جماعت اسلامی خواتین ونگ کی 3روزہ ورکشاپ

"ابلاغ” ترسیلِ پیغام, انسان کی اوّلین ضرورت ہے. جس کی اہمیت کے پیشِ نظر خالقِ کائنات نے اسے علم و کلام کی نعمتوں سے نوازا اور اشرف المخلوقات بنایا. ذرائع ابلاغ کی ترقی نے تمام انسانوں کے مابین دوریوں کو سمیٹ کر دنیا کو ایک "عالمی گاؤں”(گلوبل وِیلیج) بنا ڈالا. ترقی اگرچہ خیروبرکت کا نام ہے. لیکن ذرائع ابلاغ کے منفی اور مفاد پرستانہ استعمال نے معاشرے کو جس نحوست اور بدحالی سے دوچار کیا, وہ سب کے سامنے ہے.


شعبۂ نشرواشاعت (جے آئی ویمن)
ابلاغ کے اس محاذ پر خیر کی عَلَم برداری کے لئے مقدور بھر کوشاں ہے. اس مقصد کی خاطر مقامی آڈیٹوریم میں نئی قلم کار خواتین کے لئے تحریری و سوشل میڈیا ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا. اس کا مقصد ابلاغ کے حوالے سے تخلیقی و فنّی صلاحیت کی حامل خواتین کو تربیت و رہنمائی فراہم کرنا نیز ان کی صلاحیتوں کو معاشرے کی بہتری اور دین کی سربلندی کے لئے استعمال کرنا تھا.

آڈیٹوریم کو ورکشاپ کے لحاظ سے سمعی و بصری سہولیات سے آراستہ کیا گیا تھا. حاضرین کے لئے نفیس و کشادہ نشست گاہ کا شرب و طعام کی سہولیات کے ساتھ اہتمام تھا. اہم بات, موسم کی شدت بلکہ حِدّت کے باوجود منتظمین کی محبت آمیز مسلسل مُسکراتی میزبانی بِلاشُبہ قابلِ ستائش تھی.

تلاوتِ قرآن سے ورکشاپ کا باقاعدہ آغاز ہوا. پہلا پروگرام, "قلم و قرطاس کا رشتہ کیا” کے عنوان سے تھا. تحریر کے لئے اس ترغیبی پروگرام کو جامعۃ المحصنات کی نائب نگران نزہت منعم نے پیش کیا. انہوں نے مختلف توضیحات کے ذریعے تحریر کی اہمیت اور مقاصد بیان کئے. ان کے مطابق تحریر کا اولین مقصد شہادتِ حق کی ادائیگی ہے. حق اور سچ کو ہم نے جس طرح پایا, اسی طرح بیان کرنا ہماری ذمہ داری ہے. اس کائنات میں ہر چیز کا آپس میں رشتہ ہے, وہی رشتہ جو ہماری سانس کی ڈوری کا زندگی سے تعلق ہے, وہی رشتہ قلم اور قرطاس کا ہے, لا الہٰ الا اللّٰہ. ہمیں اپنی تحریروں میں اسی رشتے کو اُجاگر کرنا ہے. معاشرے کے اندھیروں کو اسی کی روشنی سے دور کرنا ہے.

دوسرا پروگرام "مراسلہ اور مضمون نگاری” کے موضوع پر ہمارے سپرد تھا. تحریر کی ان دونوں اصناف کا تعارف,اہمیت و وضاحت اور تحریری مراحل سمجھائے گئے. اس دوران حاضرین سے باہمی تبادلۂ خیال بھی دلچسپ رہا. اپنی تحریر کے لئے "بَلّغُوا عَنّی وَ لَو آیۃ” کی نصیحت اور جواب دہی کا احساس, میدانِ عرفات میں, آپ (ص) کا تصوراتی ساتھ…. ثابت قدمی کے لئے اہم گردانے گئے.

طعام و نماز کے وقفے کے بعد تیسرا پروگرام, "بُلا رہی ہے تم کو ممکنات کی دنیا” کے عنوان سے سوشل میڈیا کے موضوع پر تھا. وقت کی اہم ضرورت کے اس پروگرام کو نگراں نشراوشاعت سیمی نظیر نے کمالِ مہارت سے پیش کیا. انہوں نے سوشل میڈیا کی مختلف ایپس, فیس بُک, ٹوئٹر, یوٹیوب, انسٹاگرام, لِنکڈ اِن وغیرہ سے , ان کے مثبت و منفی پہلوؤں کے ساتھ حساس آگہی فراہم کی. ان کے مطابق ذرائع ابلاغ کی مثال دو دھاری کی مانند ہے. اس سے بھلائی کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے اوربُرائی کو بھی.

ستم ظریفی ہے کہ خیر کے حامیوں کی چشم پوشی و سُستی کے باعث, ہماری اقدار اور تہذیب و ثقافت تباہی کے دہانے پر ہیں. اب میڈیا کشمکش کا محاذِجنگ ہے. خبروں, اطلاعات, ٹاک شوز, ڈرامہ, ہر ایک کی آڑ میں اسلامی معاشرہ پر یلغار ہے. اس سے باخبر رہنا اور ان کی مزاحمت کے لئے ردِعمل ظاہر کرنا اہم کام ہے.

ڈراموں میں نکاح, طلاق, حلالہ, خلع جیسے اسلامی احکام کی غلط تشریح پیش کی جا رہی ہے. ہم جنس پرستی کا فروغ دکھایا جا رہا ہے. غیر مسلموں کے مقابلے میں مسلمانوں کی کردارکشی دکھائی جا رہی ہے. میڈیا مانیٹرنگ اگرچہ ایک ناگوار ناکام ہے مگر معاشرے سے گندگی دور کرنے کی خاطر کسی حد تک محتاط معاملہ کرنا ہوگا. ان پروگرامز کے پیجز اور متعلقہ ٹوئیٹر اکاؤنٹس پر وقار کے ساتھ مثبت ردِعمل ظاہر کرنا ضروری ہے. سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوۓ ذاتی مقاصد کے بجاۓ دعوتی مقاصد کو ترجیح دی جاۓ. یہاں شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچتے ہوۓ صرف وہ کام کریں جن کی جواب دہی کرنی ہے. اس کام کی جانب دوسروں کو بھی توجہ دلائیں. آگہی کا مقصد برائی کی تشہیر کے بجاۓ اس کا ممکنہ علاج اور اس پر قدغن لگانا ہو.

اگلا پروگرام "کہانی نویسی” کے عنوان سے قلمکار صائمہ راحت نے پیش کیا. ان کے مطابق, قصہ کہانیوں سے دلچسپی انسانی فطرت میں شامل ہے. قرآن میں گذرے ہوۓ افراد اور زمانے سے متعلق واقعات و تمیثیلات کو ہدایت کا ذریعہ بنایا گیا ہے. ہمیں بھی دعوتی کام کے لئے ادب کی اس لطیف صنف پر کام کرنا ہوگا. کہانی کے مختلف اجزاء, ابتدائیہ پلاٹ نقطۂ عروج اور اختتام …ان سب کی تشکیل پُرکشش انداز میں ہو. قاری پر کہانی کا دیر تک اثر قائم ہونا اور اس میں موجود مثبت روئیے اپنانا کہانی کی کامیابی ہے.

اس کے بعد کا پروگرام ” افسانہ نگاری” سے متعلق تھا. اس پروگرام کو شاعرہ و افسانہ نگار حاجرہ منصور نے پیش کیا. ان کے مطابق افسانہ انسانی زندگی کی عکاسی کرتا ہے. ایسی تحریر جس میں کردار, پلاٹ اور کہانی ہو افسانہ کہلاتی ہے. بہترین افسانہ نگاری کے لئے اپنی شناخت بنانا ضروری ہے. موضوع کا انتخاب میں معاشرے کی اصلاح پیشِ نظر رہے. افسانے کے تمہیدی جملہ مچھلی کے کانٹے کی مانند ہوتا ہے کہ قاری کی توجہ فوراََ ہی اپنی جانب کھینچ لے. افسانے کا پلاٹ کشمکش سے بھر پور ہو. اختتام پر قاری متذبذب ہونے کے بجاۓ آپ کی سوچ سے ہم آہنگ ہو. تمام افسانے میں آپ کی موجودگی ہر آن محسوس ہوتی رہے. آپ کے "خلیفۃ اللّٰہ فی الارض” ہونے کا عکس تحریر میں نظر آۓ.

دوسرے دن, پہلا پروگرام "سوشل میڈیا پر نظریاتی جنگ” کے عنوان سے تھا. سوشل میڈیا ایکٹِوِسٹ عالیہ خالد نے بھر پور تحقیق کے ساتھ اس موضوع پر حاضرین کو معلومات فراہم کی. ان کے مطابق تحریر کی اشاعت اور اپنی راۓ کے اظہار اب پہلے کی طرح مسئلہ نہیں. انٹرنیٹ کی مدد سے ہر ایک کا اپنا میڈیا ہے, اکاؤنٹ پیج ویب سائٹ وغیرہ کی صورت میں. موجودہ دور میں سوشل میڈیا کا اہم محاذ "زہن سازی کی جنگ” ہے. یہاں دنیا کے زہین ترین دماغ اپنے اپنے منفی اور سیکیولر مفادات کے لئے دن رات برسرِپیکار ہیں. یہ لوگ خود بھی صراطِ مستقیم سے بھٹکے ہوۓ ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی شکوک و شبہات, لاحاصل حُجّت بازیوں اور بے محل سوالات کے ذریعے اسلام سے گمراہ کرنا چاہتے ہیں.

ان کا اصل ہدف ہمارے نوجوانوں کو اسلام اور پاکستان سے متنفر کر کے اپنے سیکیولر مقاصد کے لئے زہن سازی کرنا ہے. اگرچہ ان کی بہت سی ویب سائٹس اور پیجز کو بند کیا جاچکا ہے. مگر اب بھی سینکڑوں کی تعداد میں ہیں جہاں سے سیکیولر مواد ڈِلیٹ کیا ہوا ہے. اس کے باوجود دین کے پردے میں ان کی سیکیولر زہن سازی کی سرگرمیاں جاری ہیں. ہمارے کرنے کا اہم کام دین کے علم اضافہ اور استقامت کے ذریعے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھ کر ان پر قدغن لگانا ہے.

عالیہ صاحبہ نے چند منتخب اسلامی پوسٹس بھی دکھائیں جن کے پسِ پردہ سیکیولر مقاصد کار فرما تھے.
” مسجد میں سیمنٹ کی بوری دینے سے بہتر ہے کہ پڑوس میں بھوکے کو کھانا کھلایا جاۓ”

بھوکے کو کھلانا یقیناََ نیکی ہے. مگر ایک نیکی کے لئے دوسری نیکی کو برباد کرنا اور مسلمانوں کے اہم ترین دینی شعار مسجد کی اہمیت کم کرنا سیکیولرز کے ٹارگٹس ہیں.

اگر ہم دینی شعور کے حامل ہوں گے تو یہاں یہ مزاحمت ہونی چاہئیے, "باہر سے مہنگا پِزا کھانے سے بہتر ہے کہ گھر کے کم خرچ کھانے میں سے بھوکے پڑوسی کو بھی دیا جائے.”

ہمارے دین میں تو پہلے ہی اس مقصد کے لئے سالن میں شوربہ زیادہ کر کے بھوکے پڑوسی کو کھانے میں شریک کرنے کی تاکید موجود ہے.

غرض اسی طرح قربانی اور حج جیسے اہم دینی احکام کو بھی ٹارگٹ کر کے, ان کی اہمیت کم کرنے, ادائیگی سے باز رکھنے کی خاطر, ان کے خلاف شکوک و شبہات کے جال بُنے جاتے ہیں.

اہلِ دین, جو معاشرے کے معزز ترین طبقہ ہیں. ذومعنی بیانیوں کے ذریعے ان کے مختلف گروہوں کو مدِمقابل لا کر تفرقہ اور باہمی منافرت کی فضا پیدا کی جاتی ہے.

سوشل میڈیا پر نظریاتی جنگ کے محاذ پر شعبۂ نشرواشاعت کی کوششیں قابلِ قدر ہیں. مگر جس تیزی سے ہمارے نوجوان ان سیکیولر نظریات سے متاثر ہو کر اسلام و پاکستان بیزار روئیے اپنا رہے ہیں. اس سنگینی کا تقاضا ہے کہ باطل نظریات کی بیخ کنی کے لئے مذید منظم اور مسلسل کوششیں کی جائیں.

اگلا پروگرام "ہم اچھے بلاگر کیسے بنیں” کے عنوان سے تحریر کی آن لائن صنف, بلاگنگ سے متعلق فرحت طاہر نے آگہی فراہم کی. ان کے مطابق کسی بھی چیز کے بارے میں اپنا خیال, راۓ, احساس اور تجزیہ, بلاگ کہلاتا ہے. اس کی تین اہم اقسام ہیں تحریری تصویری اور ویڈیو. سوشل میڈیا کے دیگر محاذ کی طرح یہاں بھی مثبت اور منفی قوتوں کی کشمکش جاری ہے. ان کے خیال میں خواتین اور پروفیشنل خواتین کے بلاگز پر ردِعمل نسبتاََ جلد آتا ہے. لہٰذا انہیں اپنی تحریری صلاحیت کا یہاں مثبت استعمال کرنا چاہئیے.

اگلا پروگرام "خبر اور قرارداد” بنانے کے موضوع پر تھا. نشرواشاعت (جے آئی ویمن) کی نائب نگران اور "خبروں” کی ذمہ دار ماہ پارہ ہما نے تحریر کی دونوں اصناف کے تعارف سے آگاہ کیا. ان کی ضرورت و اہمیت بیان کی. اور عملی مشق کے ذریعے ان کی تحریر کے مراحل حاضرین کو سکھاۓ.

نماز و طعام کے وقفے کے بعد اگلا پروگرام تھا "تحریر کیوں اور کیسے” . جسارت سنڈے میگزین صفحۂ خواتین کی انچارج اور سینئیر کالم نگار غزالہ عزیز نے اپنے مخصوص متبسّم اور دھیمے انداز میں گفتگو شروع کی. ان کا دورانیہ, تحریر سےمتعلق باہمی تبادلۂ خیال پر مشتمل رہا. ان کے مطابق تجسس اور جاننا انسان کی فطرت میں ہے. اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے علم اتارا اور قلم کی قسم کھا کر اس کو تقدس عطا کیا. آج میڈیا پر تحریر کے جو بھی انداز ہوں ان کی بنیاد وہی قلم اور کتاب ہے. ہم تحریر کے جس محاذ پر بھی ہوں, قلم و کتاب سے تعلق کی مضبوط بنیاد قرآن ہی ہونا چاہیے.

اور بالآخر ورکشاپ کا آخری دن بھی آن پہنچا. تلاوتِ قرآن سے آغاز ہوا.

آج کا پہلا پروگرام تھا ” میڈیا کے اُفق پر آپ کی تحریر”. اردو ڈائجسٹ کی معروف افسانہ نگار توقیر عائشہ نے اس عنوان سے تحریر کی خصیات واضح کیں. ان کے
مطابق انسانی ہدایت کا آغاز علم سے ہوا.
اِقراء بِاسمِ رَبِکَ الّذِی خَلَق O

انہوں نے ذرائع ابلاغ کے لئے تحریرخصوصیات کی وضاحت کی.

گرمی کی شدت اپنے عروج پر اور ایسے میں ایک بزرگ صحافی کے پروگرام کی باری آئی. جسارت کے چیف ایڈیٹر اطہر ہاشمی صاحب کو "اصنافِ ادب” پر اظہارِ خیال کے لئے زحمت دی گئی تھی. اگرچہ لفظ زحمت کا یہ استعمال مبالغہ آمیزی کے زمرے میں آتا ہے. مگر موسم کی حِدّت میں یہ لفظ, مبالغہ کے بجائے حقیقت کا روپ دھار گیا. محترم بزرگ اس زحمت سے اتنا متاثر ہوئے کہ اپنے موضوع اور حاضرین سے کماحقہٗ انصاف کرنا شائد ان کے بس میں نہ رہا. ادب کے حوالے سے کچھ ناکافی سی گفتگو رہی. البتہ اپنے پسندیدہ موضوع "خبر لیجئے زباں بِگڑی” یعنی تصحیحات اور لغت پر شگفتہ انداز میں اظہارِخیال فرماتے رہے.

مگر وہ اہلِ ادب اور اپنی ہی صحافی برادری سے شکوہ کناں بھی دکھائی دئیے. بہرحال اندازہ ہوا کہ میڈیا کے اس بگاڑ کے دور میں اردو زبان بھی نافذ ہونے سے قبل ہی عدم توجہ کا شکار ہے. ایسے میں اطہر ہاشمی جیسے مصلحِ زبان کی مستعد موجودگی ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہیں. آئندہ کسی مہربان موسم میں شائد اس نشست کا ازالہ ممکن ہو سکے اور ہم ان کی زبان دانی سے استفادہ کر سکیں.

نماز و طعام کے وقفے کے بعد جو پروگرام تھا اس نے موسم کے زیرِ اثر مضمحل قویٰ کو ایک دم ہوشیار کر دیا. وہ تھا ” جو کرنا ہے کر لو مُہلت ہے تھوڑی” جی ہاں! وقت کی بہترین منصوبہ بندی سکھانے کے لئے یہ پروگرام نائب قیمۂ پاکستان آمنہ عثمان کے سپرد تھا. ان کے مطابق وقت کو ضائع کرنے سے بچنا اور اس کا بہترین استعمال ہمارے دینی احکام ہیں جن کے لئے ہم جواب دہ ہیں.

ان کے مطابق وقت کو استعمال کرنے کی بنیاد ہمارا نفس ہے. حدیث ہے :
"اگر تم وقت پر غالب نہ آۓ تو وقت تم پر غالب آجاۓ گا.”

وقت کو تھامنے, بچانے اور مؤثر استعمال کے لئے انہوں بہت سے ممکن العمل طریقے متعارف کرواۓ مثلاََ وقت اور کاموں کی تحریری منصوبہ بندی. مقاصد و ترجیحات طے کرنا. سحرخیزی, صدقہ اور صلۂ رحمی کے ذریعے وقت کو بابرکت بنانا. اپنے وقت کے زمہ دار و جواب دہ خود بننا.

اگلا پروگرام "تحریر اور معاشرہ” کے عنوان سے تھا. اس کی مربّی بھی معاشرے کی نبض شناس سینیئر کالم نگار افشاں نوید تھیں. ان کے مطابق قلم کے تقاضے پورے کرنا آسان کام نہیں. تحریر کے سفر میں شارٹ کٹ نہیں. سیکھنا اور مسلسل جدوجہد درکار ہے. حشر کے منظرنامے کو پیشِ نظر رکھتے ہوۓ کام کرنا ضروری ہے. کہ اس سخت دن ہماری تحریر ہماری نجات کا ذریعہ بن پاۓ گی؟

نائب ناظمہ وسطی عذرا سلیم صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوۓ حق و باطل کا اصل محاذ میڈیا کو قرار دیا. ان کے مطابق قلم کے ذریعے جدوجہد کرنے والوں کا اصل کام محاذ پر اخلاص کے ساتھ ڈٹ جانا اور مقابلہ کرنا ہے.

ہماری اورحاضرین کی خوش قسمتی کہ کراچی اور مرکزی نظم کی ذمہ داران ثمرین احمد, مہر افشاں,ثنا علیم اور صائمہ افتخار نے بھی اس محفل کو رونق بخشی اور حاضرین سے مختصراََ تبادلۂ خیال بھی فرمایا.

میزبان سیمی نظیر صاحبہ نےگُستاخانہ پیجز کے مالکان و بلاگرز اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی قرارِ واقعی سزا کے لئے حکومت سے مطالبے پر مبنی قراردا
پیش کی. جسے حاضرین نے کثرتِ راۓ سے منظور کی.

ناظمہ ضلع وسطی ثمینہ قمر صاحبہ نے اختتامی خطاب میں سہ روزہ ورکشاپ کے انعقاد اور کامیابی پر میزبانوں اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا. اپنے قلمی سفر میں نئے روابط کو تلاشنے اور تراشنے کی ہدایت کی. آخر میں استغفار اور کوششوں کی قبولیت کے لئے دعا کی گئی.

اور پھر تین دن سے جاری خوبصورت تربیتی محفل, منزل کے لئے نشاناتِ راہ کو مذید واضح کرتی ہوئی اختتام پذیر ہوئی. معمول کی مصروفیات سے وقت نکال کر روز صبح چلے آنا اور دن بھر کی میزبانی کے بعد شام ڈھلے متبسّم و مطمئن چہروں کے ساتھ واپسی. بِلاشُبہ میزبانوں کا کمال تھا. حاضرین کا حصولِ علم کے لئے انہماک اور اسے عمل میں ڈھالنے کے لئے ان کا عزم یقیناََ میزبانوں کی تقویت کا باعث تھا. سینیئر لکھاریوں کی مربّیانہ محبت آمیز گفتگو کو سن کر اپنی متحرک اجتماعیت پر فخر کا احساس ہوا. وقتِ رخصت سینیئرز کا بے اختیار اپنے ساتھ لپٹا کر تقدس کا اظہار کسی اعزاز سے کم نہ لگا. ان کی محبتیں اور دعائیں ہمارے بحر کی موجوں میں مزید اضطراب کا باعث بنیں گی. ان شآءاللّٰہ.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے