پاکستان ایران سعودی تعلقات

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ایرانی فوج کے سربراہ جنرل محمد حسین باقری نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو ایران خود انہیں نشانہ بنائے گا اور تباہ کر دے گا۔ ادھر ایرانی وزیر دفاع جنرل حسین دیگہان نے سعودی ولی عہد کے ایک ایران مخالف بیان پرسعودی عرب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کوئی حماقت نہ کرے ورنہ اسلام کے متبرک مقامات مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے سوا پورے سعودی عرب کو تباہ کردیا جائےگا .

ایرانی ٹیلیوژن سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات مسلم ممالک کے خلاف ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب سے یمن پر حملے بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

عالم اسلام اس وقت باہمی انتشار و افتراق کی جس افسوسناک صورت حال سے دوچار ہے اس کے تناظر میں ایران کی جانب سے پاکستان اور سعودی عرب کے لئے دھمکی آمیز بیانات ناقابل فہم نہیں ہیں. ایران جوہری تنازع پر اتفاق رائے کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہا پسند پالیسیوں کی بدولت امریکہ کے زیر عتاب ہے اور یہودی لابی کی سر توڑ کوشش ہے کہ اسلامی ممالک میں غلط فہمیاں پھیلا کر انہیں ایک دوسرے کے مقابل لایا جائے ۔

بدقسمتی سے ایسے مسائل موجود بھی ہیں جنہیں ہوا دے کر یہ لابی اپنی سرگرمیوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے بارے میں ایران کی شکایات کا اپنا اپنا پس منظر ہے سعودی عرب سے دوسرے معاملات کے علاوہ یمن کے مسئلہ پر اس وقت اس کا تنازع چل رہا ہے اور دونوں ممالک وہاں کی خانہ جنگی کے بارے میں اپنا اپنا موقف رکھتے ہیں جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو ایران کے ساتھ اس کے تعلقات خوشگوار اور دوستی اور تعاون پر مبنی ہیں۔ تاہم پاکستان اور ایران کی سرحد مشترک ہے جہاں اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے ہونے والی کارروائیوں کے علاوہ ایرانی سیکورٹی فورسز کی حکومت مخالف باغیوں کے درمیان اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔

ایران کو شک ہے کہ باغیوں کی تنظیم جنداللہ کے دہشت گردوں نے پاکستانی علاقے میں اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ ایرانی علاقے میں گھس کر حملے کرتے ہیں۔ چند روز قبل ایسے ہی ایک حملے میں کچھ ایرانی سیکورٹی گارڈز جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس طرح کی کارروائیوں میں اسمگلروں کا ہاتھ بھی ہوتا ہے۔ وہ اسمگلنگ کے دوران رکاوٹ ڈالنے والے دونوں ملکوں کے محافظوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بعض اوقات ایرانی ہی نہیں پاکستانی اہلکار بھی شہید ہوتے ہیں۔

اسمگلنگ روکنے کے لئے دونوں ملکوں نے سخت حفاظتی اقدامات کئے ہیں مگر اسمگلنگ پھر بھی نہیں رکی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی باغی بھی علاقے میں سرگرم ہیں جو ممکن ہے غیر معروف راستوں سے سرحد کی دوسری جانب بھی چلے جاتے ہوں ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی نے یہی بات پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی سے گزشتہ روز ٹیلیفون پر اپنی گفتگو میں کہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی گارڈز کی ہلاکت سے پاک ایران خوشگوار تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ نہیں لیکن دہشت گردوں اور اسمگلروں کی غیرقانونی نقل و حرکت روکی جائے اس مقصد کے لئے ایرانی وزیر داخلہ مذاکرات کے لئے بھی تیار ہیں ادھر مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک ایران سرحدی مسائل حل کرنے کے لئے ہاٹ لائن بحال کردی گئی ہے اور شکایات کے ازالے کے لئے کمیشن قائم کردیا گیا ہے، ایران معلومات فراہم کرے تو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی بھی کریں گے۔

خفیہ معلومات کے زیادہ سے زیادہ تبادلے کے لئے سیاسی و عسکری کمیٹیاں پہلے ہی کام کر رہی ہیں پاکستان ایران اور سعودی عرب عالم اسلام کے قلعے ہیں اسلامی ممالک کی تنظیم کو چاہئے کہ اس طرح کے اختلافات کا سنجیدگی سے نوٹس لے اورفریقین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ان کا فوری حل تلاش کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے