رب کا شکر اد ا کر بھائی

کئی نسلوں کو اردو زبان اور تہذیب سکھانے والے علم و حکمت کے بہت بڑے محسن اسماعیل میرٹھی نے یہی کوئی سو ا سو برس پہلے اپنی ایک یاد رہ جانے والی نظم میں رب کا شکر ادا کیا تھا کہ اس بھولی بھالی، سیدھی سادی گائے کی شکل میں رب نے ہمیں کیسی کیسی نعمتیں عطا کی ہیں۔ اُسی نے ہمیں دودھ کی دھاریں پلائیں۔ کل اس نے بن میں جو گھاس چری تھی وہ گائے کے تھن میں دودھ بن گئی اور دودھ بھی کیسا۔تازہ گرم، سفید اور میٹھا۔ پھر یہ کہ دودھ، دہی، مٹھا اور مسکا، خدا نہ دے تو کس کے بس کا۔ اور یہ کہ رب نے گائے کو کیا اچھی صورت دی ہے کہ وہ بھی مورت جیسی نظر آئے۔ ایسی سیدھی کہ کھانے کو دانہ دنکا ملے یا بھوسی یا چوکر، وہ کھالیتی ہے سب خوش ہوکر۔ غرض یہ کہ گائے ہمارے حق میں ہے نعمت، دودھ ہے دیتی کھا کے بنسپت۔ (بانس اور پتّے کا چارہ۔ ویجیٹیبل۔ یہی لفظ بگڑ کر بناسپتی ہو گیا)۔ کتنے ہی مدرسوں اور اسکولوں میں گائی جانے والی یہ نظم اس شعر پر ختم ہوتی ہے کہ :رب کی حمد و ثنا کر بھائی جس نے ایسی گائے بنائی

انیسویں صدی کے آخری برسوں میں یہ نظم لکھتے ہوئے یہ بات مولانا محمد اسماعیل میرٹھی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگی کہ رب کی اسی نعمت کے نام پر کبھی ظلم کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ انسانیت بھی شرم سے سر جھکا دے گی۔ خبروں پر نگاہ رکھنے والوں کو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کی سیاست میں جب سے ہندو عقیدے نے کڑا رویہ اختیار کیا ہے اور گائے کو مقدس جانور مانتے ہوئے اس کو ذبح کرنا بھاری جرم قرار پایا ہے۔ یہ تورہا ایک طرف، گائے کو کار کی ذرا سی ٹکّر بھی لگ جائے تو کار چلانے والےکی زندگی کا یہ آخری حادثہ ٹھہرتا ہے۔ خبروں میں ان واقعات کی بڑی تفصیل سننے میں آئی ہے کہ کوئی شخص مویشی میلے سے گائے خرید کر لے جارہا تھا، بپھرے ہوئے مجمع نے یہ اعلان کر کے کہ یہ شخص گئو ماتا کو بھون کر کھا جائے گا، اس شخض کو مار مار کر ہلاک کردیا۔ اسی طرح ریاست بہار میں، جو اپنے جرائم پیشہ لوگوں کی وجہ سے مشہور ہے، ایک بے قابو مجمع نے دو نوخیز لڑکوں کو گائے کشی کا الزام لگا کر اس وقت تک مارا جب تک وہ مر نہیں گئے۔ایسے ایسے نہیں معلوم کتنے واقعات ہورہے ہوں گے جن پر نگاہ رکھنا اور جنہیں شمار کرنا مشکل ہے۔

دنیا کی یہ چال سمجھ میں نہیں آتی۔ انسان ایک جانب آسمان کو چھو رہا ہے اور خلا میں ایسے ایسے راکٹ چھوڑ رہا ہے کہ ایک ایک راکٹ سوا سو،ڈیڑھ سو سیارچے زمین کے مدار میں پہنچا رہا ہے۔دوسر ی جانب وہی انسان اپنے اس عقیدے پر اڑا ہوا ہے کہ ہماری زمین کو گائے نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھا ہے۔ جب کبھی وہ سینگ بدلتی ہے تو بھونچال آتاہے۔ پس اس سے ثابت ہو ا کہ گائے نہایت مقدس او ر متبرک مخلوق ہے اور یہ بات کہتے ہوئے وہ منظر یاد آتا ہے کہ دلّی کی ایک سڑک کے بیچوں بیچ ایک نیند میں ڈوبی ہوئی گئو ماتا دنیا زمانے سے بے خبر پسر گئی تھی۔ اس کی وجہ سے ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی۔ لوگ گائے کو اٹھانے اور راہ سے ہٹانے کے سو سو جتن کر چکے تھے۔اتنے میں سائیکل رکشہ پر سوار ایک پنڈت جی ادھر سے گزرے۔ وہ رکشہ رکوا کر نیچے اترے،خیال تھا کہ گائے کے کان میں کوئی ایسا منتر پڑھیں گے کہ وہ شرافت سے اٹھ کر ایک طرف ہو جائے گی۔لیکن پنڈت جی نے ایک اور ہی چمتکار دکھایا اور گائے کی دم کو اٹھا کر اپنے دونوںرخساروں پر پھیرااور اسے پرنام کرکے دوبارہ رکشہ میں بیٹھے اور یہ جا،وہ جا۔

مجھے ہندو مذہب او رعقیدے پر وہ چھوٹی سی کتاب یاد ہے جس میں لکھا تھا کہ اس عقیدے میں گائے کا گوشت کھانے پر کوئی پابندی نہیں تھی بلکہ جب کبھی کوئی خاص مہمان آتا تو اس کے اعزاز میں بڑے اہتمام سے گائے کاٹی جاتی تھی۔ پھر نہ جانے کہاں سے یہ تازہ قہر نازل ہوا کہ گائے کو بچانے کے نام پر انسان کو قتل کر رہے ہیں۔ گائے کی حفاظت کے نام پر ایک الگ پولیس فورس جیسی فوج کھڑی کردی ہے جس کا کام یہ ہے کہ جہاں کہیں گائے ذبح ہونے کا شبہ بھی ہو، جاکر چھاپہ مارے اور گائے کی بے حرمتی کرنے والوں کو ہتھکڑیاں ڈال کر لے آئے۔ اس کے بعد یہ ہوا ہے کہ کیسا ہی اور کسی بھی مخلوق کا گوشت ہو، یہ گئو رکشا سپاہ لوگوں کو اٹھا اٹھا کر لے جارہی ہے۔ بولی وڈ کی ایک سرکردہ اداکارہ نے گوشت کھایا، اس پر جھٹ یہ الزام دھر دیا گیا کہ اس نے گائے کھائی ہے۔ اب وہ لاکھ سمجھا رہی ہے کہ وہ بھینس کاگوشت تھا مگر پولیس والوں کے ہاتھ موٹی اسامی لگی ہے، وہ خوش ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے گائے کا گوشت ویسے ہی ترک کردیا تھا۔ اب ہندوستان میں عام طور پر بھینس ذبح ہورہی تھی۔ لیکن ایسے گوشت کو عام زبان میں بڑا گوشت کہا جاتا ہے اور اب بڑے گوشت سے مراد وہ گوشت ہے جسے سخت گیر جنونی کھلے عام گائے قرار دے رہے ہیں۔ اچھے دنوں میں لوگ کھیتوں کو اجاڑنے والا وہ چوپایہ مار لاتے تھے جسے نیل گائے کہا جاتا ہے۔ ہندو اس پر بھی بھڑک اٹھے کیونکہ اس کے نام میں گائے لگا ہوا ہے۔ انہیں لاکھ سمجھایا گیا کہ یہ چوپایہ گھوڑے کی نسل سے ہے اوراس کی گائے سے دور کی بھی رشتہ داری نہیں لیکن جب لوگوں کی آنکھوں میں خون اتر آئے تو ان کے کان کے پردے پھٹ جاتے ہیں اور عقل کے کواڑ بند ہو جاتے ہیں، چاہے وہ ریاست بہار کے پاگل ہوں، چاہے صوبہ پختون خوا کے دیوانے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے