گاڈ فادر کے دفاع میں

یہ کوئی پچیس چھبیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔کالج کا سٹوڈنٹ تھا، گرما کی چھٹیوں میں کراچی گیا اور وہاں صدر بازار کی ایک دکان میں ’’گاڈ فادر‘‘ سے پہلی بار سامنا ہوا۔ کتابیں پڑھنے کا چسکہ بہت پہلے لگ چکا تھا۔ جیب خرچ بچا کر کتابوں کے لئے فنڈ جمع کرتا اور پھر پرانی کتابوں کی دکانوں سے خریداری کی جاتی۔پرانی کتابیں یا رسالے لینا بھی ایک باقاعدہ قسم کا فن ہے۔ ہم جیسوں کو اپنی کتاب شناسی کا زعم اور کتب فروش ہم جیسے جانے کتنے گاہک بھگتا چکے ہوتے۔انہیں ہلکا سا شک ہوجاتا کہ فلاں کتاب گاہک کو پسند آگئی ہے، اس نے لازمی خریدنی ہے، عین اسی لمحے اس کی قیمت دوگنی ہوجاتی۔ایک تجربہ کار دوست نے گر سکھا دیا تھا۔ جو کتاب پسند ہوتی، اس کی جانب نظر اٹھا کر نہ دیکھتے ، غیر متعلق کتابوں کو اٹھا کر قیمت پوچھتے اور پھر ناگواری سے منہ بنا کر شان بے نیازی سے وہ ایک سائیڈ پر پھینک دیتے۔ مناسب وقت گزار دینے کے بعد مطلوبہ کتاب اٹھائی جاتی اور اس پر ایک آدھ ناخوشگوار تبصرہ جڑ دیا جاتا، گویا خریدنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔ پھر بادل نخواستہ اسے خریدا جاتا ، یہ کہہ کر کہ تمہارے پاس کوئی کام کی چیز ہی نہیں، چلویہی بیکار کتاب ہی سہی۔ مناسب داموں کتاب مل جاتی۔

ناول گاڈ فادر کا پیپر بیک ایڈیشن صدر کی ایک دکان سے ملا تھا۔ گاڈ فادر ناول اور اس پر بننے والی فلم کا شہرہ سن رکھا تھا۔یہ فلمیں تو خیر برسوں بعد دیکھنے کا موقعہ ملا، مگر گاڈ فادر ناول انہی دنوں چاٹ ڈالا۔اس کے مصنف ماریا پزو کے قلم نے مسحور کر دیا۔ یہ میری زندگی کے اولین انگریزی ناولوں میں سے ایک تھا ، اس لئے اسے پڑھنے میں خاص قسم کا لطف آیا۔ اس کا اپنا ایک خاص ذائقہ، سحر اورلطف تھا ، جسے پڑھنے والا ہی بیان کر سکتا ہے۔ ’’گاڈ فادر‘‘ میرا آل ٹائم فیورٹ ناول رہا ،اسے مختلف وقفوں سے دو تین بار پڑھا۔ گاڈ فادر کے اردو تراجم بھی ہوئے۔ ایک تو برادر عزیز رؤف کلاسرا نے یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے فوراً بعد کیا۔ وہ ترجمہ اسلام آبادسے کچھ عرصہ قبل دوبارہ شائع ہوا ، اتفاق سے اسے ابھی تک دیکھ نہیں سکا۔ ایک اور اردو ترجمہ کچھ عرصہ پہلے نیٹ پر دستاب ہوا تو کچھ وقت نکال کر پڑھ ڈالا۔ڈائجسٹوں کے معروف لکھاری محمود احمد مودی نے اس کا بڑا رواں ترجمہ کیا۔ ظلم یہ ہوا کہ کتاب کی ضخامت کم کرنے کے لئے ناول کے متعدد ٹکڑوں کو نکال دیا گیا۔ ظاہر ہے ناشر کے کہنے پر ایسا ہوا ہوگا۔ خاص طور پر جہاں جہاں مصنف نے مرکزی کردار ڈان کارلیون کے فلسفہ زندگی اور مختلف کرداروں کا پس منظر تفصیل سے بیان کیا ۔ بڑی مایوسی ہوئی۔

گاڈ فادر آج کل دوبارہ سے’’ ان‘‘ ہوگیا ہے۔ بالزاک اور ماریا پزو جیسے مصنفین کی طرف لوگوں کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہوئی ، مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کسی بڑے ناول یا ادبی شاہکار کا تذکرہ جب سماج میں ہونے لگے تو لوگ اسے پڑھنا چاہتے ہیں اور یہ ایک طرح سے خوشگوار امر ہے۔’’گاڈ فادر‘‘ ناول میں ماریا پزو نے بالزاک کا یہ مشہور فقرہ نقل کیا تھا کہ ہر بڑے سرمایہ کے پیچھے جرم چھپا ہوتا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے اس فقرے سے اپنے اختلافی نوٹ کا آغاز کیا تو حکمران جماعت کے بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرا۔ اس جملے کی مثال دے کر کئی دوست چیں بہ چیں ہوئے کہ کیا ہر بڑا سرمایہ دار چور یا مجرم ہے اور اس طرح تو بل گیٹس ، وارن بفٹ وغیرہ جیسے دنیا کے امیر ترین لوگ بھی کرمنل ہیں، وغیرہ وغیرہ۔بات بڑی سادہ اور صاف ہے،اگر کسی کی نیت ہو تو اسے سمجھنا مشکل نہیں۔ بعض فقرے جنرلائز کر کے بولے جاتے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں ہر ایک پر منطبق کیا جائے گا۔ اکثریت کی بات کی جارہی ہوتی یا پھر عمومی تاثر بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے عام طور سے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں، ’’آج کل کے نوجوان بڑوں کا احترام نہیں کرتے۔‘‘ ظاہر ہے اس فقرے کا کوئی یہ مطلب نکال لے کہ دنیا کا ہر نوجوان بے ادب ہے تو یہ اس کے فہم اور سمجھ کا قصور ہے۔

عمومی تاثر بیان کرنا مقصود تھا جو بڑی حد تک سچ ہے۔ ’’ہر سرمایہ کے پیچھے جرم پوشید ہ ہوتا ہے‘‘ ، یہ فقرہ بھی عمومی تاثر کو بیان کرتا ہے ۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ بیشتر بڑے بڑے سرمایہ دار، بزنس ٹائیکونز کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی بہت سی قابل جرم حرکتیں ملیں گی ۔خود مغرب میں کیپیٹل ازم پر تنقید کرنے والے دانشورکہتے ہیں کہ یہ جو نام نہاد سیلف میڈ ارب پتی ہیں، ان کی اس بے پناہ دولت کی بنیاد بہت سے ایسے کاموں پر ہے جن کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں۔ مشہور فقرہ ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کے کاندھوں پر سوار ہو کر آگے جاتے ہیں اور بعض گردنوں پر سوار ہو کر یعنی دوسروں کو راہ سے ہٹا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کٹ تھروٹ کمپیٹیشن یعنی گردن کاٹ دینے والے مقابلہ کی مثالیں کیوں دی جاتی ہیں؟

اس سب کا ایک اور پہلو بھی ہے۔پانامہ کیس جس طر ح عدالت نے ٹیک اپ کیا ،اس کا بھی جواز اور دلیل فراہم کرنا ضروری تھا ۔بالزاک کے اس جملے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ بیشتر سرمایہ دار یا غیر معمولی اثاثوں والے لوگوں کی دولت کے ساتھ وہ جرم مکس ہیں جو بروقت قانون کے سامنے نہیں آ ئے ، اس لئے یہ لوگ اتنے بڑے اور طاقتور ہوگئے۔ زیادہ تر کیسز میں ماضی کے جرائم ہی اصل مسئلہ ہیں ، بعد میں جب سب ٹھیک ہوجائے، طاقت کے ساتھ بنیادی سرمایہ آ جائے تب کسی بڑی غلطی یا جرم کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ پانامہ والا کیس بھی تیس سال پرانا ایشو ہے، آج کے طاقتور ترین شریف خاندان پر الزام نہیں بلکہ تیس پینتیس سال پرانے جرم کا الزام ہے، جسے بروقت پکڑا نہیں جا سکا۔ یہ پرانے جرم کا خوف کوئی معمولی بات نہیں، بہت سے لوگوں کو اس سے عبرت ملتی ہے اور وہ ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔اس اعتبار سے یہ ایک غیر معمولی ادبی جملہ ہے، جس کا سپریم کورٹ کے فیصلے سے باقاعدہ قسم کا تعلق بنتا ہے۔

گاڈ فادر کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا، مجھے افسوس ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ لکھنے والوں نے بنیادی نوعیت کی غلطیاں کیں۔ انہوں نے دراصل یہ ناول پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ کسی نے گاڈ فادر فلم دیکھ کر کام چلا لیا تو باقیوں نے لگتا ہے اس کی سمری نیٹ سے نکال کر پڑھ لی۔ہمارے ایک سینئر نے لکھا کہ گاڈ فادر کے چار بیٹے تھے۔ یہ بات غلط ہے، تین بیٹے تھے اور تینوں کے کردار اتنے نمایاں اور جاندار ہیں کہ انہیں پڑھنے والا بھول ہی نہیں سکتا۔ ایک سینئر اینکر ، کالم نگار نے لکھا کہ گاڈ فادر اس قدر ظالم تھا کہ اس نے اپنا داماد بھی قتل کرا ڈالا۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ جب تک گاڈ فادر زندہ تھا، اس کے داماد کو کسی نے انگلی تک نہیں لگائی۔ ایک محترم نے لکھا کہ گاڈ فادر اپنے دشمنوں کو معاف نہیں کرتا تھا، ایک جانی دشمن جب بیدار ہوا تو اس کے بستر پر اس کے قیمتی گھوڑے کا سر تھا۔ گھوڑے کے سر والی بات تو ٹھیک ہے، فلم میں یہ سین لرزا دینے والا ہے، مگر وجہ بالکل غلط بیان کی گئی۔ گاڈ فادر کی اس کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی۔ اسی طرح اور بھی کئی غلطیاں تھیں،وجہ صرف یہی کہ کسی نے ناول پڑھنے پر چند گھنٹے صرف نہیں کئے۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسا کرنے والے بے انتہا لطف اٹھاتے۔

گاڈ فادر کی اصطلاح بھی غلط بیان کی گئی۔ گاڈ فادر اطالوی عیسائی روایت کا حصہ ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد خاندان کا کوئی بڑا یا بسا اوقات والد کا کوئی دوست بھی خود کا بچے کا گاڈ فادریعنی اس کا سرپرست ڈیکلئیر کرتا ہے، پھر بچے کے بپتسمہ کی رسم میں وہ گاڈ فادر بھی شریک ہوتا ہے۔ اطالوی ضرب المثل ہے کہ زندگی اتنی مشکل ہے کہ اسے بسر کرنے کے لئے صرف ایک باپ یعنی فادر کافی نہیں، ایک گاڈ فادر کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ ناول گاڈ فادر کا مرکزی کردار ویٹو کارلیون جسے دنیا ڈان کارلیون کے نام سے جانتی تھی، وہ بھی بہت سی فیملیز کا گاڈ فادر تھا۔اس کی شخصیت کچھ ایسی تھی کہ مختلف اطالوی خاندان اس رشتے کے ذریعے اس کے ساتھ جڑنا پسند کرتے۔

ڈان کارلیون کوئی وحشی ظالم یاقاتل نہیں بلکہ نہایت ٹھنڈے دل ودماغ کا مالک ایک ہوشیار اور سمجھدار شخص تھا ،جس کی عملی دانش حیران کن تھی۔ وہ حتی الامکان قتل وغارت سے گریز کرتا اور اس کا ٹریڈ مارک ہی یہ بن گیا تھا کہ ڈان دلیل سے بات کرتا اور دوسرے کو قائل کر لیتا ہے۔ڈان کا فلسفہ تھا ہر ایک سے بنا کر رکھو، دوستوں کا ایک ایسا حلقہ بنایا جائے جو کسی مشکل میں آپ کے کام آئے۔ وہ دوسروں کے کام آتا، ان کی مدد کرتا اور کہتا کہ آپ لوگ میرے مقروض ہیں، جب وقت آئے تب قرض چکا دیں۔ یوں ڈان کارلیون دوستوں کے نیٹ ورک کے ذریعے اپنی طاقت بڑھاتا تھا۔ ڈان کارلیون نے کبھی کسی کو صریح الفاظ میں دھمکی نہیں دی تھی، وہ کبھی غصے میں بے قابو نہیں ہوا تھا،ڈان کے حوالے سے کوئی اس کا کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

گاڈ فادر کے بہت سے فقرے اس قابل ہیں کہ انہیں کوٹ کیا جائے۔کالم طویل ہوگیا ہے،دو چار جملوں کا حوالہ ہی دے سکتا ہوں۔ ’’وہ لوگ حادثے کا شکار نہیں ہوتے جو حادثہ کو اپنی ذاتی توہین تصور کریں‘‘،’’کبھی کسی کو یہ اندازہ نہ لگانے دو کہ تم کیا سوچ رہے ہو‘‘،’’بڑے آدمی پیدائشی طور پر بڑے نہیں ہوتے، وہ بتدریج بڑے بنتے ہیں‘‘’’اپنے دشمنوں سے کبھی نفرت نہ کرو، اس سے آپ کی قوت فیصلہ متاثرہوگی ‘‘،’’عورتیں اور بچے غیر ذمہ داربنناافورڈ کر سکتے ہیں، مرد نہیں‘‘،’’ ایماندار ہونا بہرحال ایک خطرناک کام ہے،ایسے شخص کو محتاط رہنا چاہیے،‘‘’’جب دشمن حملہ کریں گے ، وہ آپ کی سب سے محبوب چیز کو ہدف بنائیں گے‘‘۔ سب سے آخر میں ڈان کا ایک اور معنی خیز جملہ ’’انتقام ایک ایسی ڈش ہے جسے ٹھنڈا کر کے پیش کیا جائے تو یہ زیادہ لذیذ ہوتی ہے۔یعنی انتقام لینے میں دیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں، اس کا اپنا لطف ہے۔‘‘

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے