نواز شریف کو آخر مسئلہ کیا ہے

شریف خاندان کی سیاست کا بیج جی ایچ کیو گملوں میں بویا گیا تھا ، کونپلیں پھوٹیں اور جی ایچ کیو نے اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری کی۔ جنرل ضیاء الحق نے اس نئے نئے پودے کو تناور درخت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ ان کی موت کے بعد جنرل اسلم بیگ فوج کے سربراہ بنے ، میاں برادران کے تعلقات فوج کے ساتھ سازگار رہے، جی ایچ کیو کے گملوں میں سیاسی بلوغت حاصل کرنے والے میاں نواز شریف کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھیں ان کے ادوار حکومت میں جتنے بھی آرمی چیف آئے ان کے ساتھ میاں نواز شریف کے تعلقات کشیدہ رہے ، جنرل اسلم لیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل آصف نواز آرمی چیف بنے، میاں نواز شریف کے بطور وزیراعظم ان کے ساتھ بھی سینگ پھنسائے، جنرل آصف نواز ایک موقع پر میاں نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کر کے میر بلغ شیر مزاری کو وزیراعظم بنوانا چاہتے تھے ۔ 8جنوری 1993ء کو جنرل آصف نواز ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ حکومت نے اطمینان کا سانس لیا۔

جنرل آصف نواز کی وفات کے بعد میاں نواز شریف کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل محمد اشرف کو چیف آف آرمی سٹاف بنانا چاہتے تھے ، نواز شریف کے اس وقت کے صدر غلام اسحق خان کے ساتھ تعلقات سردمہری کا شکار تھے۔غلام اسحق خان لیفٹیننٹ جنرل فرح حبیب کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے ۔ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے صدر اسحاق خان کو انگیج کیا اور آرمی چیف کا قرعہ فال عبدالوحید کاکڑ کے نام نکلا۔ نیا آرمی چیف آ گیا ، صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات کم نہیں ہوئے ، غلام اسحق خان نے 58ٹو بی کے تحت نواز حکومت کو برطرف کر دیا۔ میاں نواز شریف اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں چلے گئے ، سپریم کورٹ نے نواز حکومت کو بحال کر دیا ، صدارتی کیمپ اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے ، چیف آف آرمی سٹاف عبدالوحید کاکڑ نے مصالحتی کردار ادا کرنے کی کوشش کی مگر میاں نواز شریف نے کہا میں ڈکٹیشن لینے کا عادی نہیں پھر وقت نے دیکھا کہ نواز شریف اور غلام اسحق خان اسی ڈکٹیشن کے ساتھ گھر چلے گئے۔

جنرل عبدالوحید کاکڑ مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے تو جنرل جہانگیر کرامت چیف آف آرمی سٹاف بن گئے۔ جنرل جہانگیر کرامت ایک پڑھے لکھے نرم گفتگو والے اور فوج میں ایک دانشور کی حیثیت رکھنے والے سپہ سالار سمجھے جاتے تھے ۔ نواز شریف کے دور حکومت کے پہلے سال میں انہوں نے قانون میں ترمیم ، عدلیہ سے جھگڑا اور اس قسم کے چند ایسے اقدامات کیے جن کے باعث آرمی ہائی کمان میں اضطراب پایا جانے لگا۔ دوسری طرف کراچی میں مار دھاڑ کا آغاز ہوا اور سندھ میں بے یقینی پھیل گئی۔ نیول سٹاف کالج لاہور کے ایک فنکشن میں جنرل جہانگیر کرامت نے ایک تقریر میں ملکی حالات کو صحیح ڈگر پر چلانے کیلئے نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کے خیال کا اظہار کیا ان کی یہ بات نواز شریف کو ناگوار گزری ، نواز شریف نے مختلف لوگوں سے مشورے کے بعد یہ ذہن بنا لیا کہ اب آرمی چیف کو گھر بھیجنا ہے ۔

وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف کو بلایا اور اس حوالے سے بات کی کہ نیشنل سکیورٹی کونسل تشکیل دیئے جانے کے بارے میں آپ کا بیان اپنے فرائض کی حد سے تجاوز ہے اس پر کچھ بات چلی اور سوال و جواب ہوئے تو جنرل جہانگیر کرامت نے محسوس کیا کہ وزیراعظم بضد ہیں کہ ان سے استعفیٰ لیا جائے جہانگیر کرامت کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ باقی تھے یہ بات عسکری حلقوں میں پسند نہیں کی گئی کچھ کمانڈروں نے سپہ سالار کو کہا کہ استعفیٰ نہ دیں مگر جہانگیر کرامت وزیراعظم سے یہ کہہ آئے تھے کہ میں استعفیٰ دے دوں گا ، انہوں نے استعفیٰ لکھ کر بھیج دیا جس کو نواز شریف نے بخوشی اور فوراً منظور کر لیا اس طرح ایک آرمی چیف کی غیرمعمولی رخصتی عمل میں آئی۔

جہانگیر کرامت کے استعفے کے بعد نواز شریف نے تین جرنیلوں کو سپر سیڈ کر کے جنرل مشرف کو آرمی چیف بنایا۔ جہانگیر کرامت کے بعد سینئر ترین جرنیل جنرل علی قلی خان، جنرل خالد نواز اور جنرل ترمزی تھے۔ پرویز مشرف کئی سال تک ایس ایس جی کمانڈر رہے ، پیشہ ورانہ طور پر ان کا ریکارڈ اچھا تھا ان کو آرمی چیف بنانے کے سلسلے میں ان کی فوجی مہارت سے بڑھ کر اس پہلو کو مدنظر رکھا گیا کہ یہ شخص مہاجر ہے اور اس کا کوئی حلقہ نہیں لہٰذا اس سے حکومت کو کسی قسم کی مخالفت کا کوئی امکان نہیں۔

مارچ 1999ء واجپائی لاہور آیا اور اس کی فوری بعد کارگل واقعہ رونما ہوا یہ وہ بنیادی وجوہات تھی کہ نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان تعلقات خراب ہونے کی۔ نواز شریف چونکہ مشرف کے پیش رو جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے چکے تھے اور وہ پراعتماد تھے کہ مشرف سے بھی استعفیٰ لے لیں گے۔ آرمی چیف اور میاں نواز شریف کے درمیان حالات کشیدہ ہوئے تو نواز شریف کے والد محترم میاں محمد شریف نے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی انہوں نے جنرل مشرف کو رائے ونڈ کھانے پر بلایا اور تحفے تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ جنرل مشرف کو میاں نواز شریف کے ساتھ عمرے پر بھی بھیجا۔ بگڑے ہوئے تعلقات کو بہتری کا رنگ دینے کیلئے میاں نواز شریف نے جنرل مشرف کو جوائنٹ چیفس آف سروسز کے خالی عہدے پر بھی اضافی تعیناتی کے احکامات جاری کیے ، حالات کو سدھارنے کی تمام تر کوششیں بارآور ثابت نہ ہو سکیں ، مشرف سری لنکا کے دورے پر گئے تو نواز شریف نے جنرل ضیاء الدین بٹ کو چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا ، فوج کا مسلمہ اصول ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف اسے بنایا جاتا ہے جو کسی کور کی کمانڈ کر چکا ہو مگر ضیاء الدین بٹ کے زیرکمان کوئی یونٹ ، بریگیڈ یا کور نہیں رہی ، ضیاء الدین کا ’’بٹ ‘‘ہونا اضافی خوبی تھی، اس کے بعد جو ہوا وہ قصہ ماضی بن گیا۔

مشرف کے بعد جنرل کیانی اور راحیل شریف کے ساتھ بھی میاں نواز شریف کے تعلقات کشیدہ رہے ، میاں نواز شریف کی کابینہ کے بیر بل دلیل اور غلیل کی باتیں کرتے اور کبھی انہیں ان کی حدود و قیود یاد دلاتے۔ راحیل شریف کے ساتھ ان کے تعلقات اتنے کشیدہ ہوئے کہ وہ ان کے گھر جانے کے دن گنتے رہے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت نے سکھ کا سانس لیا ۔

جنرل قمر جاوید باجوہ چیف آف آرمی سٹاف بنائے گئے وہ جمہوری ذہن رکھنے والے شخص ہیں مگر راحیل شریف کے دور میں رونما ہونے والے ڈان لیکس کا معاملہ پر اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا تھا ، جنرل باجوہ پر کمانڈروں کا شدید دباؤ تھا جس کی وجہ سے حکومت کو ڈان لیکس کی انکوائری کرنی پڑی اور رپورٹ شائع کرنے کے بعد ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی بجائے حکومت نے چالاکی کی کوشش کی جس کی وجہ سے آئی ایس پی آر کو ایک ٹویٹ کرنا پڑا جس پر حکومت سیخ پا ہوئی اور معاملات سلجھنے کی بجائے ہنوز لٹکے ہوئے ہیں۔

نواز شریف سویلین بالادستی کی بات تو کرتے ہیں ، ہونی چاہئیے،ضرور ہونی چاہیے، سویلین بالادستی فوج کا کام اقتدار نہیں سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے مگر بالا دستی کی باتیں کرنے والوں کو اپنا گریبان دیکھنا چاہیے کہ ان کا دامن کرپشن سے آلودہ ہے۔ پاک صاف دامن والے بالادستی کی باتیں کریں تو اچھا لگتا ہے ، میاں نواز شریف کو اپنے دوست طیب اردگان سے سیکھ لینا چاہیے کہ انہوں نے کس طرح اسٹیبلشمنٹ پر قابو پایا اور سویلین بالادستی قائم کی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے