹنے والے‘‘۔ کپتان اور کھلاڑیوں نے تو فوری طور پر ن لیگی شیروں کو للکارنا بھی شروع کردیا ہے۔ جس کیلئے مختلف جگہوں پر جلسوں کا انعقاد ہورہا ہے۔ پاورشو ہورہے ہیں۔ عوام کا خون گرمایا جارہا ہے تاکہ میدان سجا رہے، دنگل لگا رہے۔

دوسری جانب حکمران جماعت کے نمائندے بھی پورے جوش و جذبے میں نظر آرہے ہیں۔ ’’ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘ کے مصداق ن لیگی شیر خوب دھاڑ رہے ہیں اور یہ دعویٰ کررہےہیں کہ قانونی لڑائی ہو یا سیاسی ،کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ آسان لفظوں میں کپتان کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جتنا چیخ سکتے ہیں وہ چیخیں چلائیں لیکن ہوگا کچھ نہیں ۔ انہیں پکا یقین ہے کہ ان تلوں میں اب اتنا تیل نہیں۔ جس سے شعلہ بھڑک اٹھے۔ دھرنوں کے دوران حالات کچھ اور تھے۔ اسلام آباد پر یلغار کرنے کا وقت کچھ اور۔۔ بقول ن لیگی متوالوں کےاس مسئلے کا حل سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں صرف اور صرف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

تو کیا اتنا عرصہ مخالفین لمبی تان کر سوجائیں یا سیاسی محاذ پر ن لیگ کو ٹف ٹائم دینے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں؟ پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد سیاسی درجہ حرارت بڑھا ضرور ہے تاہم سیاست کے جیگوار نواز شریف کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنتا فی الحال ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

دادو میں جلسے سے خطاب میں عمران خان نے صرف مخالفین پر تیر و نشتر نہیں برسائے مستقبل قریب میں اپنی منصوبہ بندی بھی سامنے رکھ دی ۔ کرپشن کے معاملے پر نواز شریف کے بعد آصف علی زرداری کا پیچھا کرنے کا اعلان کرکے انہوں نے
مفاہمتی سیاست کوبھی للکار دیا ہے۔ کپتان پہلے سے ہی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پر آپس میں مک مکا کا الزام لگا تے آرہے ہیں۔ موقع ملنے پر اے این پی اورمولانا فضل الرحمان کو بھی خوب لتاڑتے ہیں۔ تو ایسی صورتحال میں متحدہ اپوزیشن کا قیام شائد خان صاحب کی پالیسی نہیں۔۔۔ بقول جون ایلیا؎

میں خود بھی چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی

فیصلے کا اور کچھ اثر ہو نہ ہو۔۔ سیاسی جنگ کا بگل ضرور بج چکا ہے۔ جلسے ہورہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو شہر تو شہر گاؤں ، دیہات اور دوردراز علاقوں میں بھی غمی خوشی اور فاتحہ خوانی کیلئے جانا یاد آرہا ہے۔

وزیراعظم کے استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں لاہور بار ایسوسی ایشن نے بھی بڑی تحریک چلانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یعنی نواز مخالف مورچے وسیع تر ہونا بھی خارج از امکان نہیں۔

مستقبل قریب میں پاکستان کی سیاسی صورتحال کشیدگی، رنجش اورمزاحمت کی جانب بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ پانامہ کی تھرتھلی ابھی جاری ہے۔ اس کے آفٹرشاکس بھی کم شدت کے نہیں ہونگے۔ عدالتی فیصلے سے مخالفین کے ہاتھ ایسی چھڑی آئی ہے جسے وہ باآسانی استعمال کرتے ہوئے حکمران جماعت کو ہانک سکیں اور سیاسی ہانک کا یہ عمل آئندہ انتخابات تک شاید رکے گا نہیں۔ رہی بات اخلاقی طور پر میاں صاحب کے استعفے کی تو پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا پودا پروان چڑھنے ہی کون دیتا ہے؟ یہاں تو؎

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے