پاکستان کا کابل اور دہلی کے ساتھ واٹر مینجمنٹ پر غور

اسلام آباد: حکومت پاکستان نے واٹرشیڈ مینیجمنٹ اور سرحد پار ایکیوفر پر مل کر کام کرنے کے لیے بھارت اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ میکانزم کی تیاری پر غور شروع کردیا تاکہ ہمسایہ ممالک کے ترقیاتی منصوبوں کے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔

واضح رہے کہ واٹر شیڈ مینیجمنٹ سے مراد آبی و زمینی دیکھ بھال کے وہ رائج طریقے ہیں جن کے ذریعے پانی کے معیار کے تحفظ اور بہتری کو یقینی بنایا جاسکتا ہے جبکہ ایکیوفر سے مراد زیرزمین موجود پتھروں اور معدنیات کی وہ تہہ ہے جو پانی جمع کیے رکھتی ہے۔

یہ دونوں عمل قومی پالیسی برائے آب کا حصہ ہیں جو اس بات کو بھی یقینی بناتی ہے کہ شہری علاقوں میں پانی (پینے کے پانی اور مختلف کاموں میں استعمال ہونے والے پانی) کے استعمال کی 100 فیصد پیمائش ہوسکے۔

وفاق اور صوبوں کی جانب سے حتمی کی گئی یہ پالیسی منگل (2 مئی) کو ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے ایجنڈے میں بھی شامل تھی تاہم وزیراعظم کی سیاسی مصروفیات کے سبب اس کو مؤخر کردیا گیا۔

میڈیا کو ملنے والی اس پالیسی کی کاپی کے مطابق سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کا نظام پیش کرتا ہے لیکن اس معاہدے میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ ہائیڈرو پاور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے موجود دفعات، پانی کے کم بہاؤ والے دنوں میں پاکستان کو پانی کو فراہمی میں ایک خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں۔

دوسری جانب سندھ طاس معاہدہ مشرقی دریاؤں سے پانی کے بہاؤ سے متعلق یہ وضاحت نہیں دیتا کہ بھارت میں موجود ان دریاؤں سے ہونے والا اخراج نیچے رہنے والی آبادی کے لیے سنگین خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔

اس نئی پالیسی کے مطابق خطے میں ایسے میکانزم پر عملدرآمد جس کا حصہ دو سے زائد ہمسایہ ہوں پاکستان کے لیے بڑھتے ہوئے ہائیڈرو میٹرولوجیکل مسائل کے حل میں مددگار ہوگا۔

اس حوالے سے یہ تحقیق بھی کی جائے گی کہ مشرقی دریاؤں پر شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبے کن چیلنجز کا باعث بن رہے ہیں اور سندھ طاس معاہدے اور بین الاقوامی قوانین کے فریم ورک میں رہتے ہوئے ان کے اثرات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے۔

نئی پالیسی میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ ‘پانی کو کم قیمت شے’ سمجھا گیا اور ‘آبیانہ’ کے ذریعے سے حاصل قیمت اس قدر نہیں کہ زرعی انفرااسٹرکچر کے اخراجات کو برداشت کیا جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے