کشمیر اور بھارتی فوج

پچھلے دنوں دارلحکومت دہلی میں بھارتی فوج کی ایک تھینک ٹینک نے کشمیر میں رواں مخدو ش صورت حال کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا۔ چیتھم ہاؤس رولز کے تحت ہوئے اس مذاکرہ میں کئی سابق فوجی سربراہان کے علاوہ متعدد سرونگ اور ریٹائیرڈ آرمی افسران نے شرکت کی۔ دہلی کنٹونمنٹ کے جنرل مانک شاہ آڈیٹوریم پہنچ کر معلوم ہوا کہ راقم کے علاوہ سویلین مقریرین میں صرف مصنف ڈیوڈ دیوداس اور سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور قانون دان اشوک بھان مدعو ہیں۔ کانفرنس میں عمومی اتفاق رائے پایا گیا، کہ موجودہ شورش سیاسی عمل کی ناکامی کی دین ہے اور بھارتی فوج کشمیر میں جو کچھ کرسکتی تھی، کر چکی ہے اور اب اسکی زنبیل میں ایسا کچھ نہیں بچا ہے جس سے عوامی غیض و غضب کو ٹھنڈا کیا جاسکے ۔

ضلع کپواڑہ میں تعینات ایک افسر نے بتایا، کہ کس طرح سات سے بارہ سال تک کے نہتے بچے بلا کسی ڈر و خوف کے آرمی کی کانوائے روک دیتے ہیں اور کیمپوں کے پاس آکر فوجیوں کو ۔۔’’اکساتے‘‘ ہیں۔ایک معمر جنرل صاحب نے شکوہ کیا، کہ شورش کو کچلنے کیلئے آخر بھارتی سکیورٹی دستے اسرائیلی حکمت عملی کیوں نہیں اپناتے ہیں؟ حال ہی میں سبکدوش ہونے والے ایک جنرل نے افسوس ظاہر کیا، کہ انسانی ڈھال کے طور پر بندھے ہوئے ایک کشمیری نوجوان کی وائرل ہوئی تصویر سے فوج کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے۔ میں نے معمر جنرل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا ، کہ آیا وہ کونسی اسرائیلی حکمت عملی ہے، جو بھارتی دستوں نے کشمیر میں استعمال نہیں کی ہو؟

بھارتی فوج کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں شامل کئی اسرائیلی فوجی افسران نے راقم کو بتایا ہے، کہ جس طرح کشمیر کے دیہاتوں میں سویلین آبادی کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وہ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ میں نے ہال میں موجود افسران سے پوچھا، کہ ایماندار ی سے وہ یہ بتائیں، کہ سوشل میڈیا نے جیپ سے بندھے ہوئے جوان کی تصاویر تو دنیا تک پہنچا دی، مگر کیا کشمیر میں ایسا پہلی بار ہوا ہے؟

جموں وکشمیر کے طول وعرض میں ایسے لاتعداد المناک واقعات رونما ہوئے ہیں ، جنہیں بیان کرنے یا ضبط تحریر میں لانے سے زبان اورقلم تک خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ 1990سے 2003تک شمالی کشمیر میں کس طرح رات کے تین بجے ہر گاؤں سے چار سے آٹھ افراد پر مشتمل مختلف قافلے ہاتھوں میں لالٹین لے کر سڑک پر اپنے اپنے گاؤں کے مقررہ مقام پر جمع ہوجاتے تھے۔ اس قافلے کا انتخاب بدنصیب گاؤں والے یوں کیا کرتے تھے کہ گاؤں کے ایک سرے سے شروع کرکے ہر گھر سے ایک فرد کو بار ی باری حاضر ہوناپڑتاتھا۔ اس سارے آپریشن کا نام ’’کانوائے ڈیوٹی‘‘ رکھا گیا تھا۔ پروگرام کے مطابق صبح کے تین بجے چاہے یخ بستہ سردیا ں ہوں یا گرمیاں مقررہ مختلف مقامات پر برلب سڑک لگ بھگ 200افراد ایک ہاتھ میں لمبا ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین لے کر فوجی پارٹی کا انتظار کرتے تھے۔ جوں ہی فوجی پارٹیاں آ تی تھیں ، تو ان کو آگے چلنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف گندی نالی ہو یا کوئی کھیت کھلیان ، جنگل ہو یا قبرستان ،باریک بینی سے اس بات کا کھوج لگانا پڑتا تھاکہ کہیں کسی نے بارودی سرنگ تو نہیں بچھا رکھی ہے۔

ایسا شاید دنیا کے کسی بھی خطہ میں نہیں ہوتا ہو گا کہ وردی پوش جس کا کام ہرحال میں شہریوں کی حفاظت کرناہوتاہے ، اپنی حفاظت کے لئے اْلٹا بدنصیب شہریوں کو ہی اپنے آگے انسانی ڈھال کے طور استعمال کرے۔ اس کے بعد اگر متعلقہ ذمہ دارفوجی افسر کا موڈ ٹھیک ٹھاک ہوتا اور گرد ونوا ح میں جنگجوؤں کی موجودگی کا خطرہ بھی نہ ہوتا تو بیگار پر گئے بدنصیب دیہاتیوں کو صبح کا ناشتہ کرنے کے لئے لگ بھگ آدھے گھنٹے کے لئے گھرجانے کی اجازت ملتی تھی ، اس کے بعد متعلقہ منتقلی کیمپ میں جاکر اپنے اپنے شناختی کارڈ جمع کروانے ہوتے تھے۔ وہاں کوئی حوالدار ’صاحب‘ لوگوں کو مختلف ٹکریوں میں بانٹ کر مختلف کام انجام دینے کے لئے ڈیپوٹ کرتا۔اس دوران اگرکہیں بھی ، چاہئے وہ علاقہ میلوں دور کیوں نہ ہو، آرمی کانوائے کے اوپر کوئی حملہ ہوجاتا ، تو نزلہ ان دیہاتیوں پر گرا دیا جاتا تھا۔اس طرح رہائشی مکانات کی جو بھی کھڑکیاں سڑک کی طرف کھلتیں تھیں ،انہیں کھولنے کی اجازت نہیں تھی۔

لنگیٹ قصبہ سے ملحق ایک گاوٗ ں ہانگہ کے ایک ذی عزت استاد ماسٹر عبدالخالق گنائی جب اپنی باری پوری کرنے کے لئے بیگار پر تھے ، تو فوجیوں کو اس کے گاؤں کے بیچوں بیچ گزرنے والے سڑک کے کنارے توت کے درخت کی گنجان ٹہنیوں سے خوف محسوس ہونے لگا اور ماسٹر صاحب کو حکم دیا کہ وہ کلہاڑی لے کر یہ ٹہنیاں کاٹ دے۔ ماسٹر صاحب کا کام بچوں کو پڑھانا تھا اور درخت پر چڑھنے کا انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ، نتائج کی پرواہ کئے بغیر انہیں حکم کی تعمیل کرنے سے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہی ہوا جس کا ڈرتھا۔ بدنصیب استاد کلہاڑی لے کر جیسے ہی جوں توں کرکے درخت پر چڑھا تو اچانک اپنا توازن کھوبیٹھا اور سیدھا نیچے گر کر دَم توڑ دیا۔ معاوضہ تو درکنار، بتا یا گیا کہ پولیس میں رپورٹ درج کروانا ’’قوم دشمنی‘‘ گر دانا جائیگا۔ اسی طرح سنزی پورہ گاؤں کافیروز احمد پیر نامی طالب علم جب بھاری برف باری کے بیچ کانوائے ڈیوٹی ‘ انجام دے رہا تھا توسڑک کے نیچے ایک تنگ Culvert کے اندر اس نے یہ کہہ کر گھسنے سے انکار کیا کہ پوری نالی پیشاب سے بھری ہوئی ہے۔بس پھر کیا تھا، اس بدنصیب نوجوان کو اپنا پاجامہ ،جوتا اور موزے باہر اتار کر چار کلومیٹر تک کانوائے کے آگے آگے چلنے پر مجبور کیا گیا۔ گھر پہنچنے کی دیر تھی کہ فیروز پورے دومہینے کے لئے بیمار ہوکر بستر پر پڑگیا۔

جموں و کشمیر کی اسمبلی میں لنگیٹ علاقہ کے ایم ایل اے انجینئر عبدالرشید، جو سیاست میں آنے سے قبل خود بھی ایک سرکاری عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اس طرح کی ڈیوٹیاں دے چکے ہیں کا کہنا ہے، کہ ان کے علاقہ میں تعینات میجرجگروپ کی ہدایت تھی ، کہ جہاں بھی کسی فوجی جوان یا آفیسر سے آمناسامنا ہو ، تو سلام کے بجائے بلند آواز میں فوراً ’’جے ہند‘‘ کہنا ہو تا تھا۔بدقسمتی سے علاقہ کی ایک ذی عزت شخصیت محمد یٰسین جو ایک دن دوکان پربیٹھے تھے سلام کرنے میں تاخیر کربیٹھے، میجرصاحب نے انہیں ننگے پاؤں دوکان کے باہر نکل کر کوئی 20فٹ دور دیوار کے ساتھ ہاتھ کھڑا کرکے کھڑا رہنے کا حکم دیا۔ اتنے میں گاؤں کی مسجد ،جو کہ جائے واردات سے 100فٹ کی دوری پر واقع ہے ، میں موجود نمازیوں کو باہرنکلنے کا حکم دیا گیا۔ انہیں میجر صاحب نے محمد یٰسین کی گستاخی (جے ہند نہ کہنے)کے بارے میں بتایا اور محمدیٰسین پیر کو حکم دیا کہ وہ معافی مانگے۔ بدنصیب نمازیوں کو اْمید تھی کہ معافی کے عوض محمدیٰسین پیر کو چھوڑ دیاجائے گالیکن ابھی یٰسین صاحب کی زبان سے معافی کے پورے الفاظ ادا بھی نہیں ہوئے تھے کہ میجر نے فلمی انداز میں اس کے سینے میں گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور یہ کہہ کر کہ ’’دیکھو میں نے ا سے معاف کردیا‘‘ وہاں سے نکل دیا اور بے بس دیہاتی اپنے علاقے کے خوددار ،جیالے اور مایہ ناز سپوت کی لاش کو کئی گھنٹوں تک اْٹھانے کی ہمت نہیں کرپائے۔

اسی طرح جماعت اسلامی سے وابستہ کارکنوں کے لئے بھی تذلیل ،حقارت اور کردار کشی پر مبنی آپریشن ہرروز ’کانوائے ڈیوٹی‘ کے مستقل پروگرام کے ایک حصے کے طور انجام دیا جاتا تھا۔ ماسٹر عبدالغفار خان مرحوم، پورے علاقے میں انتہائی عزت اوراحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کا صرف یہ قصور تھاکہ وہ جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔ ان کا گھرقلم آباد میں واقع فوجی کیمپ کے ساتھ ہی واقع تھا۔ میجر اشوک نیئر نامی آفیسر کو انہیں ستانے اور ان کی تذلیل کرنے میں جیسے ذہنی سکون ساآتا تھا۔کئی بار جب ہم اپنی کانوائے ڈیوٹی دینے کے لئے کیمپ کے سامنے حاضر ہوجاتے تھے تو ہمارے استاد محترم کی بے بسی اور بے کسی دیکھ کر ہمیں اپنی بزدلی اور بے غیرتی پر افسوس ہوتا تھا۔ ماسٹر عبدالغفار خان صاحب کے لئے میجر صاحب نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ جیسے ہی کانوائے ڈیوٹی والے ان کے نزدیک پہنچ جائیں تو وہ زور سے ’’سور کا گوشت کھاؤں گا ‘‘ کا نعرہ تین بار بلندکیا کریں۔ اس کے لئے انہیں چند منٹوں کے لئے کیمپ کے باہر حاضری دینی پڑتی تھی۔

رات بھر کا شبانہ گشت بھی گاؤں کے لوگوں کے لئے قیامت سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اگر اس گشت کے دوران فوجیوں کو کہیں سے کسی گاؤں کے متعلق یہ خبر ملتی کہ انہوں نے ذرہ بھر بھی لاپرواہی سے کام لیا تو اگلے دن پورے گاؤں کی شامت آجاتی۔ خود وردی پوش رات کو کیمپ سے باہر نہیں نکلتے تھے لیکن گاؤں والوں کے لئے رات بھر گشت کرنا لازمی تھا۔ ایک دن آڈورہ نامی گاؤں کے متعلق فورسز نے یہ بہانہ پیش کیا کہ رات کے دوران جن لوگوں کو اس رات گشت پر مامور ہونا تھا انہوں نے لاپروائی برتی ہے اور گشت کے بجائے کسی جگہ چند لمحوں کے لئے سو گئے تھے، اگلے دن صبح تڑکے پورے گاؤں کے مردوں کوقلم آباد آڈورہ روڈ پر واقع پل کے ساتھ ساتھ بند تعمیرکرنے کا حکم دیا گیا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک صوبیدار جو بیگار لینے میں اپنا منفرد مقام رکھتے تھے اور آپریشن سدبھاؤنا (یعنی عوام کو راحت پہنچانے) کے نام پر بیگار کے ذریعے پل وغیرہ بنانے میں مہارت رکھتے تھے ۔ ان کو لوگ ’’پل کا سردار‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔انہوں نے آڈورہ کے لوگوں کو حکم دیا کہ جب تک بند تعمیر نہیں ہوتا تب تک وہ گھر واپس نہیں جاسکتے۔ یہ شب قدرتھی اور بے چارے دیہاتیوں نے کوئی رات کے ایک بجے تک بند کو پورا کر کے اپنی جان چھڑائی۔

غرض ان مظلوموں کے لئے شب قدر کی یہ مقدس رات اپنے گناہوں کی مغفرت کے لئے رب ذوالجلال کی خدمت میں آہ و زاری میں گزارنے کے بجائے فورسزکے حکم کی تعمیل میں صرف ہوئی۔میں جب یہ واقعات بیان کر رہا تھا، تو ہال میں سناٹا چھا گیا تھا۔ میں نے کہاکہ کشمیر میں رونما ہورہے واقعات اسی کھیتی کی پیداوار ہیں، جو وہاں آپ حضرات نے بوئی ہے۔ کشمیری عوام پر صدیوں سے جبر اور خوف کے ذریعے حکومت کی گئی ہے۔ خوف اب ان کے دلوں سے نکل چکا ہے۔ جبر اًبھی بھی باقی ہے۔

اس سے قبل کہ صورت حال مزید مخدوش ہو، اور اس میں کئی اور خارجی عناصر شامل ہوکر پورے خطہ کیلئے پریشانی اور مصیبتوں کا باعث بنیں۔ بہتر یہی ہے، کہ مسئلہ کے سیاسی تصفیہ کی طرف سنجیدگی کے ساتھ پیش قدمی کی جائے۔

بشکریہ : روزنامہ 92 نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے