روایت کی سُولی اورلڑکی کے ارمان

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہمارے معاشرے میں لڑکی کی پیدائش کو زمانہ جاہلیت کی طرح زحمت نہیں سمجھا جاتا ۔ہم بخوبی جانتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لڑکی کی پیدائش پر اسے زندہ درگور کر دیا جاتا اور اس کے ساتھ ساتھ بیٹی کو پیدا کرنے والی ماں کو طعنوں سے اس کا جینا دوبھر کر دیا جاتا اس کے ماتھے پر طلاق کا دھبہ لگا کر گھر سے نکال دیا جاتا ۔کبھی اسے کہا جاتا کہ یہ تو منحوس ہے جو بیٹیوں کو پیدا کرتی ہے یہ تو بات زمانہ جاہلیت کی تھی اج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں ہم اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو لڑکیوں کی پیدائش پر اتنی خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا جتنا لڑکوں کی پیدائش پر کیا جاتا ہے ۔

ہم اسلام کے بڑے داعی اور نبی کریم ﷺ کے امتی ہونے کے دعوے دار بنتے ہیں کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک اچھا شوہر ایک اچھا باپ بن کر نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا کے لیے نمونہ چھوڑ گئے ۔ہمارے معاشرے میں اگرچہ ایسے کم لوگ ہیں جو بیٹی کی پیدائش پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ ایک مچھلی سارے دریا کو گندا کر دیتی ہے جہالت میں دھنسے ہوئے ان لوگوں کی نسبت اس گندی مچھلی کی طرح ہے جو معاشرے کو بدنام کر رہے ہیں
روزانہ اخبارات میں سرخیاں جمتی ہیں کہ شوہر نے بیوی کو طلاق دے دی ،اس پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی ،مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا گیا ،اس کی ناک کاٹ دی گئی ،بیوی نے شوہر کے تشدد سے تنگ آ کر خودکشی کر لی وغیرہ وغیرہ چھان بین کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی بڑا مسلہ نہیں تھا مرد نے اپنی انا کو تسکین پنچانے کے لیے ہوا کی بیٹی پر الزامات لگائے ۔

اب آگے چلیں بیٹی کی پیدا ہوئی قبول بھی کر لی گئی جب وہ جوانی کی دہلیز پر پہنچتی ہے اس کی پسند و ناپسند کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا اس سے رائے تک نہیں لی جاتی کیونکہ وہاں مرد کی انا کا مسئلہ آ جاتا ہے ۔لڑکیوں سے پوچھے بغیر اس کی زندگی کا جیون ساتھی کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے ہونا تو یہ چاہے کہ جس لڑکی نے اپنی ساری عمر اس کے ساتھ گزارنی ہوتی ہے اس سے اس کی رائے تو معلوم کر لی جائے ۔ہمیں نبی کریمﷺ کی زندگی سے سبق سیکھنا چائے انھوں نے اپنی لخت جگر کا رشتہ کرنے سے قبل ان کی مرضی معلوم کی اور آنے والی امت کے لیے ایک مثال قائم کی ۔اسلام میں لڑکے اور لڑکی دونوں کی رضا جاننے کے بعد اس مقدس رشتے کی مناسبت طے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔مگر ہمارے ہاں اظہار کا حق صرف لڑکوں کو دیا گیا ہے لڑکیوں کے معاملے میں انا اور غیرت کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے ۔

شادی کے معاملے میں لڑکے والوں کا معاملہ بھی مطلق العنان حکمرانوں جیسا ہوتا ہے ۔اکثر لڑکوں کی مائیں رد کر دینے والی لڑکیوں کی تعداد اس فخر سے بیان کرتی ہیں گویا انھوں نے بہت بڑا معرکہ سر کیا ہے ۔جب وہ لوگوں کی بچیوں کی خامیاں بیاں کر رہی ہوتی ہیں تو وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ وہ بھی آخر کسی کی بیٹی ہوا کرتی تھی اور ان کے گھروں میں بھی بچیاں موجود ہوتی ہیں دولت ،گرین کارڈ وہ اضافی خصوصیت ہوتی ہیں جو شادی کی منڈی میں لڑکی کی اہمیت کو بڑھا دیتی ہیں ۔اگر کوئی لڑکی گورنمنٹ جاب کر رہی ہو اور وہ کسی بڑے عہدے پر فائز ہو تو لڑکی کے اندر تمام خامیاں جو لڑکے والے بیان کر رہے ہوتے ہیں وہ ان کے لیے خوبیاں بن جاتی ہیں کیونکہ ان کے لیے انسان کی نہیں اس عہدے کی اہمیت ہوتی ہے ۔

اس کے برعکس لڑکی والوں کو بھی اپنی بیٹی کے لیے ایسے لڑکے کی تلاش ہوتی ہے جو اچھی نوکری پر فائز ہو ،کوٹھی بینک بیلنس گاڑی اس کے پاس ہو تبھی وہ اپنی لڑکی کی اس کے ساتھ شادی کریں گے ۔اس دوہرے معیار نے ہمارے معاشرے کی اخلاقی قدروں کو تباہ کر دیا ہے ۔

اگر ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو یہ جان کر بہت افسوس ہو گا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں پر انسانوں کے جذبات اور احساسات کی قدر نہیں کی جاتی ہم بری طرح ہوس دولت میں دھنستے چلے جا رہے ہیں جس نے ہر رشتے کو پائمال کر رکھا ہے باپ بیٹا ،بھائی بھائی آپس میں لڑ رہے ہیں اور لڑنے کی وجہ دولت ہوتی ہے ۔ایک بھائی امیر ہے تو دوسرا بھائی غریب ہے تو غریب بھائی کی بچے امیر بھائی کے لیے اجنبی بن کر رہ جاتے ہیں ۔

ہمیں اس فرسودہ نظام کے خلاف آواز اٹھانی چاہے ،لڑکیوں کو بار بار مرنے سے بچانا ہے آج کل کی پڑھی لکھی نوجوان نسل کو نبی کریمﷺ کو اپنا نمونہ مان کر ان کے بتلائے ہوئے طریقوں کے مطابق چل کر آواز بلند کرنی چاہے ،ان کی سوچ اور نظریے کو لے کر ہم معاشرے سے جہالت کا خاتمہ کر سکتے ہیں ۔ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے بتلائے ہوئے راستوں پر چلیں دین اسلام سے کوئی روشن خیال دین نہیں جو ہر کسی کو اس کا حق دیتا ہے خود ہمارے نبی ﷺ نے زندگی کے تمام شعبوں میں عملی نمونہ بن کر اعلی مثال قائم کی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے