اسلام کا کوئی متبادل بیانیہ نہیں

گزشتہ دنوں سیکولر طبقے کی طرف سے اسلام کے متبادل بیانئے کا شور اُٹھا لیکن عملی طور پر کوئی بیانیہ سامنے نہیں آ سکا۔۔۔ کیوں؟ اس لیے کہ اسلام کا متبادل بیانیہ ہے ہی نہیں ، اسلام مکمل ہے۔ ہاں وقت کے ساتھ ساتھ نظام تبدیل ہوتا رہے گا کیونکہ نظام کا مطلب ہی یہ ہے کہ زمان و مکان کے ساتھ تبدیل ہو۔نظام کی تبدیلی کی گنجائش کو اسلام کا متبادل بیانیہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا ۔

اسلام کے متبادل بیانئے کے تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ مولویوں سے منبر و محراب لے کر ریاست کے حوالے کیا جائے۔ ریاست جو طے کرے منبر سے وہی سنایا جائے۔لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن لوگوں کو وہ ریاست کے ماتحت کرنے کے قیمتی مشورے دے رہے ہیں ریاست ان کے ساتھ کیا تعاون کرے گی، ریاست انہیں کیا معاوضہ دے گی یا یونہی’’ سابقہ مجاہدین اور موجودہ دہشت گردوں‘‘ کو ان کے حال پر چھوڑ دے گی؟ یاد رہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں سب سے زیادہ تنخواہیں مؤذن اور امام مسجد کی ہوا کرتی تھیں اور آج اس طبقہ کی تنخواہیں کتنی ہیں۔۔۔؟

مولوی کو ملامت کرنے کے در پردہ یہ سیکولر اسلام کی مخالفت کرتے ہیں ، مسلم معاشرے میں رہنے کی وجہ سے کھل کر اسلام کی مخالفت تو کر نہیں سکتے،اس لئے مولوی کی کمزرویوں کو لوگوں کے سامنے پیش کر کے اسلام کی مخالفت کرتے ہیں اور لوگوں کو باور کرانے میں اپنے تئیں کامیاب دکھائی دیتے ہیں کہ اگر مذہبی جنونی لوگوں کو اقتدار مل گیا تو زمین پر فساد پھیل جائے گا ،سو اس تناظر میں یہ سیکولر دراصل لوگوں کو مذہب سے دور لے جاتے ہیں اور مذہب کے بجائے عقل پر اکتفاء کرنے کو ہی اصل کامیابی تصور کرتے ہیں ۔یہی وہ سوچ ہے جو لوگوں کو لامذہبیت کی طرف جاتی ہے اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کی ضرورت و اہمیت کا جائزہ لیا جائے۔

زندگی میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں کہ جب ایک منکر خدا بھی مذہب و خدا کی ضرورت محسوس کیے بغیر رہ نہیں سکتا‘ حتیٰ کہ مشہور سوشلسٹ پنڈت جواہر لعل نہرو کو بھی کہنا پڑا:

’’جب مجھے کوئی انتہائی مشکل مسئلہ پریشان کرتا ہے اور میرا دماغ ساتھ چھوڑ دیتا ہے تو میں مندر جاتا ہوں اور مورتی کے سامنے جھکتا ہوں اور آنسو بہاتا ہوں اور میری پریشانی ختم ہو جاتی ہے۔‘‘

پلوٹارک کا کہنا ہے:

’’کسی انسان نے ایسی کوئی بستی نہیں دیکھی جس میں کوئی مذہب نہ ہو۔‘‘

خالقِ کائنات نے انسان کی مادی و جسمانی ضروریات کے لیے وسائل عطا فرمائے تو روحانی ضروریات کے لیے انبیاء بھیجنے کا اہتمام فرما کر انسان کو تنہا نہیں چھوڑا۔ یوں دین و مذہب انسان کی اولین اور اہم ترین ضرورت ہے۔ اس کی شہادت اس امر سے بھی ملتی ہے کہ تاریخ انسانی میں کوئی معاشرہ ‘ کوئی تمدن اور کوئی قوم ایسی نہیں گزری جو مذہب سے کلیتاًبے نیاز رہی ہو۔

اب یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیکولر کیسے لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں،سیکولرازم ابتداء میں ایک تنقیدی شکل میں سامنے آتا ہے جس کا ہدف کسی معاشرے کی قدامت اور اس کی پرانی روایات ہوتی ہیں اور یہ سب کھیل ترقی اور جدیدیت کے نام پر ہوتا ہے۔ پھر دوسرے مرحلے میں یہ قدروں پر حملہ آور ہوتا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ لڑکھڑانے لگتا ہے۔ اولین شکار عقائد اور ایمانیات کا وہ مجموعہ ہوتا ہے جو ہر طاغوتی حملہ کے خلاف حیات انسانی کا واحد سہارا ہوتا ہے۔ سیکولر سوچ کے حامل افراد یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ سیکولرازم کو تبھی فروغ مل سکتا ہے جب ملک و قوم کی مذہبی شناخت ختم کردی جائے۔ تیسرے مرحلے میں اپنے مخالف کے خلاف ان کا رویہ جارحانہ ہوتا ہے۔ آپ ایسے افراد سے کیا مکالمہ کریں گے کہ جن کی حد تخیل یہ ہو کہ وہ ترقی کے لیے تمام تر مثالیں یورپی مخلوق کی دیں۔ بلکہ یورپی فضا میں چلنے والے حشرات الارض کے بھی فوائد انگلیوں پر گنوائیں۔

عالم اسلام میں پائے جانے والے مغربی افکار کے ’’مقلدین‘‘ جو آج کل ’’لبرل‘‘ کہلاتے ہیں مغربی افکار میں سے صرف باطل نظریات ہی درآمد کرنے پر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خود مغرب نے ایسے باطل نظریات اس گمان پر اختیار کیے تھے جو اس کے خیال میں مغرب میں پائے جانے والے خلفشار کا حل ثابت ہوں گے۔ عالم اسلام کے اپنے حالات ہیں مغرب سے سراسر مختلف۔ یہاں وہ مغرب والے حالات نہیں ہیں ‘ یہاں کا ماحول بھی ان افکار کے لیے قطعاً سازگار نہیں ہے۔ یہاں بھی انہی افکار اور نظریات کی پیوند کیوں؟

مثال کے طور پر سیاست کو مذہب سے بے دخل کرنے کا فلسفہ جو سیکولرازم کہلاتا ہے ، مغرب کو اس نظریے کی ضرورت اس لیے پڑی تھی کہ مغرب میں پائی جانے والی تھیوکریسی ( مذہبی شخصیات کی اجارہ داری) جنگ و جدال کا باعث بن رہی تھی۔ پادریوں کی بلاوجہ پابندیوں ‘ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی لڑائیوں سے زندگی اجیرن تھی ۔ جب کہ مسلمانوں کے ہاں ایسا کچھ نہیں ۔ یہاں اول تو اسلامسٹوں کو اقدار ملا ہی نہیں اور ماضی میں جو اسلامسٹوں کو اقتدار ملا تو اس میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو زبردستی تبدیل مذہب کی مثال نہیں ملتی۔ مذکورہ بالا سطور کے مطالعہ کے بعد یہ سوال پیداہوتا ہے کہ اسلام کے ہوتے ہوئے ہمارے یہاں سیکولرازم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

سیکولر حضرات عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ ’’سیکولرازم مذہب کا مخالف نہیں‘‘ وہ صرف ریاستی اُمور سے مذہب کو دور رکھنا چاہتا ہے۔‘‘ یہ مؤقف بظاہر ان لوگوں کو اپیل کرتا ہے ‘ جو نہ مذہب کو اچھی طرح جانتے ہیں اور نہ سیکولرازم کو۔ ان کا مذکورہ نعرہ حقیقت میں محض مکروفریب کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ:

اگر مذہب اجتماعی اُمور سے لاتعلق نہ ہو اور انسانوں کے لیے اپنے اندر ہدایت رکھتا ہو تو کیا آپ پھر بھی اسے اجتماعی اُمور سے دور رکھیں گے اور اگر رکھیں گے تو کیوں؟

اسی طرح یہ کہنا کہ ہم مذہب کے مخالف نہیں بلکہ اسے ریاستی اُمور سے دور رکھنا چاہتے ہیں، کا مطلب یہ ہوا کہ مذہب ریاستی اُمور کی تنظیم و انصرام اور اصلاح کرنا چاہتا ہے مگر آپ اسے روکنا چاہتے ہیں‘ اگر ایسی صورت ہے تو آپ کیوں روکنا چاہتے ہیں اور یہ حق آپ کو کس نے دیا ہے؟ کیا آپ کی نظر میں یہ فرسودہ ہے ؟

اگر اسلام ان تمام شرائط پرپورااترتا ہے اور مسلمانوں کی اں کے تمام معاملات میں صحیح معنوں میں رہنمائی کرتا اور سہولت دیتا ہے تومسلمان اپنے دنیاوی معاملات سے اسے لاتعلق کیوں رکھیں؟

سیکولر حضرات مذہب اور مذہب پسندوں کو ترقی کا دشمن سمجھتے ہیں ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ خود ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ یونیورسٹیز ‘کالجز اور دوسرے سارے سائنسی ادارے مولوی نہیں بلکہ تمہارے حوالے کیے ہوئے ہیں ، اگر پاکستان میں ان اداروں سے فائدہ نہیں ہو رہا تو اس کا ذمہ دار مولوی کیسے ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے