میں نے ایک مزدور دیکھا

دوستو!میں نے ایک عجیب مزدور دیکھا ہے۔ چند دن قبل کڑکتی دھوپ میں آفس کے لیے نکلا۔لگ بھگ 15 کلو میٹر کے سفر کے بعد آفس سے ذرا پہلے جوتے پالش کروانے کے لیے رُکا۔ جوتے دینے کے بعد ایک گنڈیری پیچنے والے کی ریڑھی پر تنے کپڑے کے سایے میں کھڑا ہوگیا ۔ جوتے تیار ہونے کے انتظار میں ۔

بائیں جانب ایک دُکان ہے ، جس میں دُودھ ، لَسی ، فالودہ اور قُلفی دستیاب ہے ،اس دکان کے سامنے ایک زینہ ہے جس کی کچھ ٹائلیں اکھڑی ہوئی ہیں ، زینے پر گہری سانولی رنگت والی ایک ادھیڑ عمر عورت بیٹھی ہے ۔ اس کی گود میں نَنھا مُنا سا بچہ ہے اور دائیں جانب ایک ڈھولک رکھی ہوئی ہے ۔

یہ مزدور ہے ۔ حالات کی تَلخی اسے گلی گلی پِھراتی ہے ۔ یہ ڈھولک بجا کر لوگوں کی تفریح کا سامان کرتی ہے ۔ ہمارے کرنسی نوٹوں پر ایک ہدایت درج ہوتی ہے:”حامل ہٰذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا”، ممکن ہے سامنے والے کے مطالبے میں گانا سننا بھی ہوتا ہو اور اس عورت نے اردو اور پنجابی کے کچھ گیت یا بول زبانی یاد کر رکھے ہوں۔ مزدور مزدور ہے اور مطالبہ مطالبہ ہے ۔ اورہاں مطالبے کہاں محدود ہوتے ہیں؟

اس عورت کی یادداشت کی کولیکشن میں مذہبی و غیرمذہبی ہردو طرح کی موسیقی کا کچھ نہ کچھ حصہ محفوظ ہوگا ، یہ اس کی پروفیشنل ذمہ داری ہے ، لوگوں کے ذوق میں تنوع ہے ۔ کوئی قوالی سُن کر ایمان ”تازہ” کرنا چاہتا ہے تو کسی کو پنجابی ٹپے سن کر دِل پشوری کرنے کا شوق ہے ، اسے سَب کا خیال رکھنا پڑتا ہوگا۔

یہ ایک ڈھولکی بجانے اور گانے والی کے علاوہ ایک ماں بھی ہے ، جو اپنا بچہ بھی ساتھ ساتھ اٹھائے پِھرتی ہے ۔ یہ مزدور ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ سَرکار کی جانب سے مزدور کے لیے مقررکردہ کم سے کم محنتانے کااصول اس پر بھی لاگو ہوتا ہے یا نہیں، میرا خیال ہے ”نہیں”۔ اور یہ خیال غلط نہیں ہے۔

یہ ایک خالص اور سچا مزدور ہے ، اس مزدور کو کسی فہامے کے اخلاقیات کے بھاشنوں کی کوئی پروا نہیں ۔ اس کے معیارات اس کی ضروریات طے کرتی ہیں ۔ اور یہی سچ ہے ، اخلاقیات اورمعیشت کا گہرا تعلق ہے ، اوراخلاقیات کی تعریف جامد نہیں ہوتی ۔ آپ اسے مصنوعی لوریوں اور ڈراووں سے متعین نہیں کر سکتے۔

مَیں خود ایک مزدور ہوں لیکن اقبال خورشید کی زبانی کہوں تو ”یہ مُجھ سے زیادہ مزدورہے” ، میں اس عظیم مزدور ، اس عظیم ماں کو سیلیوٹ کرتا ہوں، عقیدت کا سلام کرتا ہوں ۔ اس نے زندگی سے ہار نہیں مانی ، یہ زمانے کی تلخیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے ۔ یہ مرتےدَم تک جینا چاہتی ہے۔ یہ مایوس نہیں ہے۔ یہ میری معزز استاد ہے جسے دیکھ کر مجھے زندگی سے نہ ہارنے کا سبق ملا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے