صحافی ہردلعزیزاور باعظمت کب بنتا ہے؟

دنیا میں ہر انسان کا ذوق مختلف ہوتا ہے، کچهہ لوگ دنیا کے معروف کهلاڑی بننے کا شوق رکهتے ہیں، بعض افراد میدان خطابت اور فن تقریر میں دلچسی رکهتے ہیں ،کچهہ لوگ سیاست میں صاحب نظر بننے کی تمنا اور آرزو رکهتے ہیں اور بعض مذہبی اسکالر بننے کا شوق رکهتے ہیں، تعلیم یافتہ طبقوں میں کچهہ میدان صحافت میں قلمی قوت سے افراد معاشرہ کی فکری تربیت کرنے کا ذوق رکهتے ہیں اور ہراہل قلم کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ لوگ اس کی تحریریں پڑهیں، اس سے محبت کریں اور وہ ہر دلعزیز وباعظمت صحافی بن کر ابھرے، بلاشبہ یہ تمنا ہر لکهنے والوں کے دل میں موجود ہوتی ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ صرف اس آرزو کو دل میں پال رکهنے سے نہ کوئی ہر دلعزیز صحافی بنا ہے اور نہ بنیں گے، بلکہ باعظمت وہردلعزیز صحافی بننے کے لئےکچهہ اسباب وعلل، معیارات اور شرائط ہیں جنہیں اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے ،ان شرائط کا تذکرہ بعد میں ہوگا –

بدون تردید اچهے لکهاری بننے کی کوشش کرنا، تحریر کے ذریعے لوگوں کی فکری آبیاری کرنے کی سوچ رکهنا ،انسان کے کمالات میں شمار ہوتا ہے – قلم کی بڑی عظمت ہے- اہل قلم کا بڑا مقام ہے – قلم کی اہمیت کے بارے میں اتنا بیان کافی ہے کہ خدا نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر باعظمت چیزوں کی قسم کهائی ہے جن میں سے ایک قلم ہے- پوری دنیا کی ترقی اور پیشرفت کا راز علم ہے جسے انسان کو سکهایا گیا ہے قلم کے ذریعے- قلم کی طاقت بلا مبالغہ ایٹم بم اور مہلک ہتهیار سے زیادہ ہے – معاشرہ انسانی کے بنانے اور بگاڑنے میں قلم کا کردار کسی پر پوشیدہ نہیں- اگر لکهنے والا تعلیم یافتہ ہونے کے ساتهہ تربیت یافتہ بهی ہو تو وہ اپنی قلمی قوت اور طاقت کے ذریعے لوگوں کے افکار اور خیالات کو درست سمت میں لے جائے گا اور اگر خدا نخواستہ لکهاری تعلیم یافتہ تو ہو مگر تربیت سے تہی ہو تو وہ خرافات اور انحرافی باتیں لکهہ کر معاشرہ انسانی کو فساد اور خرابی کے دلدل کی گہرائی میں پہنچا دے گا –

صحافت پڑهے لکهے افراد کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کا اہم ذریعہ کا نام ہے- یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا میں وہی قومیں ترقی وپیشرفت کی چوٹی پر قدم جماسکتی ہیں جو اپنے زمانے کے حالات سے آگاہ ہوتی ہیں- امام صادق ع پوری صراحت سے اپنی ایک حدیث میں فرماتے ہیں : "العالم بزمانہ لا تہجم علیہ اللوابس "جو شخص اپنے زمانے کے حالات سے واقف ہوجائے وہ ناگہانی یلغار سے بچ جاتا ہے – قلم کی عظمت اور صحافی کے بلند مقام ومرتبے کے پیش نظر بھارت کے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ میں اگر سیاست دان نہ ہوتا تو ایک صحافی ہوتا۔ جب وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ جب میں ایک شہر کے ہوائی اڈے سے اُڑ کر کسی دوسرے شہر کے ہوائی اڈے پر اترتا ہوں تو وہاں جو صحافی میرے دورے کی کوریج کے لئے آئے ہوتے ہیں وہ مجھ سے ایسے موضوعات اور واقعات کے متعلق سوالات کرتے ہیں جن کے متعلق تازہ ترین صورت حال اور معلومات میرے علم میں بھی نہیں ہوتیں۔ وہ مجھ سے معلومات کے میدان میں ہمیشہ آگے ہوتے ہیں۔ لہٰذا مجھے ان پر رشک آتا ہے-

ہمارے اہل قلم دانشوروں کو اس نکتے سے غافل نہیں رہنا چاہئے کہ جتنا آپ کا مقام بلند ہے آپ کی ذمہ داری بهی بہت سنگین ہے- یہ خدا کی سنت رہی ہے کہ جس کا جتنا مرتبہ بڑا ہے اس کے دوش پر وظیفہ بهی اتنا ہی بڑا رکها گیا ہے، مثلا اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کی ہدایت لئے جن ہستیوں کو نبی اور رسول بنا کر بهیجا گیا ان کی عظمت منزلت اور مقام سب سے بلند رکها گیا ہے اور سب سے بڑی ذمہ داری بهی انہی ہستیوں کے کندهے پر ڈال دی گئی ہے، یہی سنت عام انسانوں سے متعلق بهی جاری وساری ہے کہ معاشرتی اور فردی زندگی میں منزلت اور مقام جس کا جتنا زیادہ ہوگا ذمہ داری بهی اس کی سب سے ذیادہ ہے-

صحافی اور اہل قلم کی فعالیت اورکوششوں کا اثر براہ راست پڑهے لکهے طبقوں کے افکار اور خیالات سے مربوط ہوتا ہے، اس کی تحریر تحلیل وتجزئیے کا نتیجہ تخریبی اور تعمیری دونوں ہوسکتا ہے- یاد رہے کہ باعظمت صحافی بننے کے لئے تنہا لکهنا، خوبصورت الفاظ کا انبار لگانا اور حسین وجمیل جملوں کا انتخاب کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ اس کی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے – اب سوال یہ ہے کہ وہ شرطیں کونسی ہیں؟ جن کو پورا کرنے سے اہل قلم کی شان اور منزلت بڑهہ جاتی ہے اور تعلیم یافتہ لوگوں کے افکار پر اہل قلم کی کوششوں کا مثبت اثر پڑهہ جاتا ہے اور لکهنے والا باعظمت وہردلعزیز صحافی بن جاتا ہے

جواب یہ ہے کہ باعظمت صحافی وقلمکار بننے کے لئے بہت ساری شرائط ہیں، جنہیں صحافی کو اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے، اہم شرائط بالترتیب یہ ہیں

1- سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ قلمکار میدان صحافت کی اہمیت و قلم کی حرمت اور صحافی کی ذمہ داریوں کی کما حقہ شناخت حاصل کرے –

2- دوسری شرط یہ ہے کہ صحافی کی نیت خالص ہونا ضروری ہے اس کی نیت ریا اور شہرت طلبی سے مبرا ہو-

3- قلمکار کے لئے وسعت فکری وقلبی کا مالک ہونا چاہیے تعصب قومی ،لسانی، سیاسی اورمذہبی سے بالاتر ہوکر لکهنا نہایت ضروری ہے-

4- باعظمت صحافی بننے کے لئے عمیق مطالعہ کرنا ضروری ہے اور جس موضوع پر وہ لکهتا ہے اس کی تحریر دلیل اور منطق سے مالا مال ہو –

5- اسے صداقت اور امانت کا پیکر ہونا چاہیے اور ہمیشہ حق اور حقائق لکهنے سے کهبی بهی گریز نہ کرے, اسی میں عاقبت بخیری ہے باعظمت صحافی کی
واضح علامت یہ ہے کہ وہ حقائق کو سلیس وروان الفاظ میں لوگوں کو بیان کرے

6- قلمکار کو چاہئے کہ اپنی تحریر کے ذریعہ قوم کو ترقی کی شاہراہ پر حرکت دے اور قارئین کو منفی افکار اور غلط فہمیوں میں مبتلا کرنے کے بجائے انہیں درست فکری غذا فراہم کرنے کی کوشش کرے –

7- باعظمت صحافی وہ ہے جو اپنی قلمی قوت کے بل بوتے پر تعلیم یافتہ طبقوں کو خود اعتمادی ، خود مختاری اور نفسیاتی استقلال پر مبنی تربیت کرنے کی سعی کرتا ہے –

8- باعظمت قلمکار وہ ہے کہ جس کی تحریروں کا پورا ہدف انسانیت کی خدمت کرنا ہوتا ہے رنگ مذہب مکتب اور علاقائی تفریق کو وہ اہمیت نہیں دیتا ہے

9- باعظمت صحافی کی نشانی یہ ہے کہ وہ کسی بهی موضوع پر قلم فرسائی کے دوران عدل اور انصاف کو پائمال نہیں کرتا اسے اس بات کا خیال رہتا ہے کہ میری یہ قلمی قوت خدا کی عطا ہے یہ میرے پاس امانت ہے اس امانت الہی کا تقاضا یہ ہے کہ مجهے ہرگز جهوٹ خیانت پر مبنی تحریر اور عدل وانصاف کے خلاف ہرگز نہیں لکهنا چاہیے چونکہ کل کلاں روز جزا وسزا مجهہ سے میری لکهائی کے ہر حرف حرف کے بارے میں پوچها جائے گا –

10- باضمیر وباعظمت صحافی کهبی بهی مالی مفادات، مراعات اور لالچ میں آکر سیاست دانوں اور حکمرانوں کی قصیدہ گوئی اور خوشامدی پر مبنی تحریرلکهہ کر اپنا اور قارئین کا قیمتی وقت ہرگز ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ بے خوف ہمیشہ سچائی حق اور حقیقت لکهتا ہے خواہ پوری دنیا اس کی مخالفت ہی کیوں نہ کرے ۔

11- باعظمت صحافی اپنی تحریر کے ذریعے اپنے موقف اور خیالات کو اچهے پیرائیے میں دوسروں تک پہنچاتا ہے یہ ٹھیک ہے کہ ہر کسی کی نظریاتی یا فکری وابستگی کسی نہ کسی جماعت یا نظریہ سے ہوسکتی ہے مگر باعظمت صحافی کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کی تحریر سے کسی کی دل آزاری نہ ہو شرف انسانیت کا احترام رکهنا ہر صورت میں وہ اپنا فرض سمجهتا ہے –

یقین جانیے جو بهی صحافی مذکورہ خوبیوں کا حامل ہوگا وہ باعظمت اور ہر دلعزیز صحافی بن جاتا ہے آپ بے شک آزماکر دیکهیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے