معاہدہ کراچی اورقسطوں میں خود کشی

قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر

اب کوئی منصف یہ دلیل مانے یا نہ مانے ، حقیقت یہ ہے کہ ہم خنجر کی نوک پر خود گرے ۔بار بار گرے ، قسطوں میں خود کشی کی ، یا کروائی گئی ، لیکن اب ہم ’بے دانت کے شیر ‘ ہیں جو دھاڑ بھی لے تو سامنے والا چپیڑ مارے گا ، اس لئے ہم ممیاتے ہیں ، گھگھیاتے ہیں اور کچھار میں ہوں تو بڑھکیں مارنے کا شوق بھی پورا کر لیتے ہیں ، چور چوری سے جا سکتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں، اور جناب یہ ’ہم ‘ سے مراد کشمیری قوم ہے ، مسئلہ کشمیر اگر ’گریٹ گیم‘ کی پیداوار ہے تو اس کو ’بلڈی گریٹ گیم ہمارے کرتوتوں نے بنایا ہے ، اور یہ کرتوت پہلے دن سے ہمارے کردار میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ اب ہم کمبل کو چھوڑ سکتے ہیں کمبل ہمیں نہیں چھوڑے گا

یہ تمہید ہے معاہدہ کراچی پر تبصرے کی ، جس کو اتنا رگیدا گیا ، اتنا رگیدا گیا ، کہ سنا ہے سردار ابراہیم ایک بار تو خود مکر گئے تھے کہ معاہدہ کراچی پر دستخط میرے نہیں تھے ، ان کے انکار کی اس خبر میں کتنی صداقت ہے یہ تو نہیں معلوم لیکن معاہدہ کراچی کے حصہ میں وہ تنقید بھی آئی جو اس کے بعد والے اقدامات کے حصے میں آنی چاہیے تھی ،

یہ معاہدہ آزاد حکومت ، مسلم کانفرنس (جس کی حیثیت اس وقت آزاد کشمیر حکومت سے زیادہ تھی ) اور حکومت پاکستان کے درمیان ہوا ، جس میں تینوں فریقوں کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ۔ معاہدہ ایسے حالات میں کیا گیا تھا ، کہ سلامتی کونسل آزاد حکومت کو نمائندہ حکومت ماننے پر تیار نہ تھی ، تو آزاد حکومت کی قانونی حیثیت کے تعین کے لئے اس کو کسی آئین کے فریم ورک میں لانا لازمی تھا ، جو کہ اس معاہدے کی وجہ سے ممکن ہو سکا ، یہ الگ بات ہے کہ آزاد حکومت کی خودمختار حکومت تسلیم کروانے کی کوششیں کی جاتیں تو زیادہ بہتر تھا ، لیکن ہمارے غازی ملت صاحب نوک خنجر پر جا گرے اور پہلا دانت نکلوا آئے

معاہدہ کراچی کی ایک اور مثبت پہلو تھا جس کو منفی مانا جاتا ہے وہ اختیارات کی تقسیم تھا ، معاہدے کی رو سے ، دفاع ، کرنسی اور خارجہ پالیسی (جس میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاک وہند کے ساتھ ڈیل کرنا بھی شامل تھا ) پاکستان کے دائرہ اختیار میں تھا ، اندرونی سطح پر مسئلہ کشمیر کی تشہیر کے علاوہ ، آزاد کشمیر کے تمام انتظامی امور کا اختیار آزاد کشمیر حکومت کے پاس تھا ۔ یہ وہ مکمل اندرونی خود مختاری ہے جس کا مطالبہ آج کیا جاتا ہے ۔

عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کی تشہیر اور اقوام متحدہ کے ساتھ معاملات چونکہ خارجہ پالیسی کا حصہ تھے ، اس لئے وہ پاکستان کو دے دیے گئے ، دوسرا دانت نکل گیا ، پھر چوٹ ہمیں لگے اور درد کسی اور کو ہو ، یہ امید رکھی گئی، جو آج تک امید ہی ہے

معاہدہ کراچی ایک اور پہلو سے گلگت بلتستان کے عوام اور کشمیریوں کی لعن طعن سہتا ہے ، وہ گلگت بلتستان کے انتظامی امور کی کلی طور پر پاکستان کو حوالگی ہے ، آئیڈیل حالات میں تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ تھا اور رہتا لیکن گلگت کی فتح کے بعد گلگت پر پاکستانی پرچم لہرایا جا چکا تھا ،معاہدہ کراچی کے تحت ، اس کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے انتطامی امور کو پاکستان کے حوالے کیا گیا ، بعد میں ان کو آئینی حقوق مکمل دینا پاکستان کی حکومت کی ذمہ داری تھی ، آزاد کشمیر گلگت بلتستان کو پاکستان کے حوالے کرنے کا اتنا ہی مجرم ہے جتنا کہ وہ اپنے آپ کو بے اختیار کرنے کا مجرم ہے ، لیکن اس وقت ایسا لگتا ہے کہ سرادار ابراہیم صاحب نے سوچا کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی مل جائے ، لیکن پھر اس کے بعد والے ایکٹ اور آئین نے اس لنگوٹی میں بھی سو چھید کر دیے ہیں

معاہدہ کراچی کے بعد رولز آف بزنس ، ۱۹۵۲ ، ۱۹۵۸ ، کے بعد بیسک ڈیمو کریٹک ایکٹ ۱۹۶۰ ، میں آزاد کشمیر حکومت کے رہے سہے اختیارات پر بھی قبضہ کر لیا جاتا ہے ، اور تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا ایکٹ ۷۴ ۔ ایکٹ ۷۴ میں آزاد جموں و کشمیر کونسل کا قیام اور لینٹ آفیسرز کی تعیناتی وغیرہ جیسے اقدام وہ تھے ، جنہوں نے آزاد حکومت کو ’بے دانت کا شیر ‘ یا ’بے پیندے کا لوٹا ‘ بنا دیا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو اختیارات آج بھی ہمارے پاس ہیں ، ہم ان کا کیا حشر کر رہے ہیں ؟

موجودہ حالات میں ، جب کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تحریک زوروں پر ہے ، اگر ہم آزاد حکومت کی صرف ایک ذمہ داری کا جائزہ لیں تو صورت حال بالکل واضح ہو جاتی ہے ، وہ ہے مسئلہ کشمیر کی تشہیر ، جس کے اختیارات آج بھی آزاد کشمیر حکومت کے پاس ہیں ۔

مسئلہ کشمیر نے معاہدہ کراچی کے بعد کئی پہلو بدلے ، پر امن مطالبات کے بعد نوے کی دہائی کی مسلح تحریک کے بعد کچھ عرصہ کی خاموشی ، اور موجودہ انتفاضہ ، اگر آزاد حکومت صرف علاقائی سطح پر موثر تشہیر کرتی تو آج کل سوشل و الیکٹرانک میڈیاکی بدولت دنیا کو مجبورا توجہ دینی پڑتی ہے ، لیکن آزاد حکومت نے کبھی بھی اس ضمن میں کوئی سنجیدہ اور پر اثر کوشش کبھی نہیں کی ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج نے ایک نہتے کشمیری کو ’ہیومن شیلڈ‘ کے طور پر استعمال کیا تو سوشل میڈیا پر اس معاملے کو اتنی ہوا ملی کہ دو دن بعد ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے اس کا نوٹس لے لیا۔ تشہیر اور پر اثر تشہیر کے کئی اور طریقے ہیں ، لیکن حکومت رٹی رٹائی بیان بازی کے علاوہ کبھی کچھ سوچتی ہی نہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے