مجھے ”نیا قانون” یاد آیا

اسلام آباد کلب سے متعلق اس تصویر کو دیکھ کر لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا اس نوعیت کے کلب نوآبادیاتی دور میں انگریز اشرافیہ کی تفریح اور مشاغل کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ان کلبوں میں مقامی لوگوں اور کتوں کا داخلہ ممنوع تھا

آزادی کے بعد خان صاحب لارڈ صاحب سول اور فوجی بیوروکریٹس نے انگریز کے بنائے ہوئے قوانین عوام پر نافذ کردیے اربوں روپوں کی قیمتی سرکاری اراضی ان کلبوں کے نام لیز کردی گئی بلحاظ عہدہ اعلی سول اور فوجی بیوروکریٹس ان کلبوں کے سرپرست بن گئے سرکاری وسائل کے بےدریغ استعمال اور سولین ممبران کے لئے بھاری ممبر شپ فیس سے ان کلبوں کی آمدن میں اضافہ ہوا ۔

گھڑسواری سوئمنگ پول اور گالف کلب میں ہماری اشرافیہ کے شب و روز بسر ہونے لگے سارا دن گالف کھیلنے والے افسران کا بھاری سامان اٹھانے والے نوکر ان کلبوں میں کھانا نہیں کھاسکتے ، ہماری اشرافیہ کے پاس عوام کے مسائل کے حل کے لیے دفاتر میں بیٹھنے کا وقت نہیں لیکن ان کلبوں میں بسر کرنے کا بہت وقت ہے

اور مجھے ہماری اشرافیہ کی تفریح طبع کے لئے بنائے گئے کلبوں پر کوئی اعتراض نہیں صرف اعتراض یہ ہے کہ سرکاری وسائل اور قیمتی اراضی کے مستحق اشرافیہ کے ان کلبوں کے بجائے غریب عوام کے سرکاری ہسپتال اور سکول ہیں جو بنیادی ضروریات سے ہی محروم ہیں اور مجھے اسلام آباد کلب کی یہ تصویر دیکھ کر منٹو کا افسانہ ”نیا قانون” بھی یاد آیا جس کے کردار منگو کوچوان کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ اب آزادی کے بعد انگریزوں کے بنائے ہوے قوانین سے جان چھوٹ جائے گی اور پاکستان میں نیا قانون نافذ ہوگا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے