پاکستانی صحافیوں کا دورہ کابل (دوسرا حصہ)

[pullquote]پاکستان ہاوس [/pullquote]

آج کابل میں دوسرا دن ہے جس میں دو تین اہم ملاقاتیں اور تفصیلی تبادلہ خیال ہوا لیکن سلسلہ کلام وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں سے کل ٹوٹا تھا۔ پاکستان ہاوس یعنی پاکستانی سفارتخانہ میں سفارتی عملے سے ملاقات کا احوال۔ میزبان افغانستان میں پاکستان کے قائم مقام سفیر شہباز حسین تھے. شہباز حسین نوجوان اور بہادر افسر جنھیں لیبیا وار کے دوران پھنسے پاکستانیوں کو بحفاظت وطن واپس پہنچانے کے عمل کے دوران بہترین کارکردگی کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے نواز گیا ہے۔ شہباز حسین کابل میں پاکستانی سفیر سید ابرارحسین کے اسلام آباد تبادلے کے بعد سفارتخانے کے امور دیکھ رہے ہیں اور ایسے وقت میں جب دونوں دوست ممالک کے تعلقات میں تناو ہے وہ یہاں کے سخت ماحول میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بات ہو رہی تھی پاکستان ہاوس کی تو یہ ایک تاریخی اور خوبصورت عمارت ہے جسے 1926 میں برطانوی راج میں ہندوستان کے سفارتخانے کے طور پر بنایا گیا جو 1947 میں پاکستان کے حصے میں آئی۔۔ 1995 96 میں ہزاروں شرپسند عناصر نے پاکستانی سفارتخانے پر حملہ کیا اور پوری عمارت کو تباہ و برباد کر دیا۔۔ اس حملے میں اس وقت کے پاکستانی سفیر سمیت کئی افراد زخمی اور کچھ شہید ہوئے تھے۔ بعد ازاں پاکستان نے اس کو نئے سرے سے تعمیر کیا اور اسے اصلی حالت میں واپس لایا گیا۔۔ ایمبیسی ایک وسیع و عریض رقبے پر واقعہ ہے جس میں وقت کیساتھ ضروریات کے مطابق نئی عمارات بھی تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ اس تاریخی عمارت میں کسی زمانے میں بیرونی حملے کی صورت میں نکلنے کے لئے خفیہ سرنگ بھی ہوتی تھی لیکن وہ بھی حادثات زمانہ کا شکار ہو کر بے نام و نشان ہو گئی ہے البتہ کلاک ٹاور کو اس کی اصلی شکل میں واپس لایا جا سکتا ہے۔ عمارت کے اندر آئی آئی چندریگر سے لیکر سید ابرار حسین تک تمام پاکستانی سفراء کی تصاویر موجود ہیں جبکہ پاکستانی ثقافت کی عکاسی کرتے فن پارے بھی دیواروں کی زینت بنائے گئے ہیں۔

[pullquote]پاک افغان تعلقات [/pullquote]

کہنے کو تو ہمیشہ کہا اور سنا جاتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخی، دوستانہ برادرانہ اور اچھے ہمسائے جیسے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تعلقات طالبان حکومت کا ایک محدود عرصے کے علاوہ ہمیشہ ہی سے تناو کا شکار رہے ہیں بلکہ ایک بار تو افغانستان پاکستان پر جنگ بھی مسلط کر چکا ہے۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے سے بہت زیادہ لگاو رکھتے ہیں اور اس کی وجہ شائد یہ بھی ہے کہ کم و بیش پچاس لاکھ افغان مہاجرین نے چالیس سال پاکستان میں گزارے ہیں اور وہ افغانستان سے زیادہ پاکستان کے شہروں، گلیوں بازاروں، سیاحتی مقامات، تعلیمی اداروں بارے معلومات رکھتے ہیں۔ اس وقت بھی افغانستان کے سرکاری ملازمین میں 40 ہزار سے زائد ملازمین پاکستان کے سکول کالجز اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ ہزاروں افغان شہری روزانہ پاکستان کا سفر کرتے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان میں جلال آباد، لوگر اور کابل 100 200 اور 400 بیڈز کے اسپتال قائم کیے ہیں۔ ایک موٹروے سمیت کئی بڑی شاہراہوں کے منصوبے زیر غور ہیں۔ اس سال بھی تین ہزار افغان طلباء کو اسکالرشپ دی جا رہی ہیں اس کے باوجود کابل میں پاکستان کے حق میں بات کرنے والوں کو این ڈی ایس غائب کر رہی ہے، پاکستانی سفارتخانے جانے والوں کو اچانک لاپتہ کرکے ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے، پاکستانی سفارتکاروں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ افغانستان کی تعمیرنو میں حصہ ڈالنے اور مزدوری کیلیے آنے والے ہزاروں پاکستانی مزدوروں کو غائب کر دیا گیا اور سینکڑوں مزدوروں کو دہشتگردی کے الزام میں سترہ سترہ سال تک کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

[pullquote]تیسرا ہاتھ[/pullquote]

پاکستانی حکام سے بات کریں یا افغان صحافیوں سے، افغان سیاستدانوں سے بات کی جائے یا پھر وزراء سے سب کی باتوں میں جو ایک بات مشترک ہے وہ "تیسرا ہاتھ” ہے۔ پاکستان بھارت کو تیسرا ہاتھ سمجھتا ہے تو افغانی اس سے انکار بھی نہیں کرتے، افغان سیاستدان سمجھتے ہیں دونوں ممالک کی سیاسی و عسکری قیادت کی کچھ غلطیوں کی وجہ کی تیسری قوت کو اپنا کام دکھانے کا موقع ملا ہے۔ افغان حکومت حقانی گروپ اور کوئٹہ شوری کو تیسرا ہاتھ سمجھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے بھارتی سرمایہ کاری نے افغانستان میں پاکستان مخالف سوچ کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھارت افغانستان میں جہاں ترقیاتی منصوبے بنا کر دے رہا ہے وہیں افغانستان کی وزارتوں میں سینکڑوں بھارتی بطور کنسلٹنٹ کام کرتے ہیں اور افغانستان کی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں۔ بیشتر افغان صحافیوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی جانب سے سرحد کی بندش نے عام افغان شہری کا پاکستان کے بارے میں نکتہ نظر بدلا ہے جبکہ سرحد کی بندش کی صورت میں بھارت نے افغان تجارتی اشیاء کو ہوائی راستے دیگر ممالک تک پہنچایا۔۔ افغان مہاجرین کے ساتھ پیش آنے والے چند ایک واقعات کو بنیاد بنا کر بھی خوب پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک خیال یہ بھی ہے کہ افغان قیادت جن میں انتہائی اعلی سطح کے لوگ بھی شامل ہیں وہ کسی بھی طریقے سے حالات خراب رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے مالی مفادات وابستہ ہیں۔ چمن واقعہ کے پیچھے بھی اسی تیسرے ہاتھ کا اشارہ مل رہا ہے کہ جو پاک افغان تعلقات کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ ورنہ یہ کیونکر ممکن تھا کہ دونوں ممالک کے تمام اداروں کے درمیان رابطوں کے بعد آنے والی مردم شماری کی ٹیم پر حملے کا فیصلہ ایک آئی جی پی کرتا۔۔

[pullquote]افغان ڈپٹی وزیر اطلاعات سے ملاقات [/pullquote]

اوپر بیان کی گئی تمام باتیں ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارا وفد افغان ڈپٹی وزیر اطلاعات سید آغا حسین سے ملاقات کے لئے پہنچا۔ افغان حکومت کے نائب ترجمان نے خیر مقدمی کلمات کہے اور سوالات کے جواب دینے کی حامی بھری لیکن پہلے ہی سوال کے جواب میں انھوں نے پاکستان سے اتنی شکایات کیں کہ جنھیں سن کر یہ یقین کرنا ہی مشکل ہو رہا تھا مجبورا ان سے کہنا پڑا کہ حضور پاکستان کا کسی سیاستدان، وزارت خارجہ یا وزارت دفاع نے کبھی افغان مخالف بیان نہیں دیا ہمیشہ امن استحکام بھائی چارے اور مسائل کے حل کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے پر زور دیا ہے جبکہ پاکستان میں ہونے والے دہشتگردی کے بڑے واقعات جن میں اے پی ایس بھی شامل ہے کے اصل کردار اور ماسٹر مائنڈز افغانستان میں بیٹھے ہیں، میرے دوست انعام اللہ خٹک نے بہت اچھی بات کی کہ ہم کابل سے اچھی خبر لیکر جانا چاہتے ہیں جس پر ڈپٹی وزیر اطلاعات نے ایک تو کہا یہ حامی بھری کہ اگر پاکستان ثبوت دے تو وہ کاروائی کیلئے تیار ہیں حالانکہ ثوبت دیے جا چکے ہیں تو دوسرے انھوں نے پاکستان میں گزرے اپنے وقت کو خوشگوار، پاکستانی عوام کو کھلے دل کے میزبان قراردیتے ہوئے یادوں کو تازہ کیا اور اپنی تلخ باتوں کی تلخی کم کرنے کی کوشش کی اور ملاقات کا اختتام بہرحال خوشگوار انداز میں ہوا۔

[pullquote]صحافتی تبادلہ خیال [/pullquote]

گزشتہ دو دنوں میں سب سے زیادہ ملاقاتیں، گپ شپ اور رابطے افغان صحافیوں سے ہوئے ہیں گزشتہ روز نائی انسٹی ٹیوٹ اور آریانہ ٹی وی کا دورہ کیا تھا تو آج کے دن شمشاد ٹی وی کا دورہ کیا۔ اس دوران افغان میڈیا کی صورتحال، موجودہ حالات میں افغان میڈیا کے کردار اور عوامی ذہن سازی پر کھل کر بات چیت ہوئی۔ دو دنوں کے اس رابطے میں ایک بات کھل کر سامنے آئی کہ بیشتر افغان صحافی یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان اور افغانستان دو ایسے ہمسائے اور بھائی ہیں جو ایک دوسرے سے کبھی الگ نہیں ہوسکتے۔ اس کے باوجود ٹی وی پر آ کر سچ بولنے کی طاقت نہیں رکھتے انھیں بھی اسی بات کو خوف جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر بدگمان ہو چکے ہیں اور اپنا بچپن اور جوانی پاکستان میں گزارنے، پشاور، ڈی آئی خان اور پنڈی کی گلیوں سے انسیت رکھنے اور اپنے پاکستانی دوستوں کی محبت کو یاد کرنے کے باوجود پاکستان نہیں آنا چاہتے۔

[pullquote]حل کیا ہے؟ [/pullquote]

سیاستدان ہوں، عوام یا صحافی ان کا تعلق پاکستان سے ہو یا افغانستان سے سبھی یہ چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آ جائیں اور باہمی اختلافات کو مذاکرات کی میز پر ہی حل کیا جائے لیکن اس کے راستے میں رکاوٹ افغان حکومت کی ہٹ دھرمی ہے جو اس وقت ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے جو مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جائیں گے اور اس مشکل وقت کا سہارا بھی پاکستان ہی کو بننا پڑے گا کیونکہ بڑا بھائی ہی قربانی دے سکتا ہے کوئی دشمن نہیں

پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاںکلک کریں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے