صحافیوں کی کرپشن اورپریس فریڈم ڈے

آج میرے جتنے بھی صحافی دوست ہیں، انہوں نے صحافت کی آزادی اور جمہوریت کی بقاء کی بات کی ہے۔ یہ بہت ہی اچھی بات ہے اور صحافت کی آزادی کے لیے ہر جگہ اور ہر فورم پر بات بھی ہونی چاہیے۔ لیکن میرے کسی ایک دوست نے بھی اس موضوع پر بات نہیں کی کہ صحافت کو کس طرح اپنی ذاتی مقاصد اور کرپشن کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

کسی نے یہ نہیں لکھا کہ صحافت کو تعلقات بنانے اور پھر ان تعلقات کو اپنے ذاتی کام نکلوانے اور دوسروں کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ آپ شہروں کی بات چھوڑیں آپ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کی صورتحال دیکھیں تو نام نہاد صحافی چند پیسوں کی خاطر بیچارے چھوٹے چھوٹے دکانداروں اور ریڑھی والوں کو دھمکیاں لگا رہے ہوتے ہیں، کہ اگر ایسا نہ کیا تو تمہاری خبر لگوا دوں گا۔

دو برس پہلے میرے قصبے نوشہرہ ورکاں میں ہی ایک دکاندار والے نے مجھے یہ ویڈیو دکھائی کی کس طرح ایک مقامی صحافی اس سے دس ہزار روپے مانگ رہا ہے۔ دوبارہ وہ صحافی اسی دکان پر پیسے وصول کرنے کے لیے گیا تو اس دکاندار نے بھی اسے دھمکی دی کی تمہاری طرف سے پیسے مانگنے کی ویڈیو اس کے پاس بھی موجود ہے۔ اور یہ کوئی پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے آپ صحافیوں کی زیادتیوں سے متعلق کوئی ایک پلیٹ فارم بنائیں آپ کو ہزاروں شکایات کسی ایک شہر سے ہی موصول ہو جائیں گی۔

آج میرے کسی بھی دوست نے یہ نہیں لکھا کہ کس طرح کسی ایک اخبار یا ٹی وی چینل کی نمائندگی حاصل کرنے کے لیے دو دو لاکھ روپے کی رشوت دی جا رہی ہے، صرف اعزازی رپورٹر کی حیثیت حاصل کرنے کے لیے ایک ، ایک لاکھ روپیہ دیا جا رہا ہے اور اس کا میں عینی شاہد بھی ہوں۔ آخر کیوں بغیر تنخوا کے پورے پاکستان میں لوگ کام کرنے اور اپنی جیب سے میڈیا مالکان کو پیسے دے کر میڈیا کے نمائندے بننے کے لیے بے چین ہیں؟

اتنا بیوقوف تو کوئی نہیں ہوتا کہ اپنا نقصان کرے۔ ان نمائندوں یا ان صحافیوں کو پتا ہے کہ لوگ ان سے ڈریں گے، یہ جھوٹی خبریں لگوا کر دوسروں کو بلیک میل کر سکیں گے، ان کو پتا ہے کہ کسی ایک پارٹی کے حق میں خبر لگوانے کے کتنے پیسے وصول کیے جا سکتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ تھانیدار سے کیا کام لیا جا سکتا ہے اور ملکی قانون سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

یہ چند ایک واقعات مقامی سطح کی کرپشن ہے، جو ہمارے صحافی دوست اور بھائی کر رہے ہیں۔ آپ بڑی سطح پر جائیں تو صحافیوں کو تحائف بھی کروڑوں کے ملتے ہیں۔ پاکستان کے نامور صحافی اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ انہیں کروڑوں روپے کی آفرز ہوئیں لیکن انہوں نے قبول نہیں کیں۔ لیکن ایسے میں کتنے ایسے ہوں گے، جنہوں نے یہ آفرز قبول بھی کی ہوں گی؟

آخر کوئی نہ کوئی وجوہات تو ہیں نہ کہ صحافت کو کرپشن سے جوڑا جا رہا ہے یا صحافیوں کی طرف سے لاکھوں کے تحائف قبول کرنے کی لسٹیں بن رہی ہیں۔

صحافیوں کو جہاں آزادی صحافت کا دکھ تنگ کرتا ہے، ایسے ہی انہیں یہ دکھ بھی ہونا چاہیے کہ کس طرح صحافی بلیک میلنگ اور کرپشن کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں، کس طرح صحافت کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس بات پر غور ہونا چاہیے اور کھل کر لکھا جانا چاہیے کہ کیوں صحافیوں کو ایک نئے ’مافیا‘ کے طور پر پکارا جا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے