نیشنل ایکشن پلان کا رکھوالا کون ہے ؟

اس ملک میں ویڈیو اعترافات کی اشاعتِ عام کا کام غالباً قومی ٹیلی ویژن پر ڈاکٹر عبدالقدیر کے اعترافی بیان سے شروع ہوا۔جس میں انھوں نے ایٹمی اسمگلنگ کا عالمی نیٹ ورک چلانے کی پوری ذمے داری اپنے کندھوں پر لے لی اور یہ تاثر دیا کہ انھوں نے یہ کام تنِ تنہا اپنے کارندوں کی مدد سے کیا۔ اس اعترافی بیان کے بعد وہ دو ڈھائی برس گھر میں نظر بند رہے۔ اس دوران کسی صحافی کو ان کے قریب پھٹکنے نہیں دیا گیا۔

رفتہ رفتہ ان پر پابندیاں غیر اعلانیہ انداز میں ڈھیلی ہوتی چلی گئیں۔اس کے بعد اخباری کالموں کے ذریعے انھوں نے ’’اصل حقائق‘‘ سے پردہ اٹھانا شروع کیا اور یہ بھی بتایا کہ انھوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے دراصل خود کو قومی سلامتی پر قربان کردیا اور پھر ایٹمی پروگرام کے ’’اصل دشمنوں اور سازشیوں‘‘ کی جانب بات کا رخ موڑ دیا۔ انھوں نے اپنی ایک سیاسی جماعت بھی بنائی۔ صدارتی امیدوار بننے کی بھی کوشش کی۔

آج کل وہ صرف کالموں کے ذریعے مکالمہ کرتے ہیں۔انھیں اب بھی بہت سے لوگ محسن ِ پاکستان کہتے ہیں مگر تعداد پہلے سے کہیں کم ہے۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب اپنی تمام تر قربانیوں کی یادوں کے سائے میں بنا سرکاری پروٹوکول ایک محبِ وطن پاکستانی کی حیثیت سے بظاہر ایک مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔

جہاں تک لیک ویڈیو کی روایت ہے تو غالباً پہلا اعترافی ویڈیو ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلر اجمل پہاڑی کا لیک ہو کر مارکیٹ میں آیا اور کئی برس تک سوشل میڈیا پر پھولی ہوئی لاش کی طرح غائب اور نمودار ہوتا رہا۔ اب بہت عرصے سے نظر نہیں آ رہا۔ یہ ویڈیو دراصل تفتیشی نوعیت کا تھا جس میں کوئی نامعلوم آواز سوال پوچھ رہی ہے اور اجمل پہاڑی اطمینان سے بتا رہا ہے کہ اس نے الطاف حسین کے کہنے پر کیا کیا وارداتیں کیں۔

اسی نوعیت کا ایک اسمگلڈ ویڈیو مارچ 2015 میں سامنے آیا جب ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلر صولت مرزا کو سزائے موت سنائے جانے کے سولہ برس بعد پھانسی دینے کا فیصلہ ہوا۔ لیکن 19مارچ کو پھانسی سے محض چند گھنٹے پہلے کال کوٹھڑی میں بنائی جانے والی صولت مرزا کی اعترافی ویڈیو جانے کیسے ایک نجی ٹی وی چینلز تک پہنچی اور اسے باقاعدہ نشر کیا گیا۔

اس ویڈیو میں بھی الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم کی قیادت کو صولت مرزا نے اپنی وارداتوں کے لیے براہِ راست احکامات صادر کرنے کا ذمے دار قرار دیا۔ اس کے بعد صدرِ مملکت نے صولت مرزا کی پھانسی روک دی تاکہ نئے انکشافات کی روشنی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تازہ تحقیق کر سکے۔ یہ الگ بات کہ صولت مرزا سولہ برس سے جیل میں اسی لیے تھا کہ اس نے کے ای ایس سی کے چیئرمین شاہد حامد کے قتل سمیت کئی خونی وارداتوں کا اعتراف کر کے اپنے لیے سزائے موت کا سامان پیدا کیا۔مگر ایم کیو ایم کی قیادت کا کھل کے نام لینے میں اسے سولہ برس لگ گئے۔

بہرحال دو بار سزائے موت ملتوی ہونے کے بعد بارہ مئی 2015 کو اسے مچھ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ جیل حکام نے ویڈیو کال کوٹھڑی سے باہر آنے اور چینلز پر چلنے کے واقعہ کی تحقیقات کروانے کا اعلان کیا۔بلوچستان کی صوبائی حکومت نے بھی اس واقعہ کے ذمے داروں کو سامنے لانے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا عہد کیا اور یہ عہد آج تک قائم ہے۔شائد ویڈیو بنانے والوں نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی تھی۔

گزشتہ برس 16 جون کو سابق وفاقی وزیرِ پٹرولیم اور آصف علی زرداری کے دوست ڈاکٹر عاصم حسین کی ایک اعترافی ویڈیو جانے کیسے ایک نجی نیوز چینل کے ہاتھ لگ گئی۔ اس میں ڈاکٹر عاصم کھل کے آصف زرداری اور ان کے ایک دستِ راست اویس مظفر ٹپی کی بد اعمالیوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ حسنِ اتفاق سے یہ ویڈیو ٹھیک اس وقت لیک ہوئی جب عدالت ڈاکٹر عاصم کو ضمانت پر رہائی دینے یا نہ دینے کے سوال پر کسی نتیجے پر پہنچنے والی تھی۔

ویڈیو لیک ہونے کے وقت ڈاکٹر عاصم رینجرز کی تحویل میں تھے۔مگر رینجرز نے اس تاثر کی سختی سے تردید کی کہ ویڈیو لیک کرنے کی ذمے داری ان پر آتی ہے۔ تو پھر یہ ویڈیو تفتیش کاروں کی تحویل سے کس نے حاصل کی اور دھڑلے سے اسے ایک چینل پر کس نے چلوایا ؟ اس کا جواب نہ رینجرز ڈھونڈھ پائے نہ ہی سندھ گورنمنٹ اور نہ ہی چینل سے پوچھ گچھ ہوئی کہ بھیا تمہیں یہ سوغات کس نے دان کی؟

بہرحال ویڈیو لیک کرنے کا جو بھی مقصد تھا پورا نہ ہو پایا اور اب سے ڈیڑھ ماہ پہلے ڈاکٹر عاصم حسین ضمانت پر رہا کر دیے گئے۔ ان پر دہشتگردوں کے علاج معالجے سے لے کر اربوں روپے کے گھپلوں تک کئی مقدمات قائم ہوئے۔ مگر عدالت نے ان شواہد اور دعوؤں کو شائد بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔

گزشتہ برس ہی مارچ میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ اعترافی ویڈیو ہر ٹی وی چینل نے نشر کی۔ کچھ عرصے اس پر گفتگو ہوتی رہی پھر کلبھوشن کا تذکرہ میڈیا کے ریڈار سے غائب ہو گیا۔اب سے کچھ دن پہلے دس اپریل کو جب آئی ایس پی آر نے اچانک یہ اعلان کیا کہ کلبھوشن کو اپنے جرائم کے اعتراف میں فوجی عدالت نے سزائے موت سنا دی ہے تو اعترافی ویڈیو ایک بار پھر ٹی وی اسکرینز کی زینت بن گئی۔

غالباً اس ویڈیو کو سرکاری طور پر ریلیز کرنے کا مقصد یہ تھا کہ بھارتی حرکتوں کے بارے میں کسی کو کوئی شک و شبہہ نہ رہے۔ چونکہ یہ حساس معاملہ تھا اسی لیے کسی صحافی نے اس خواہش کا اظہار بھی نہ کیا کہ وہ کلبھوشن سے خصوصی انٹرویو کے لیے رسائی چاہتا ہے۔ شائد اس کی اجازت بھی نہ ملتی۔

چنانچہ جب سترہ اپریل کو آئی ایس پی آر نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کی ’’رضاکارانہ حوالگی‘‘ کی خبر بریک کی اور پھر اس کا بصری اعترافی بیان بھی جاری کیا گیا تو اسے بھی ایک معمول کی ویڈیو سمجھ کر تمام چینلوں نے نشر کی۔ اس ویڈیو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جو بھی جرائم ہوئے ان کی ذمے دار کالعدم ٹی ٹی پی یا جماعت الاحرار ہے۔

احسان اللہ تو محض ان تنظیموں میں لگ بھگ دس برس تک بطور ترجمان پھنسا رہا۔اور جیسے ہی تائب ہونے کا موقع ملا وہ پہلی فرصت میں اپنے پیارے وطن کی آغوش میں آگیا اور اب اس کا مشن یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو گمراہی اور شدت پسندی کی راہ پر جانے سے روکے جس میں پر چلنے والوں کا مقدر صرف تباہی و بربادی ہے۔

چلیے کوئی بات نہیں۔انسان جب بھی راہِ راست پر آجائے اچھی بات ہے۔ویڈیو سرکاری طور پر جاری کرنے کی حد تک توٹھیک تھا یا اب تک تفتیشی ویڈیوز پراسرار انداز میں لیک ہونا بھی میڈیا کی حد تک ایک روزمرہ حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا گیا تھا۔ لیکن پاکستان کی اعترافی ویڈیونک تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ ایک ایسا دہشتگرد جس کے سر پر انعام تھا اس تک سرکاری ٹی وی چینل کے بجائے نجی ٹی وی چینل کو خصوصی رسائی دی گئی اور اس چینل نے اس خصوصی انٹرویو کا بڑا سا اشتہار ایسے شائع کیا گویا عزت مآب احسان اللہ احسان صاحب عدم تشدد، انسانیت نوازی اور حب الوطنی کی اہمیت پر سوال و جواب کی محفل سجائیں گے (سرکاری ٹی وی چینل سے ایک دفعہ یہی کام لیا جا چکا ہے جب لال مسجد آپریشن کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی برقعاتی گرفتاری کے بعد پی ٹی وی نے ان سے خصوصی انٹرویو کیا)۔

احسان اللہ احسان تک رسائی آئی ایس پی آر کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ اگریہ قدم درست تھا تو سوال یہ ہے کہ پیمرا کو یہ بات یاد دلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت کسی بھی ڈکلئیرڈ دہشتگرد کا انٹرویو یا بات چیت نشر نہیں ہو سکتی۔اس سے پاک فوج کی دہشتگردی کے خلاف مہم کو نقصان پہنچ سکتا ہے کہ جس نے اب تک بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔

علاوہ ازیں جو شہری دہشتگردی کا لقمہ بنے ان کے عزیزوں اور احباب کو انتہائی دکھ اور صدمے سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ توقع تو یہ تھی کہ جو بیان آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونا چاہیے تھا وہ پیمرا کو جاری کرنا پڑا۔ ساتھ ہی ساتھ چینل کا بھی شکریہ کہ اس نے خرد مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نایاب انٹرویو مقررہ تاریخ اور وقت پر نشر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس اجازت کے تناظر میں ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ آیا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایک متفقہ بیانئے کی بابت کیا واقعی سول اور فوجی ادارے ایک صفحے پر ہیں؟ ویسے ڈاکٹر قدیر سے لے کر آج تک جتنے بھی اعترافی ویڈیو جاری یا لیک ہوئے ان سے رائے عامہ تبدیل کرنے میں کتنی مدد ملی۔

کتنے ویڈیوز اس لیے سامنے لائے گئے کہ ان کے ذریعے مخاطب ہونے والے کی غلطیوں یا جرائم سے عوام سبق حاصل کریں اور کتنے ویڈیوز اس نیت سے جاری کیے گئے کہ جاری کرنے والوں کا خیال تھا کہ اس سے ان کو طویل و صغیر المیعاد ایجنڈائی فائدہ پہنچے گا؟ کہاں تفتیشی ویڈیو کا سامنے آنا جرم ہے اور کہاں قومی خدمت؟ کون سا ویڈیو رضاکارانہ ہے اور کون سا دباؤ کے تحت بیان پر مشتمل ہے؟ کیا ان سوالات کا جواب دینا اور تلاش کرنا قومی ذمے داری کے دائرے میں نہیں آتا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے