آزادکشمیراَسمبلی میں تحفظ ختم نبوت کا معرکہ

26؍اپریل کو آزادجموں وکشمیرکی قانون سازاَسمبلی نے 1973ء میں قادیانیوں کو غیرمسلم قراردینے والی قراردادِ ختم نبوت پر قانون سازی کے لیے پیش کیاجانے والا بِل اتفاقِ رائے سے منظورکرلیا۔جس کا ملک بھرمیں خیرمقدم کیاجارہاہے۔آزاد کشمیر اسمبلی میں پہلی بارقراردادِ ختم نبوت، سابق سپیکراسمبلی میجر محمد ایوب خانؒ نے 29؍ اپریل 1973ء کو پیش کی تھی۔انتہائی مخدوش حالات میں اُس قراردادکا پیش کیاجانایقیناًبڑا کارنامہ تھا،یہ قراردادنہ صرف اسمبلی میں پیش ہوئی،بلکہ ایوان نے اس کی متفقہ طورپر منظوری بھی دی۔آزادکشمیراَسمبلی کی پیروی میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے 07؍ستمبر1974کو قادیانیوں کے متعلق متفقہ دستوری فیصلہ کیا۔بعداَزاں صدراوروزیراعظم کے حلف ناموں اورشناختی کارڈ کے فارموں میں ختم نبوت پر حلف کا کالم شامل کیاگیا،مگراِس کے باوجودقادیانی اِسلامی شعائر کا بے دھڑک استعمال کرتے رہے،یہاں تک کہ 26؍اپریل 1984کو صدرمحمدضیاء الحق نے امتناع قادیانیت آرڈی نینس جاری کرکے قادیانیوں کی طرف سے اِسلامی شناخت کے استعمال کا رَاستہ روک دیا۔

اگر چہ آزادکشمیرکی قانون سازاَسمبلی نے 1973ء میں قادیانیوں کی غیرمسلم حیثیت کا تعین کردیاتھا،مگر قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں اورقادیانی نوازحکومتوں کے مفاداتی ہتھکنڈوں کی بدولت اسمبلی کا یہ فیصلہ آزادکشمیرکے آئین کا حصہ نہ بن سکا۔قادیانی اِس دستوری سقم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی شعائرکے استعمال اوراپنی اِرتدادی سرگرمیوں میں آزادی سے مصروف رہے،سابق صدر آزادکشمیر میجرسردار عبدالرحمن نے اکتوبر1985ء میں دفعہ 298C کا اضافہ کیا ۔جس کے تحت قادیانی اسلامی شعائرکے استعمال کے مجازنہیں ہیں،لیکن اَبھی تک قادیانی ہرقسم کی قانونی اورآئینی پابندیوں سے آزادہیں اوراپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیرکے امیرمولانا مفتی عبدالوحیدقاسمی اوراُن کے رفقاء نے وزیراعظم آزادکشمیرکو خط لکھ کر قادیانیوں کو آئین وقانون کے دائرے میں لانے کے لیے توجہ دلائی،شنوائی نہ ہوئی تو انہوں نے قادیانیوں کو نکیل نہ ڈالنے پر حکومت اور تمام محکموں کے خلاف آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کر دی ۔جس کی سماعتیں جاری ہیں۔دریں اثناء فروری2016 میں آزادکشمیر میں قادیانیوں کو مسلم ووٹر لسٹوں سے خارج کیے جانے اور آزادکشمیر کے آئین میں عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت اور حلف نامے کو شامل کرنے پر اسلامی نظریاتی کونسل ، محکمہ امور دینیہ نے بھی اتفاق کر لیااور اِسلامی نظریاتی کونسل آزادکشمیر کے اجلاس میں ممبر اِسلامی نظریاتی کونسل مولانا عتیق الرحمن دانش کے توجہ دلانے پراِس اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم آزادکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے قراردادِ ختم نبوت کو آئین کا حصہ بنانے کا اعلان کرکے اہل خطّہ کے دل جیت لیے۔

بالآخرمسلمانوں کی مساعی رنگ لائیں اور18؍اپریل کو آزادکشمیرکی اسمبلی کے حکومتی رُکن و سجادہ نشین دربار عالیہ بساہاں شریف پیر سیدعلی رضا بخاری نے’’ قراردادِختم نبوت پر قانون سازی کا بِل‘‘ اسمبلی میں سپیکر شاہ غلام قادر کو پیش کردیا۔جسے 26؍اپریل کو آزادکشمیرکی اسمبلی نے منظورکرلیا۔ منظور شدہ بِل کا متن مندرجہ ذیل ہے :’’ (الف) یہ معزز اِیوان مرزائیوں (قادیانیوں اور لاہوری گروپ ) جو رسول اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ختم نبوت کے حوالہ سے یقین نہیں رکھتے کو قطعی غیر مسلم قرار تو عبوری آئین تحت ایکٹ 1974ء میں دیا جا چکا ہے ، لیکن ایسے مسلمان جو ایسے کسی بھی فرقہ کے پیروکار بنے ، کو مرتد بھی قراردیا جانا احسن اقدام ہوگا اور اس حوالہ سے وہ جس تعزیری کارروائی کے متقاضی ہوں، بھی تحتِ ضابطہ و قانون ان کے خلاف مؤثر کارروائی بھی عمل میں لائی جائے ۔ (ب): یہ کہ خطہ آزاد جموں وکشمیر میں مقیم اور شہریت کے حامل مرزائیوں (قادیانی اور لاہوری گروپ) کے پیروکاروں کو بطور غیر مسلم رجسٹرڈ بھی کیا جائے اور باقاعدہ مطابق نیشنل رجسٹریشن ایکٹ 1973ء بعداز جدید ترامیم ریکارڈ بھی مرتب کیا جائے اور اُن کے شناختی کارڈ میں ان کے غیر مسلم ہونے کے بارہ میں باقاعدہ اندراج بھی کیا جائے ، تاکہ شناخت ہو پائیں اور کسی بھی قسم کی غلط بیانی پر مبنی انفارمیشن دینے پر اِسی کے تحت ایسے فرد یا افراد کے خلاف ضابطہ فوجداری کی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے ، یعنی غیر مسلم ہوتے ہوئے خود کو مسلم ظاہر کرنے اور درج کرنے پر تعزیری کارروائی تحت ضابطہ عمل میں لائی جائے ۔ (ج) مرزایت کی غیر اسلامی سرگرمیوں جو عقیدہ ختم نبوت کے خلاف ہوں، پر مکمل ممانعت عائد کی جائے ، انہیں اُن کی عبادت گاہ کو مسجد کہنے ، تحریر کرنے اور اَذان دینے سے بھی باز وممنوع کر دیا جائے اور مرزایت / قادیانیت کے مبلغین پر کڑی نگاہ رکھے جانے کے بارہ میں انتظامیہ کو پابند کیا جائے اور جہاں ضروری ہو، تحت ضابطہ اِن کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جائے، جس کے لئے متعلقہ تھانوں کو پابند کیا جانا ہوگا اور ہر تھانہ کو اِن کی نقل و حمل اور تبلیغ کے معاملہ پر کڑی نگاہ رکھنے کے بارے میں واضح احکامات جاری کئے جانے ہوں گے۔ تاکہ یہ درپردہ مسلمانوں کو دھوکے اور لالچ وغیرہ سے ورغلانے میں کامیاب نہ ہوپائیں۔امتناع قادیانیت ایکٹ کو اُس کی تمام تر تاوقتِ ترامیم اِس کی اصل رُوح کے ساتھ خطہ آزاد کشمیر میں مکمل نافذ و رائج کئے جانے کو یقینی بنایا جائے ۔ علاوہ ازیں اِس ضمن میں مزید بھی جو قوانین پابندی عائد کرتے ہوں، کا اطلاق از خود عمل میں لائے جانے کے بارہ میں مستقل ہدایات کا جاری کیا جانا بھی لازمی قرار دیا جائے ۔ البتہ اِن کے حق میں کوئی بھی رعایت از خود رائج نہ ہوگی جب تک کہ آزاد جموں وکشمیر اسمبلی اسے بذریعہ منظوری تحت ضابطہ Endorseنہ کرے ۔‘‘

بِل کووزیراعظم آزادکشمیر،سپیکر،سینئر وزیر اور کابینہ کے جملہ اراکین سمیت ممبران اسمبلی نے ہاتھ اٹھا کرمنظورکیااور خاتم النبیین جنابِ محمدِ کریمﷺ سے والہانہ محبت وعقیدت اور ختم نبوت سے ایمانی وابستگی کا والہانہ ظہار کیا۔یوںآزادکشمیر قانون ساز اَسمبلی میں 44سال بعد ختم نبوت پر قانون سازی کے لیے بل منظوری کے مراحل سے گزرا۔وزیراعظم فاروق حیدرخان نے اعلان کیاکہ ہم جلد ہی قانون سازی کر کے قادیانیوں کو غیر مسلم قراردِلانے کے لیے قانون سازی کریں گے ۔آزادکشمیرکے وزیراعظم،اراکین اسمبلی اورتحریک ختم نبوت کے تمام مسالک کے رہنمامبارک بادکے مستحق ہیں کہ اُن کی مساعی ثمربارآورہوئیں۔امیدہے کہ اب ان شاء اللہ تمام ضروری قانون سازی کرکے تحفظ ختم نبوت کے مقدس مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچنے میں دیرنہیں لگے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے