‘انتہاپسندانہ سوچ کے خاتمے کے لیے سی ٹی ڈی ٹیم تشکیل’

سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے رواں ماہ دہشت گردوں کی انہتاپسند سوچ کو ختم کرنے کے لیے جامع منصوبے پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے لیے اس کی ٹیم تیار ہے۔

اس مقصد کے لیے فرانزک سائیکاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ، ثالث، مذہبی اسکالر اور سی ٹی ڈی کے ایک عہدیدار پر مشتمل ایک مکمل ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔

سندھ سی ٹی ڈی کے چیف ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) ڈاکٹر ثنااللہ عباسی کا کہنا تھا کہ انتہاپسندی کی سوچ کے خاتمے کے پائلٹ پروجیکٹ کے پہلے مرحلے میں ‘معمولی’سرگرمیوں کے جرم میں زیرحراست چند مبینہ نوجوان دہشت گردوں کو منتخب کرلیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان نوجوانوں کے ساتھ کئی سیشن ممکنہ طور پر پولیس ہیڈ کوارٹر گارڈن میں سی ٹی ڈی کے دفتر میں منعقد ہوں گے اور اگر اس طرح کے سیشنز کی ضرورت پڑی تو ان کی رہائش گاہوں میں بھی منعقد کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد تربیت کے لیے افغانستان گئے تھے لیکن ان کے اہل خانہ نے انھیں دہشت گردی سے باز رہنے کے لیے آمادہ کیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کے حوالے سے تاحال ‘ کسی منظم دہشت گرد سرگرمی’ میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا۔

انھوں نے انکشاف کیا کہ درحقیقت ان کے اہل خانہ نے نوجوانوں میں اس سوچ کے خاتمے میں مدد کے لیے سی ٹی ڈی سے رجوع کیا تھا اور اگر یہ پائلٹ منصوبہ کامیاب ہوا تو اس کو وسیع پیمانے پر نافذ کیا جائے گا۔

ایڈیشنل آئی جی کا کہنا تھا کہ بیرون ملک کام کرنے والے کوالیفائیڈ فورنزک سائیکاٹرسٹ نے اس منصوبے کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں جبکہ انتہاپسندانہ سوچ کے خاتمے کے لیے کام کرنے کا تجربہ رکھنے والی ایک این جی او بھی اس معاملے پر سی ٹی ڈی کی معاونت کررہی ہے۔

سی ٹی ڈی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس مرحلے کے لیے ذاتی، خاندانی معاملات، سماجی، نظریاتی اور ثقافتی پہلووں پر غور کیا جائے گا۔

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ ٹیم ان افراد کی انتہاپسندی کے پیمانے کو جانچنے کے لیے ذہنی استعداد اور مذہبی تشریحی صلاحیت اور مختلف پہلووں کا بھی جائزہ لینے کی کوشش کرسکتی ہے۔

جب سی ٹی ڈی محسوس کرے گی کہ یہ فرد انتہاپسندانہ سوچ سے چھٹکارہ پاچکا ہے تو اس کو معاشرے میں واپسی کی اجازت دی جائے گی لیکن ایسے افراد کے رویے کو جانچنے کے لیے ان کے اہل خانہ، مقامی مذہبی اسکالر، امام اور سی ٹی ڈی کے عہدیدار کے ذریعے نظر رکھی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ چند اسکالرزاور امام حضرات کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے گا اور سی ٹی ڈی کی جانب سے درخواست کی جائے گی کہ ایسے افراد کے رویے پر نظر رکھنے کے لے ہفتہ وار سیشن رکھا جائے۔

دوسری جانب ایسے افراد کو سی ٹی ڈی سے ہر ہفتے یا ضرورت کے مطابق بدستور رابطے میں رہنے کی ہدایت کی جائے گی، پوری ٹیم کی جانب سے اس کے ساتھ مزید سیشن رکھے جائیں گے۔

ٹیم کے اراکین کے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سائیکاٹرسٹ/سائیکالوجسٹ دہشت گردوں کے دماغی مسائل کے حوالے سے جائزہ لے گا۔

سی ٹی ڈی کے سربراہ نے کہا کہ ثالث دہشت گرد کو انتہاپسندی کی طرف لے جانے والے عوامل کی نشاندہی میں ان کی مدد کرے گا جبکہ ان کی مہارت سے دہشت گردوں کے ساتھ اعتماد پیدا کیا جائے گا۔

اس طرح کے ثالث کو دہشت گرد کے ذہنی استعداد کو پرکھنے کے لیے مختلف طریقے اپنانے ہوں گے اور اپنی کوششوں کو کام کو نتیجہ خیز بنانے پر مرکوز کرنی چاہیے۔

ثنااللہ عباسی کا کہنا تھا کہ ‘ثالث ایسے کسی الجھاو کو سدھاریں گے جس کا دہشت گرد کو اہل خانہ سے درپیش ہے اور جس کی وجہ سے انھیں کسی تنظیم کے تعاون کی ضرورت پڑی’۔

مذہی اسکالر یا امام کے کردار پر بات کرتے ہوئے سی ٹی ڈی کے سربراہ نے کہا کہ مذہبی اسکالر کو مذہب کی مختلف تعلیمات اور رواج کی تفہیم کے لیے دہشت گرد سے بات کرنے کو کہا جائے گا جو عام طور پر دہشت گرد گروپ غلط بیان کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘سی ٹی ڈی عہدیدار سیشن کے دوران حاضر رہے گا اور اگر ضرورت پڑی تو انھیں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے نمائندے کے طورپر پیش نہیں کیا جائے گا۔

ثنااللہ عباسی نے کہا کہ سی ٹی ڈی عہدیدار کا کردار ٹیم کے دوسرے اراکین کے حوالے سے محدود ہوگا اور انھیں حساس معاملات میں آگاہی دے گا جبکہ مذہبی اسکالر انسداد دہشت گردی کے لیے سوشل میڈیا میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے