اگرآپ کی اہلیہ روٹھ جائے تو؟

"برس ہا برس کی ٹھوکریں کھانے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اپنے ساتھیوں کی کمیاں اپنے بڑوں کو نہیں بتانی چاہییں،اس لیے کہ آج کے بڑے اتنے بڑے نہیں ہیں کہ کسی کی کمی سننے کے بعد بھی اس کے لیے ان کے دل میں محبت باقی رہے”

یہ ایک خط کا اقتباس ہے جو مولانا سعید احمد خان مرحوم نے مولانا طارق جمیل کو لکھا تھا،اسلام آباد کے تبلیغی اجتماع میں مولانا طارق جمیل نے کہا کہ لمحہ موجود کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ آپس میں محبتیں بانٹی جائیں۔انہوں نے کہا:

میں آپ کی منت کرتا ہوں کہ خدارا محبت کے پودے کو پانی لگاؤ،ہماری وہ محفل بڑی گرم ہوتی ہے جس میں دوسروں کی کمیاں بیان ہو رہی ہوں، دوسروں کی کمیاں دیکھنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے،اس میں دیندار اور مذہبی کا کوئی استثنا نہیں ہے،حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا گیا کہ فلاں شخص جو آپ کی مجلس میں بیٹھتا ہے وہ شرابی ہے،اسے اپنی مجلس سے اٹھا کیوں نہیں دیتے؟ فرمایا تمہیں اس کی کوئی صفت نظر نہیں آئی؟ بس شراب ہی نظر آئی،اس کی صفات تو دیکھو۔

آپ ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ سے پوچھا :ای عری الایمان اوثق؟ کہ کون سا عمل سب سے اچھا ہے؟ جواب آیا "نماز”۔آپ نے فرمایا یہ اچھا عمل ہے لیکن میری مراد یہ نہیں،اسی طرح روزہ ،زکوۃ اور حج کا کہا گیا تو آپ نے یہی فرمایا کہ یہ اچھے اعمال ہیں لیکن وہ نہیں ہیں ۔صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں تو آپ نے فرمایا:”الحب للہ والبغض للہ” اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے ہی نفرت کرنا۔اس لیے میں کہتا ہوں محبتیں تقسیم کریں،نفرتیں نہ پھیلائیں۔

[pullquote]محبت پروان چڑھانے کے لیے تین کام کریں:[/pullquote]

1: آنکھ بند کر لیں،دیکھا ان دیکھا کردیں گویا آپ نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔
2: کان بند کرلیں،کسی کی کمی نہ سنیں،غيبت والی مجلس سے آٹھ جائیں۔
3: زبان بند کرلیں،سہہ جائیں ،برداشت کر لیں لیکن اپنی زبان کو سی لیں،بدگوئی نہ کریں۔

غیبت اور چغلی میں صرف نیت کا فرق ہے، چغلی میں کسی کی برائی کرتے ہوئے یہ نیت بھی ہوتی ہے کہ دونوں کے مابین نفرت پیدا کی جائے اور انہیں لڑایا جائے۔بہتان تو اس سے بھی آگے کی چیز ہے کہ بلاوجہ کسی پر الزام لگائیں۔میرے نبی نے فرمایا کہ جو کسی معصوم عورت پر الزام لگائے اور پھر سو سال تک عبادت میں مشغول رہے تو اسے اس عبادت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب تک اس سے معافی نہ مانگ لے۔

بڑوں کی آنکھیں نہیں ان کے کان ہوتے ہیں،اس لیے درمیان والوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ان تک وہی بات پہنچتی ہے جو ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے بتاتے ہیں۔ہم لوگ کان کے بہت کچے ہیں،کسی پر الزام سنتے ہی اس پر یقین کر لیتے ہیں اور تحقیق کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔

مولانا نے صبر کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ : دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرنا چھوڑ دو اور اگر کوئی تمہاری زندگی میں دخل دیتا ہے اسے برداشت کرو،یہی صبر ہے۔

حوصلہ شکنی کے ہمارے سماجی رویے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کسی کی اچھائی پر تعریف کرنا حق ہے،اس سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے ،جو چیز حرام ہے وہ خوشامد ہے،خود ہمارے نبی نے مختلف مواقع پر اپنے صحابہ کی تعریف فرمائی،انہیں جنتی قرار دیا۔ تعریف لازمی کریں،یہ اچھی بات ہے۔ہمارے تو کان ہی ترس جاتے ہیں حوصلہ افزائی کے دو بول سننے کو۔اپنے بول کو میٹھا کرو اور ڈانٹ ڈپٹ کو ترک کر دو،اگر اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ زبان تلخ ہوگی تو گھر ٹوٹے گا۔یہ کیا بات ہوئی کہ بات بات پر یہ کہا جائے کہ یہ کیوں کیا۔ایسا کیوں نہ کیا،اگر یہ کر لیا ہوتا ۔ ۔ ۔

مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کون سی تربیت ہے؟ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب سے بڑے مربی اور معلم ہیں لیکن آپ نے کبھی کسی کو تپھڑ نہیں مارا،سکولوں اور مدرسوں کے اساتذہ اور قاری صاحبان کے ہاتھ میں ہر وقت ڈنڈا ہوتا ہے،خدارا اپنے نبی کو پہچانیے اور ان کی تعلیمات پر عمل کیجئے۔گھر کا سربراہ اصلاح کے نام پر صبح وشام گھر والوں کو ڈانٹتا ہے،میرے نبی ایسا کوئی دین لے کر نہیں آئے۔

آخر میں آپ نے فرمایا کہ :اگر آپ کی کسی سے لڑائی ہوئی ہے یا بول چال بند ہے تو صلح کرلیں۔اپنی بیوی کو راضی کریں ،اپنے بھائی کے گھر جائیں،ابھی نیت کریں کہ یہاں سے اٹھیں گے تو فون پر ان سے رابطہ کریں گے اور باہم محبت سے رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے