پہلی پاکستان فلم پالیسی کا مشاورتی اجلاس

پہلی وفاقی فلم پروڈکشن اور براڈ کاسٹ پالیسی کے لیے دو روزہ مشاورتی کانفرنس گورنر ہاؤس کراچی میں منعقد ہوئی۔

کانفرنس کا انعقاد وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اہتمام ہوا جس کی صدارت وزیرمملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کی۔

کانفرنس میں مقامی پروڈیوسرز، پروڈکشن ہاؤسز اور فلم سازوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر فلمی اداکاروں کی عدم موجودگی نمایاں تھی جبکہ ذرائع کے مطابق شہر کے تقریبا تمام اداکاروں کو مدعو کیا گیا تھا۔

اجلاس کے پہلے روز وفاقی وزیر مریم اورنگزیب اور گورنر سندھ نے مہمانوں کا استقبال کیا اور اس کانفرنس کے مقصد سے آگاہ کیا۔

مریم اورنگزیب نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم وزیراعظم کے وژن کی روشنی میں پاکستانی فن و ثقافت کو فروغ دینے کی لیے کوشاں ہیں۔ فلم معاشرے میں ثقافتی اور سماجی اقدار سے آگاہی کا موثر ذریعہ ہے اس لیے ہمارا فلمی صنعت کی بحالی کا مقصد دنیا میں پاکستان کے مثبت تشخص کو اجاگر کرنا ہے۔ دنیا بھر میں اعتدال پسندی کے فروغ میں فلمی صنعت کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ معاشرے میں مثبت رجحانات کی ترویج اور نظریات کے فروغ میں فلم انقلابی اثر رکھتی ہے۔‘

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ ہم دنیا بھر کے ثقافتی ورثے کے بارے میں جانتے ہیں مگر اپنی ثقافت اور تہذیب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ’ہم جانتے ہیں کے ٹوپ کاپی ترکی میں ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ بہاولپور میں عظیم الشان نور محل بھی واقع ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی کہانیوں اور مواد پر بھروسہ نہیں ہے اس ہی لیے دوسرے ممالک کی فلموں اور پروگراموں سے ان کے ترانے اور جھنڈے کاٹ دیتے ہیں۔

گورنر سندھ محمد زبیر نے اس موقع پر کہا کہ سوال یہ ہے کہ ہم پاکستان کو کہاں اور کیوں لے جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے قائد اعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد علی جناح ایک لبرل اور روادار معاشرے کا تصور رکھتے تھے جہاں وہ مسجد اور مندر کا زکر ایک ہی جگہ پر کرتے ہیں لیکن بعد میں ہم نے اپنی اپنی اسظلاحات نکال لیں اور نتیجتا پاکستان شدت پسندی کی جانب چلاگیا۔

محمد زبیر نے کہا کہ آرٹ اور فنون لطیفہ ہی وہ واحد زریعہ جس سے ہم شدت پسندی کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور یہ خوش آئند ہے کہ اب ہمارے یہاں بھی فلمیں بننا شروع ہوگئی ہیں۔ انہوں نے فنکاروں خاص طور پر ہمایوں سعید کا پاکستان فلمی صنعت کی بحالی میں کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

بھارتی فلموں کی پاکستان میں ریلیز کے بارے میں گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ فی الوقت بھارتی فلموں نے ہماری سینما انڈسٹری کو زندہ رکھا ہوا۔

دوسرے دن کا اجلاس تین حصوں پر مشتمل تھا جن میں فلم پروڈیوسرز، نمائش کنند گان (سینما مالکان) اور تقسیم کاروں (ڈسٹری بیوٹرز) نے شرکت کی۔

پروڈیوسرز کے اجلاس میں ایورریڈی پکچرز کے ستیش آنند نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ فلم انڈسٹری کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے دیں جس کے لیے سینما مالکان کو برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور پاکستانی فلموں کو جگہ دینی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تین سینسر بورڈز کی تک سمجھ نہیں آتی جب تک تینوں بورڈز فیصلہ کرتے ہیں لوگ انٹرنیٹ اور کیبل پر فلمیں دیکھ چکے ہوتے ہیں۔

ہم فلمز کی مومنہ درید نے کہا کہ ملک کے جو مقامات سرکاری ملکیت میں ہیں ان پر شوٹنگ کی اجازت میں آسانی ہونی چاہیے اور فلموں میں کام کرنے کے لیے آنے والے غیر ملکیوں کے ویزا قوانین کو بھی نرم ہونا چاہئے۔

اداکارہ ثمینہ احمد نے بھی سینسر کے عمل کو تیز کرنے پر زور دیا اور کہا کہ تین سینسر بورڈز کی وجہ سے فلم کے پروڈیوسر پربہت بوجھ پڑتا ہے۔

پروڈیوسر اور ہدایت کارجامی محمود نے پروڈیوسرز کو پانچ سال کے لیے ٹیکس سے چھوٹ دینے کی تجویز دی تاکہ وہ اپنی فلم پر مزید پیسہ لگا سکیں۔

ہدایت کار وجاہت رؤف کا کہنا تھا کہ ہم ایک فلم بنانے میں سالوں لگاتے ہیں اور جب اس کا سینما میں لگنے کا وقت آتا ہے تو اس کو وہ جگہ نہیں ملتی جو اس کا حق ہے کیونکہ اس کے ساتھ ہی بھارت کے کسی سپر سٹار کی فلم آجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں بھی قوانین ہونے چاہئیں تاکہ ہمیں اپنی فلموں کے لیے بھی وقت مل سکے۔

ہم نیٹ ورک کی صدر سلطانہ صدیقی نے کہا کہ پروڈیوسرز کو ٹیکس کی چھوٹ دی جائے اور بیرون ملک سے سامان منگوانے پر کسٹم بھی معاف کردیا جائے۔

پروڈیوسراور ہدیات کار عمر عادل نے کہا کہ نقادوں کے فیس بک کمنٹس بھی فلم کے نہ چلنے کی ایک وجہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹرول کے بعد ہی سے فلم کی برائیاں شروع ہوجاتی ہیں اور اگر کوئی اچھا تجزیہ آجائے تو کہا جاتا ہے کہ پیسے دے کرلکھوایا گیا ہے۔

سینما مالکان کے اجلاس میں شرکا نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فلمی صنعت کو کو آگے لے جانے اور اسے ایک منافع بخش صنعت بنانے کے لیے اس وقت ملک میں مزید سینماؤں اور سکرینز کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ فلم بینوں کو واپس سینما میں لانے کے لیے ہمیں سپر اسٹارز پیدا کرنے ہوں گے جن کے لیے وہ وقت اور پیسہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ سینما مالکان نے بھی سینما کی آمدنی میں سے ٹیکس کی چھوٹ کا مطالبہ کیا تاکہ وہ فلم کے ٹکٹ کی قیمت بھی کم کرسکیں۔

فلم ڈسٹری بیوٹرز کا کہنا تھا کہ ہر ڈسٹری بیوٹر کو بھی فلم بنانی چاہئے تاکہ ان کو پروڈیوسر کو پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہو اور پیسہ بھی کم خرچ ہو۔

اجلاس کے آخر میں وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے تمام تجاویز اور آرا کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ فلمی صنعت کے فروغ کے لیے حکومت فلم فنانسنگ قائم کرنے کا ارداہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ فلم سازوں، ٹیکنیشنز اور داکاروں کے لیے پروفیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ (پیشہ ورانہ تربیتی ادارے) بھی قائم کیے جائیں گے جس کے لیے حکومت قلیل اور طویل مدتی منصوبے تشکیل دے گی۔

انہوں نے مزید اعلانات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نیشنل آرٹس کونسل (جس کے سربراہ آرٹسٹ جمال شاہ ہیں) بھی اداکاروں اور فلم سازوں کے لیے تربیتی پروگرام شروع کرے گی اور پرانی فلموں کو بھی ایک جمع کیا جائے گا تاکہ انہیں دیکھ کر نئے آنے والے بھی سیکھ سکیں۔

وفاقی وزیر نے شرکا کو یقین دلایا کہ فلمی صنعت کی بحالی کے مسئلے کو وزیر اعظم نواز شریف کی خصوصی توجہ حاصل ہے اور اس ضمن میں کسی بھی مدد کے لیے وہ بذات خود موجود ہوں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے