مفاہمت

سب تجزیوں اور مشوروں کا رخ منتخب وزیر اعظم اور حکومت کی طرف ہے۔

کسی نے لکھا : ”وزیر اعظم نے درج ذیل چار غلطیاں کیں۔ ایک دو تین…‘‘۔ کسی کا کہنا ہے: ”یہ نوازشریف ہیں جو ہمیشہ فوج سے لڑتے ہیں۔ ان کی کسی آرمی چیف سے نہیں بنتی‘‘۔ کسی کا مشورہ ہے: ”وزیراعظم کو اب تلافی کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے‘‘۔ (تلافی کس بات کی، یہ نہیں بتایا جاتا)۔ کوئی غیر جانب داری کا بھرم رکھتے ہوئے لکھتا ہے: ”سول ملٹری تناؤ کسی طرح پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔ اس لیے وزیر اعظم کو چاہیے کہ…‘‘۔ یہ صرف وہ حوالے ہیں جن کا تعلق ‘کتابت‘ سے ہے۔ ‘سماعت یا بصارت‘ کی میں بات نہیں کر رہا ہے کہ ٹی وی کم دیکھتا ہوں۔ اس کی ہمت ہے نہ ضائع کرنے کے لیے وقت۔ یہ سب پڑھنے کے بعد خیال ہوا: کیا اس معرکے میں کوئی دوسرا فریق بھی ہے؟ کیا اسے بھی کسی مشورے کی ضرورت ہے؟ یہ سوال ذہن میں اٹھا تو ایک قصہ یاد آیا۔ گو میں قصہ گو نہیں لیکن بیان کی کوشش کرتا ہوں۔

دو بھائی تھے، ایک موحد اور دوسرا مشرک۔ مشرک کے کمرے میں پتھر کی ایک مورتی رکھی تھی۔ صبح شام، وہ جس کے سامنے ماتھا ٹیکتا۔ دوسرا بھائی اس پر کڑھتا اور کہتا: ”ایک بے جان سے مانگتے ہوئے تم نے کبھی سوچا کہ یہ بے چاری جو اپنے احوال کی تبدیلی پر قادر نہیں، تمہاری کیا مدد کرے گی؟‘‘۔ وہ اس پر ناراض ہوتا مگر خاموش ہو جاتا کہ بھائی پر اس کی چلتی نہیں تھی۔ مورتی اکثر اس کے خواب میں آتی اور اس کے ایمان کی کمزوری پر ڈانٹ ڈپٹ کرتی۔ ایک دفعہ تو دوسرے بھائی نے حد ہی کر دی۔ اس نے مورتی کی بے حرمتی کر ڈالی۔ اس رات مشرک کے خواب میں مورتی آئی تو بہت غصے میں تھی۔ اس نے اپنے پجاری سے کہا: ”تمہارا بھائی اب میری توہین کرنے لگا ہے۔ اگر وہ باز نہ آیا تو تمہیں بہت نقصان ہو گا‘‘۔ پجاری سہم گیا اور اس نے وعدہ کر لیا کہ وہ بھائی کو سمجھائے گا۔ بے چارے نے اپنے طور پر بہت کوشش کی لیکن بھائی باز نہ آیا۔ وہ موقع بے موقع مورتی کو ایذا پہنچاتا اور پجاری کو خواب میں سخت ڈانٹ سننا پڑتی۔

کئی دن یہ عمل جاری رہا۔ بھائی باز نہیں آ رہا تھا اور مورتی کی ڈانٹ بھی سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی تھی۔ ایک دن بے چارے پجاری نے ڈرتے ڈرتے مورتی سے عرض کی: ”میں تو بھائی کو سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا۔ وہ مان کر نہیں دے رہے۔ آپ روز مجھے ڈانٹتی ہیں، براہ راست اسے کیوں نہیں کہتیں۔ آج رات اس کے خواب میں جائیں اور اسے بھی ڈانٹیں تاکہ وہ خوف زدہ ہو اور اپنی حرکتوں سے باز آ جائے‘‘۔ مورتی نے سختی سے جواب دیا: ”میں اسے کیسے ڈانٹ سکتی ہوں۔ وہ کون سا مجھے مانتا ہے۔ میرے پجاری تم ہو۔ میں تو تمہیں ہی ڈانٹوں گی‘‘۔ قصہ تمام ہوا۔ میں نے بھی اب یہی سوچا ہے کہ مجھے اگر اس بحث میں اپنا حصہ ڈالنا ہے تو منتخب وزیر اعظم ہی کو ڈانٹنا ہو گا کہ اسے عوام نے ووٹ دیا ہے اور وہ عوام کی سننے کا پابند ہے۔ دوسرے فریق کو کون سا ہم نے ووٹ دیا ہے جو اس سے کچھ کہنے کا استحقاق رکھتے ہوں۔ وہ فریق اگر اقتدار پر قابض بھی ہوا تو کون سا میری رائے لے کر۔ وہ قومی مفاد میں کچھ بھی کر سکتا ہے، حتیٰ کہ آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں بھی پھینک سکتا ہے۔

جمہوریت کے استحکام کے لیے کچھ ناگزیر کام تھے جو ایک منتخب وزیر اعظم کو کرنے تھے۔ سب سے اہم کام جمہوری اداروں کا احترام قائم کرنا تھا‘ جو نہیں ہو سکا۔ ان اداروں میں سب سے اہم پارلیمان ہے۔ پارلیمان وزیر اعظم کی توجہ کا سب سے کم مستحق ٹھہرا۔ جس مسئلے میں انہیں خیال ہوا کہ وہ تنہا اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، اس میں انہوں نے پارلیمان کا سہارا لیا‘ جیسے یمن میں سعودی عرب کی عسکری حمایت یا دھرنے کے دباؤ سے نجات۔ دیگر معاملات میں انہوں نے کبھی پارلیمان کو اہمیت نہیں دی۔ ان کے دیکھا دیکھی وزرا نے بھی پارلیمان کو در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ اس پر چیئرمین سینیٹ کو شدید احتجاج کرنا پڑا۔ سب فیصلے ذاتی وفاداروں کے ایک خاص دائرے میں رہ کر کیے جاتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے سراسر متصادم ہے۔ مشاورت سے بے نیاز تو آمریت ہوتی ہے‘ جمہوریت نہیں۔

جمہوریت کے استحکام کے لیے دوسرا ناگزیر کام سیاسی جماعتوں کا مستحکم ہونا ہے۔ نواز شریف صاحب کی سیاست کا یہ جزو لاینفک ہے کہ وہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد، سب سے پہلے جسے بالائے طاق رکھتے ہیں وہ پارٹی ہے۔ وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے ساتھ پارٹی صدارت کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں لیکن اسے چند لمحات دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ جمہوریت میں پارٹی کی حکمرانی ہوتی ہے‘ کسی ایک فرد یا خاندان کی نہیں۔ جمہوریت میں لازم ہے کہ حکومت پارٹی کو جواب دہ ہو اور اس کی حکمتِ عملی پارٹی اجلاسوں میں طے ہو۔ نواز شریف صاحب کے عہدِ اقتدار میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ ان کا اقتدار مسلم لیگ کا نہیں‘ شریف خاندان کا اقتدار ہوتا ہے۔ اس طرزِ عمل کا جمہوریت سے کیا واسطہ؟

یہ کام دوسری جماعتوں کی قیادت بھی کرتی ہے۔ سب کو پارٹی کی ضرورت اسی وقت پڑتی ہے جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد پارٹی کے کندھوں کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے۔ پارٹیوں کا کام اقتدار تک پہنچانا ہے اور بس۔ تاہم اس معاملے میں ن لیگ کا مقابلہ شاید ہی کوئی جماعت کر سکے۔ انتخابات میں بظاہر ن لیگ فاتح ہوتی ہے لیکن اس کا اقتدار دراصل اس کے عہدِ یتیمی کا آغاز ہوتا ہے۔ جب پارلیمان اور سیاسی جماعتوں جیسے جمہوری ادارے کمزور ہوں تو پھر جمہوریت کیسے مستحکم ہو گی؟ جمہوریت کے علم برداروں اور اس سے مستفید ہونے والوں کو اگر اس کی زندگی کی پروا نہیں تو کوئی دوسرا اس کے لیے کیوں حساس ہو؟

جب صورتِ حال یہ ہو تو سیاسی قیادت کو اپنی عوامی حمایت پر یقین نہیں رہتا۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ جس جماعت کو انہوں نے نظر انداز کیا، وہ ان کے حق میں کوئی تحریک نہیں اٹھا سکتی۔ انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی طالع آزما اگر انہیں گھر بھیج دے یا جہاز میں بھی ہتھ کڑیوں کے ساتھ باندھ دے، تب بھی ان کے حق میں کوئی گھر سے نہیں نکلتا۔ عوام خود نہیں نکلتے، یہ سیاسی جماعت کی تنظیم ہے جو انہیں نکالتی ہے۔ جب تنظیم ہی نہ ہو تو تحریک کیسی؟ پھر کوئی ہمالیہ روتا ہے اور نہ کوئی آنکھ۔ پھر بھائی دوست یہی مشورہ دیتے ہیں کہ ایک ٹویٹ سے کچھ نہیں ہوتا۔ فائدہ اسی میں ہے کہ مفاہمت کی جائے اور اقتدار بچایا جائے۔ یوں شیر ایک دن کے بجائے سو سال کی زندگی کو ترجیح دیتا ہے۔

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کا پلڑا ہمیشہ ایک طرف جھکا رہے گا‘ جب تک جمہوری کلچر پیدا نہیں ہو گا۔ جمہوریت صرف عوام کی بالادستی کا نام ہے، پارلیمان جن کی نمائندگی کرتی ہے۔ دیگر ہر ادارے کی بالادستی کچھ بھی ہو سکتی ہے، جمہوریت نہیں۔ جب صرف منتخب وزیر اعظم کا احتساب ہو۔ جب آئین شکن عدالت میں حاضری کے لیے فوج کی حفاظت کا مطالبہ کریں۔ جب پیمرا کا چیئرمین جان کی دہائی دے تو اسے جمہوریت نہیں کہتے۔ آج سب کا مشورہ صرف منتخب وزیر اعظم کے لیے ہے اور وہ ایک ہی ہے: مفاہمت! میرے نزدیک مفاہمت مسئلے کا حل نہیں، اہلِ سیاست کی کمزوری کا تاوان ہے۔ میرا مشورہ کچھ اور ہے: اپنے رویے جمہوری بناؤ اور پھر عوام کی بالادستی کے لیے ڈٹ جاؤ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے