جامعات میں خوف کے سائے آخر کب تک

زمانہ طالبعلمی کو گزرے چند برس بیت گئے
اؐس زمانے میں کبھی اندازہ نہ ہوا کے مذہبی مبحاثے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں
ہمارے ڈپارٹمنٹ میں کوئی چار طالبعلم احمدی جماعت سے تعلق رکھتے تھے
جن میں سے ایک ہمارا ہم جماعت تھا، جس سے اکثر اوقات اسکے عقیدے کے حوالے سے خوشگوار ماحول میں ہلکی پھلکی بحث ہوجاتی تھی، وہ بہت تحمل مزاجی ہم چند دوستوں کے سوالات کا جواب دے دیا کرتا تھا اور بات ختم ہوجاتی تھی۔

ان معاملات کی سنگینی کا کسی حد تک اندازہ مجھے اس دن ہوا جب پانچویں سمسٹر کے آخر میں مجھے ایک پروگرام پروڈیوسر کے طور پر پیش کرنا تھا۔
میں نے اپنی جماعت کے ایک دوست کو اینکر بنایا، اسے سوالنامہ تیار کر کے دیا اور مہمان اپنے اسی احمدی ہم جماعت کو بنایا۔ پروگرام پارلیمان کی اس قرارداد کے تناظر میں تھا جسکے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔

پروگرام کا سکرپٹ/سوالنامہ مجھے اپنے سپروائزر جو ایک متوازن شخصیت کے حامل تھے، سے منظور کروانا تھا۔ انہوں نے پہلے سمجھایا اور پھر کہا فیصلہ آپ خود کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

سٹوڈیو میں دونوں کو بٹھا دیا گیا۔ میں کنٹرول روم سے کیمرا اینگل وغیرہ درست کروا رہا تھا، سب کو سٹیند بائی کیا، اتنے میں کنٹرول روم کا دروازہ کھلا، میرے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ اور یونیورسٹی کے ایگزیٹو ڈائریکٹر اندر داخل ہوئے، اور میرے پیچھے موجود صوفے پر براجمان ہو گئے۔ میں نے کنٹرول روم میں ایک خوف کی فضا محسوس کی دونوں حضرات خاصی مذہیبی طبیعت کے حامل تھے، دراصل نجی شعبے میں شائد ہی کوئی جامعہ اس قدر اسلامائیزڈ ہوگی جسقدر ہماری یونیورسٹی تھی۔
میں نے سوالیہ انداز سے اپنے ڈیپارٹمنٹ ہیڈ کی جانب دیکھا۔ انہوں نے پروگرام شروع کرنے کا اشارہ دیا، میں سوچر پر موجود اپنی انگلیوں کو حرکت میں لایا۔

پروگرام خوش اسلوبی سے مکمل ہوگیا، مہمان اور اینکر نے خوبصورتی سے پروگرام کا اختتام کیا۔ دونوں حضرات خاموشی سے میرے پیچھے سے اٹھ کر چل دئیے۔ مگر کمرے میں موجود پچھلے پندرہ منٹ کی حدت اپنی جگہ قائم رہی۔ کسی نے کچھ نہ کہا، لیکن ایک احساس تھا ایک خوف کی فضہ تھی جو قائم رہی۔

اسی یونیورسٹی میں ہمارے ایک استاد ہوا کرتے تھے، ان سے جو کچھ سکھا اس نے زندگی بدل دی، محبت کرنا، انسانیت سے پیار، جانوروں سے لگاو، سیاست، علم دوستی، کتاب بینی اور نہ جانے کیا کیا، ہم اکثر انکے کمرے میں جا کر گھنٹوں مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے۔

ایک دن سننے میں آیا کہ انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے، یہ خبر ہضم نہ ہو پائی تھی کہ ان کے نکالنے کی وجہ بجلی بن کر گری, جس شخص نے مجھے gT.B Irvin کی کتاب Selections from ‌Noble Readings of Quran تحفے میں دی تھی، اسی شخص پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا، یہ وہ الزام تھا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی اس استاد کے حوالے سے نہیں آ سکتا تھا۔

انہوں نے یونیورسٹی کی ڈسپلنیری کمیٹی کے سامنے اپنے اوپر لگے الزام کا کامیابی سے دفاع کیا۔ مگر توہین کا الزام اس ملک میں کسی کو دفاع کا موقع دے بھی تو داغ دھلتا ہی کہاں ہے، ڈسپلنری کمیٹی نے تسلیم تو کرلیا کہ یہ الزام غلط تھا مگر ساتھ یہ بھی واضح کردیا کے انہیں نوکری پر دوبارہ بحال نہیں کیا جائے گا۔ جس شخص نے الزام لگایا وہ آج بھی اسی یونیورسٹی میں ملازم ہے۔

جنید حفیظ پر لگنے والے الزام سے انکے وکیل کے قتل تک اور مشال کے بہیمانہ قتل سے لیکر اسکی یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں مشال کو مورد الزام ٹھہرانے تک جامعات میں ہونے والی سیاست، جامعات میں موجود خوف کی فضا جامعات میں تحقیق کے مواقعوں کی کمی سب گڈ مڈ نظر اتا ہے۔

دنیا اپنی تحقیق سے ستاروں پر کمند ڈالتی پھر رہی ہے اور ہم آج بھی بھوکے درندوں کی طرح توہین کے الزام زدہ لوگوں کو چیرنے پھارنے کے لیے گلی گلی گھوم رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے