جھاڑیوں میں پھینکی گئی بیٹی کا دُکھ

یہ دنیا فانی جسے ہر شخص نے اپنے اپنے نظریے اور طرز ز ندگی کے مطا بق مختلف ناموں سے منسوب کیا ہے ۔مجھے بھی اس دنیا میں آنے کا بہت شوق تھا۔اور جب میں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی تو بہت خوش تھی۔کیونکہ میں اپنی ہزاروں خواہشات اور اُمیدوں کی تکمیل کے لیے اپنا پہلا قدم رکھ چکی تھی۔یہ سوچ کے آئی تھی کہ مجھے خوش آمدید کہنے کے لیے لوگ منتظر ہوں گے۔میرا والہانہ استقبال کریں گے ۔جبکہ ہر شادی شدہ جوڑے کی اولین خواہش اولاد ہوتی ہے۔ اس لیے میرے والدین بھی میری پیدائش پہ اتنا خوش ہوں گے جیسے انہیں ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو۔ جشن منائیں گے اور شادیانے بجیں گے۔

لیکن یہ سب محض میرا خیال رہا ۔جو حقیقت میں ہوا وہ میرے وہم گماں میں بھی نہیں تھا۔رشتہ دار تو دور کی بات ہے ۔میرے والدین بھی اس پیدائش سے خوش ہونے کی بجائے افسردہ ہوگئے۔ ان کے چہروں پہ رنج و غم ، پریشانی و غصہ اور اضطراب جیسی کیفات دیکھ کر میں سوچنے لگی کہ اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ تو جواب ملا پریشان نہ ہو ۔ ہو سکتا ہے میرے والدین کا تعلق غریب طبقے سے ہو۔جہنیں ہسپتال کا بل ادا کرنے میں دقت پیش آرہی ہے ۔جس کی وجہ سے وہ اپنی محبت کا اظہار کرنا بھی بھول گئے ہیں ۔

اسی سوچ و بچار میں ہم ہسپتال سے گھر کے لیے روانہ ہوئے ۔ پہلے کی طرح دل میں پھر محبت بھری ہزاروں خواہشات اور اُمیدیں جنم لینے لگی۔اپنا گھر دیکھنے اور رشتہ داروں سے ملنے کے لیے میں بے چینی سے انتظار کرنے لگی ۔ تھوڑی دیر کی مسافت طے کرنے کے بعد میرے والدین رک گئے مجھے لگا کہ شاید گھر آگیا ہو۔لیکن گھر نہیں آیا ۔چند لمحوں بعد میں نے اپنے وجود کو ایک خاردار جھاڑیوں والے جنگل میں پایا۔

ایک درخت کے نیچے گھاس پہ پڑی یہ ننھی آنکھیں آنکھیں جھپک جھپک کر اردگرد سے اپنے امی ابو کو تلاش کر رہی تھی ۔میرا موم جیسا بدن گھاس کی سخت خراش کی وجہ سے سرخ ہورہا تھا۔بلک بلک کہ میں اپنی اس ماں کو پکار رہی تھی ۔جس نے نو مہینے مجھے پیٹ میں اٹھا ئے رکھنے کے بعد یہاں پھینک دیا۔اس اثنا میں مجھے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔کسی کو اپنی جانب میں نے بڑھتا ہوامحسوس کیا ۔

مجھے خیال آیا ہو سکتا ہے امی سے میر ی جدائی برداشت نہ ہوسکی ہو۔اور وہ اپنی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کہ مجھے لینے کے لیے آرہی ہوں ۔اور آتے ساتھ ہی مجھے اپنے سینے سے لگا کر بوسہ دے گی ۔اور اپنے اس سلوک کی وجہ سے نادم ہوں گی۔اور مجھ سے معافی مانگے گی۔مگر اندازہ اس بار بھی غلط ثابت ہوا ۔ وہ قدموں کی چاپ میری ماں کی نہیں تھی ۔ بلکہ خون خوار کتوں کی تھیں ۔جہنوں نے پہنچتے ساتھ ہی بھونکنا شروع کر دیا۔اس ڈروانی آواز کی وجہ سے میں خوفزدہ ہو گئی۔

لیکن یہ مرحلہ صرف خوفزدہ ہونے کا نہیں بلکہ دردناک اذیت کا تھا۔ کتو ں نے میرا جسم دبوچنا شروع کر دیا۔ میرے نرم و ملائم بدن سے خون کی پھواریں بہنے لگی ۔ میں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا کہ شاید میرے والدین کہیں پاس ہی ہوں اور میری چیخ و پکار سن کر آجائیں ۔ لیکن وہ اس دفعہ بھی نہیں آئے۔کچھ دیر بعد بچے کے رونے کی آواز اور کتوں کی بھونک سن کر وہاں ایک صاحب آگئے ۔انہوں نے کتوں کو بھگایا۔ میرے جسم سے گرد اور کتوں کے پنجوں کے نشان صاف کرتے ہوئے ۔مجھے اپنی گود میں لیا۔

معصوم جان کہ ساتھ یہ ظلم دیکھ وہ پریشانی کے عالم میں مجھے ہسپتال لے کر پہنچے ۔ڈاکٹرز کو فورا معائنہ کرنے کے لیے بولا۔ اور ڈاکٹروں نے اس ننھے وجود کو پٹیوں میں باندھ کر انجکشن لگانے شروع کر دیے۔پہلے گھاس کے سخت تنکے ، پھر خون خوار دانت اور انجکشن کی سو ئیاں میرے موم جیسے بدن میں چبھنے لگی ۔ڈاکٹرز خون اور آئرن کی کمی کا نام لیتے ہوئے کہہ رہے تھے ، کہ حالت تشویشاناک ہے۔ننھی جان میں زندگی کی رمق مشکل ہے ۔اور میں ان فرشتہ صفت صاحب کا شکریہ ادا کرنے میں مصروف تھی۔کہ وہ جنگلی کتوں سے بچا کر یہاں لائے ہے۔کم از کم مرنے کے بعد اب مجھے کوئی سپرد خاک تو کردے گا۔میرا نازک بدن جنگلی درندوں کی خوارک تو نہیں بنے گا ۔

دل میں ایک دفعہ پھر ماں کی محبت نے انگڑائی لی ۔ ہو سکتا ہے میری ماں مجھے ہسپتال دیکھنے آجائے ۔پوری رات ہسپتال کے بیڈ پہ پڑے میں اپنے والدین کی راہ تکتی رہی ۔لیکن وہ ہسپتال بھی نہیں آئے ۔ اگلے دن کی سحر نمودار ہونے لگی۔آسمان پہ سورج اپنی کرنیں بکھیرنے کے لیے طلوع ہو رہا تھا ۔ زمیں پہ ایک ستارہ اپنی روشن کرنوں سے زمیں کو منور کیے بغیر غروب ہو رہا تھا ۔جو والدین مجھے اس دنیا میں لانے کا سبب بنے وہی اس کرہ ارض کی صفحہ ہستی سے میرا نام و نشاں مٹانے کا موجب بنے۔

یہ میری زندگی کا دوسرا اور آخری دن تھا۔میں نہ صرف ہسپتال سے بلکہ دنیا فانی سے واپس اپنے خالق حقیق کے پاس چلی گئی ۔اس دنیا میں میرا کوئی منتظر نہیں تھا ۔لیکن وہاں میرا رب میرا منتظر تھا۔دنیا میں میرا بہت قلیل وقت گزرا جس کی وجہ سے میں زندگی کو تو کوئی نام نہیں دے سکتی۔لیکن مجھے اپنے والدین سے بہت سے سوال پوچھنے ہیں۔ کیوں کیا میرے ساتھ ایسا سلوک ؟ اس سلوک کی وجہ کیا ہے؟ میرا کیا قصور ہے؟ کسی نا کردہ گناہ کی سزا مجھے کیوں دی ؟

اگر اس سلوک کی وجہ یہ ہے کہ میں ناجائز تھی ۔ تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔گناہ والدین کا ہے میرا نہیں ۔اگر میرے وجود سے ان کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تو گناہ کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ اس سارے عمل میں میرا کوئی قصور نہیں ۔ تو سزا مجھے کیوں ملی۔؟

اور اگر اس سلوک کی وجہ یہ ہے کہ میں بیٹی تھی ۔ تو اس میں بھی میرا کوئی قصور نہیں ۔ یہ میرے خالق کا فیصلہ تھا ۔ ہو سکتا ہے میرے والدین کو بیٹا چاہیے ہو ۔ اور وہ مجھے بیٹے سے کمتر سمجھتے ہوں ۔ بیٹی ہونا میری خواہش نہیں تھی میرے رب کی خواہش تھی ۔ویسے بھی بیٹیاں تو شیشم کے شجر کی مانند ہوتی ہے ۔ پانی نہ بھی ملے ۔ تو دھرتی کی کوکھ میں سے نمی چوس کر قد نکالتی جاتی ہے بیٹے تو دھان کا کھیت ہوتے ہیں ۔جن کی مکمل آبیاری نہ کی جائے ۔تو وہ مرجھا جاتے ہے ۔ان میں دانہ بھی نہیں پڑتا۔لیکن پھر بھی قصوروار ہمیشہ بیٹی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ آخر بیٹی ہونے میں اسکا قصور کیا ہے؟

میں نے سنا تھا کہ دنیا اب بہت ترقی کر چکی ہے۔اور تاریخ بدل گئی ہے ۔لیکن اب میرا اپنا ذاتی تجربہ اس دور جدید کے متعلق یہ کہتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے اور اکیسویں صدی کی ترقی کی منزل میں فرق بس اتنا ہے کہ تب زمانہ تھا پتھر کا اب لوگ ہے پتھر کے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے