ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ اور غلط فہمیاں

پاکستان اور ایران کا باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں تعاون بڑھانے کا عزم نہ صرف دونوں ملکوں کے استحکام، ترقی اور خوشحالی کی ضرورت ہے بلکہ مسلم امہ کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی بھی واحد صورت ہے۔ دونوں ممالک کی سرحدیں ہی ایک دوسرے سے نہیں ملتیں بلکہ عوام کے دل بھی ملے ہوئے ہیں اس لئے جب دشمن قوتوں کی طرف سے ان ملکوں کے باہمی تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی سازشیں اور ایسی عملی کارروائیاں سامنے آتی ہیں جن سے تہران اور اسلام آباد اپنے برادرانہ رشتوں پر ناز کرنے کے باوجود ایک دوسرے سے ملنے والی سرحدوں کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگیں تو اس بات کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ باہمی رابطوں کے ذریعے معاملات کی حقیقی صورتحال کو سمجھا جائے اور ایسے موثر اقدامات یقینی بنائے جائیں جن کی موجودگی میں دشمن قوتوں کے لئے اپنے مذموم مقاصد پر عملدرآمد ممکن نہ رہے۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا 12رکنی اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی سمجھا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں خطے کی صورتحال، سرحدی معاملات اور دیگر امور پر غور کیا گیا۔ پاک ایران سرحد کو دہشت گردوں ، اسمگلروں اور جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ بنانے سمیت اہم فیصلوں پر اتفاق رائے کے بعد دونوں حکومتوں، سیکورٹی فورسز اور عوام پر زیادہ چوکنا رہنے کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ اسٹرٹیجک تبدیلیوں کی عالمی صورتحال میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسوں سے نقصانات کا ہدف بنے رہنے والے عالم اسلام کی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔مسلم ریاستیں بیرونی فوجی مداخلت کے بعد طفیلی کردار کی حامل بن کر رہ گئیں، مشرق وسطیٰ کے حالات ابتر ہیں، شام اور یمن سمیت کئی ملکوں میں برسوں سے بہنے والے خون کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا۔ دوسری طرف بیرونی مداخلت کے ذریعے مسلم دنیا کے ملکوں کو مجموعی طور پر بھی اور انفرادی حیثیت میں بھی فرقوں، نسلوں اور دیگر عصبیتوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا ہے۔

ترکی، ایران، پاکستان اور سعودی عرب سمیت اسلامی دنیا کا ہر اہم ملک غیر معمولی مسائل کی دلدل میں دھنسا نظر آرہا ہے۔ ایران اور پاکستان مسلم دنیا کے اہم قلعے ہیں اور ان کے باہمی تعلقات کی جڑیں خاصی گہری ہیں۔ ایران وہ ملک ہے جس نے 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت سب سے پہلے اسے تسلیم کیا اور مشکل حالات میں اس کا ساتھ دیا جبکہ پاکستان نے بھی معاشی پابندیوں کے دور سمیت ہر بحران میں تہران سے دوستی کے تقاضے نبھائے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ایران پر حملے کے لئے پاکستان نے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دے کر عالم اسلام کو بڑے خلفشار سے بچانے کی جو قیمت ادا کی سو کی، مگر اس کے ساتھ ہی تہران اور اسلام آباد کے تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کی منظم کوششیں بھی سامنے آئیں۔ اس لئے ایرانی وزیر خارجہ کے ایک روزہ دورے میں مضبوط ثقافتی و تاریخی رشتوں سے منسلک دونوں ملکوں کے رہنمائوں نے اپنے اپنے عوام کی طرف سے گرمجوشی کے جذبات کا اعادہ کرتے ہوئے درست طور پر نشاندہی کی کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ باہمی اور مسلم دنیا کو درپیش چیلنجوں پر قابو پانے کے لئے مل کر کام کریں۔ ایران کے صوبہ سیستان میں 10سرحدی محافظوں کے ساتھ رونما ہونے والے واقعہ جیسے المیوں کو روکنے کے لئے پاک ایران سرحدی سیکورٹی فورسز کے لئے ہاٹ لائن بحال کرنے اور آپریشنل کمیٹیاں بنانے کے لئے فیصلے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ جبکہ تجارت و معیشت کا حجم بڑھانے کی کوششیں بڑھانے سمیت باہمی تعاون پر بھی خاص توجہ دی جائے گی۔

ایرانی وزیرخارجہ کے اس دورے کی افادیت ان کے اس تبصرے سے واضح ہے جس میں دورے کو تعمیری قرار دیا گیا ہے جبکہ چوہدری نثار کے الفاظ میں ’’یہ دورہ ایک مضبوط پیغام ہے ان عناصر کے لئے جو پاکستان اور ایران کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے