آزادی صحافت مگر کس سے ؟

آج آزادی صحافت کا عالمی دن ہے لیکن پاکستان میں آزادی صحافت کے معنی باقی دنیا سے کافی مختلف ہیں ، ہمیں آزادی صرف اپنی حد تک چاہیے ، ہمارے ملک میں میڈیا کی مختلف اقسام ہیں ، بنیادی طور پر پاکستان میں میڈیا کی آزادی صحافیوں اور مالکان کے درمیان کہیں لٹکی ہوئی ہے ، عام عوام تک میڈیا کی شہرت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے میڈیا کو بکائو مال ، بلیک میلر اور کسی خاص شعبہ کے ایجنٹ کے طور پر جانا جاتا ہے .

ہمارے ملک میں صحافی اب بہت ایلیٹ طبقہ بن گیا ہے، ٹی وی چینلز آنے کے ساتھ ہی صحافیوں کی تنخواہیں اور مراعات بہتر ہو گئی ہیں لیکن ساتھ ہی دوسرے مسائل بھی شروع ہو گئے ، صحافیوں نے دوسری طرح سوچنا شروع کر دیا ، پاکستان کی صحافت کو داغدار کرنے میں جہاں سیاستدانوں کا بڑا ہاتھ ہے وہاں پر ملک ریاض کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے ، اپنے بحریہ ٹائون کی پروموشن کے لیے اور بحریہ ٹائون کے خلاف خبریں رکوانے کے لیے ملک ریاض نے ایک رپورٹر ، فوٹوگرافر سے لے کر مالکان تک خریدے ہیں ، کوئی اشتہار کے زریعے کوئی پلاٹ کے زریعے ، کوئی گاڑیوں کے زریعے کوئی نقدی کے زریعے ،

ہم کیسی صحافت کر رہے ہیں کہ ہماری سینئر صحافی اور کالم نویس جنہیں ہم اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے ان میں سے کوئی چیئرمین پیمرا بن گیا ، کوئی وزیر اعظم کا مشیر بن گیا ، کوئی پی ٹی وی کا سربراہ بن گیا ، کسی کو کنٹریکٹ دے دیئے گئے ، کسی کو اخبار کھول کے دے دیئے گئے کسی نے صحافت کے زریعے سرکاری نوکری لے لی ، ہمارے ملک کے بیٹ رپورٹرز اپنی بیٹ کے ترجمان ہوتے ہیں ، حالانکہ انہیں اپنی بیٹ میں سخت اور کرپشن ، بدعنوانی اور غلط اقدام کی خبریں دینی چاہیے لیکن یہاں اگر کوئی دوسرا رپورٹر کسی کی بیٹ کی خبر دیدے تو اسے بیٹ رپورٹرز سے جھاڑ پڑتی ہے.

ٹیلی کام سیکٹر ، بنک سیکٹر ، ملٹی نیشنل کمپنیاں ، بحریہ ٹائون ، وزارت اطلاعات یہ وہ شعبے ہیں جن کے خلاف خبریں دینے پر تاعمر ثانی پابندی ہے اور یہ پابندی اس صورت میں کچھ دن کے لیے کھل سکتی ہے اگر یہ ادارے اشتہار بند کر دیں یا سلسلہ روک دیں تو

سربراہان مملکت کے ساتھ بیرون ملک دوروں کے لالچ میں سینئر رپورٹر و ایڈیٹر صاحبان کبھی ان اداروں کے بارے میں منفی خبر دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے بلکہ ان کے گن گانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں رہتے ہیں .

میڈیا مالکان نے اپنے اپنے مفادات کے مطابق مختلف گروپ جوائن کیے ہوئے ہیں کوئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے کوئی کسی سیاسی جماعت کا ترجمان ، کوئی اسٹیبلشمنٹ کا چینل ہے تو کوئی مذہبی پس منظر کا اخبار ،

پاکستان میں صحافت کی بہت عام سی تشریح ہے کہ اگر آپ کے پاس بہت پیسہ ہے اور آپ وہ کسی اخبار یا ٹی وی کو اشتہار دے دیں تو اس کے بعد آپ ملک بھر میں جتنی کرپشن اور دو نمبر کام کرنا چاہیں کر سکتے ہیں کم از کم صحافت آپ کو کچھ نہیں کہے گی

ملک کے مایہ ناز اینکرز اور بڑے صحافی کیسے کس کے کہنے پر کیا کر رہے ہیں کچھ سمجھ نہیں آتی ، خبریں کیا ہیں اور ہم کیا خبریں دے رہے ہوتے ہیں عوام کے مسائل کیا ہیں اور ہم کیا بتا رہے ہیں ، لوگوں کو شعور اور آگاہی دینے کی بجائے ہم لوگوں کو مختلف حصوں میں بانٹ رہے ہیں ، ملک میں شدت پسندی ، انتہا پسندی ، گروپ بندی ، لابی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہم درمیانی راستہ اور درمیانی رائے دینے سے عاجز ہیں .

ایک طرف نجم سیٹھی ، شاہ زیب خانزادہ ، طلعت حسین ، حامد میر ، مرتضی سولنگی ہیں تو دوسری طرف ارشد شریف ، اسد کھرل ، مبشر لقمان ، عامر لیاقت ہیں .

ہمیں کاشف عباسی اور عمر چیمہ جیسے صحافی مزید نہیں مل رہے کاشف عباسی اے آر وائی نیوز میں ہونے کے باوجود اتنی بہترین صحافت کر سکتے ہیں اور عمر چیمہ جیو گروپ میں ہونے کے باوجود حکومت کے خلاف پانامہ سکینڈل اور ٹیکس سکینڈل لا کرصحافت کو رسوا ہونے سے بچائے ہوئے ہیں .

اب اگر ہم پریس کلب اور پاکستان کی صحافتی تنظیموں کا حال دیکھیں تو وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں ، میڈیا آرگنائزیشن میں تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں ، صحافیوں کے حقوق ، مزدور سے کم تنخواہ متعدد ادراروں میں دی جاتی ہے اس کے خلاف اس طرح آواز نہیں اٹھاتے جیسے کسی خاص حکم کے تحت مظاہرے اور احتجاج شروع ہو جاتے ہیں ، کراچی پریس کلب کو کروڑوں روپے کا چیک پنجاب حکومت دے رہی ہوتی ہے ، دیگر صحآفتی تنظییں حکومت اور وزارت اطلاعات سے ہر وقت پلاٹوں اور فنڈز کےحصول کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہوتے ہیں ایسے میں کیسے چل گی صحافت

ہمیں ضیاء الدین ، ایاز امیر ، اردشیر کائوس جی ، عباس اطہر ، نصرت جاوید جیسے صحافیوں کی ضرورت ہے اور ہمیں جاوید چوہدری ، عرفان صدیقی ، عطا ئ الحق قاسمی ، ابصار عالم ، صالح ظافر ، حنیف خالد جیسے صحافی ملے ہیں

ایسے میں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہمیں آزادی صحافت کس سے چاہیے ؟؟
میڈیا مالکان سے ؟
حکومتی عہدوں سے ؟
اسٹیبلشمنٹ کے خوف سے ؟
کرپشن ختم کرنے والے اداروں کی بڑھتی کرپشن سے ؟
صحافیوں کے اپنے مافیا سے ؟
ملک ریاض سے ؟
ہمیں کیسی آزادی صحافت چاہیے اور کس سے چاہیے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے