ایران کے بارھویں صدارتی انتخابات

ہمسایہ ملک اسلامی جمہوری ایران میں 19 مئی کو بارہویں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، اس وقت دارالحکومت تہران سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں امیدواروں کی انتخابی مہم عروج پر ہے اور امیدوار اپنا اپنا منشور پیش کرکے عوام کو اپنی جانب راغب کر رہے ہیں۔ الیکشن کیلئے کل 1661 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، تاہم ایران کے اعلٰی اختیاراتی ادارے شوریٰ نگہبان جسے ایران میں الیکشن کمیشن کی بھی حیثیت حاصل ہے، نے مناسب جانچ پڑتال کے بعد 6 امیدواروں کو الیکشن لڑنے کیلئے اہل قرار دیا ہے۔ اس الیکشن کی خاص بات یہ ہے کہ دو مرتبہ ایران کے صدر رہنے والے ڈاکٹر احمدی نژاد نااہلی کے بعد الیکشن کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں۔ اہل قرار پانے والوں میں اصلاح پسند اور اعتدال پسندوں کے تین امیدوار جن میں موجودہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی، موجود نائب صدر اسحاق جہانگیری اور مصطفٰی ہاشمی طبا شامل ہیں جبکہ اصول پسندوں جنہیں قدامت پسند بھی کہا جاتا ہے، کے تین امیدوار ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی، تہران کے موجودہ میئر محمد باقر قالیباف اور سید مصطفٰی آقا میرسلیم میدان میں ہیں۔

امریکی طرز پر ایران میں بھی امیدواروں کے درمیان انتخابی مباحثے کرائے جاتے ہیں، جو ریاستی ٹی وی چینل اور ریڈیو پر براہ راست نشر کئے جاتے ہیں، ایران کے اندر کل تین مباحثے کرائے جاتے ہیں، جن میں سے ابتک دو مباحثے ہوچکے ہیں، آخری اور حتمی مباحثہ اسی جمعہ یعنی 12 مئی کو ہوگا۔ ان مباحثوں میں سماجی مسائل کا حل، انتخابی منشور، خارجہ پالیسی اور ملک کی معیشت جیسے اہم موضوع مناظرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ پہلے دو مباحثوں میں سماجی مسائل کا حل اور ملک کی خارجہ پالیسی پر مناظرہ کرایا گیا، جس میں امیدواروں نے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کئے اور ایک دوسرے کے منشور اور پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ ہر مباحثہ تین گھنٹے پر محیط ہے اور ہر امیدوار کو برابر وقت دیا جا رہا ہے۔ ایران کے قومی نشریاتی ادارے نے الیکشن کے حوالے سے ایک تازہ سروے بھی کرایا ہے، جس کے مطابق چار فیصد لوگ خارجہ پالیسی کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہتے ہیں اور 86 فیصد ووٹرز اقتصادیات اور معیشت کی بنیاد پر اپنا حق رائے دہی استعمال میں لانا چاہتے ہیں جبکہ 10 فیصد ووٹرز نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس بنیاد پر امیدواروں کو اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔

موجوہ صدر اور صدارتی امیدوار ڈاکٹر حسن روحانی کو سابقہ الیکشن میں کئے گئے وعدوں اور نعروں پر عمل درآمد نہ ہونے اور معیشت کے سدھار میں مناسب کامیابی حاصل نہ کر سکنے پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ صدارتی امیدوار محمد باقر قالیباف نے موجودہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی پر سوال اٹھایا ہے کہ اُن کی حکومت نے کریسنٹ نامی آئل کمپنی کے ساتھ خام تیل فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے، جو اس وقت ایران کو عالمی سطح پر سب سے کم نرخ دے رہی ہے، جبکہ پیسے الگ سے پھنسے ہوئے ہیں، جو ابھی تک ادا نہیں ہوئے۔ دوسرے مباحثے میں جب محمد باقر قالیباف نے ڈاکٹر حسن روحانی سے سوال کیا کہ آپ کریسنٹ نامی کمپنی سے کیا گیا معاہدہ عوام کے سامنے کیوں پیش نہیں کرتے تو اس پر انہوں (حسن روحانی) نے جواب دیا کہ یہ ایک خفیہ معاملہ ہے، جسے سامنے لانے کی ضرورت نہیں، ڈاکٹر حسن روحانی کے اس جواب پر انہیں سخت تنقید کا سامنا ہے اور ان کے مخالفین سوال اٹھا رہے ہیں کہ عوام سے چیزوں کو پوشیدہ کیوں رکھا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر حسن روحانی پر یہ بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں اٹامک انرجی سے 10 فیصد ملازمین کو جبری رخصت پر روانہ کیا، جبکہ انہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد ملک میں 100 دن میں کئی بنیادی تبدیلیاں لائیں گے اور عوام کو 100 دن مکمل ہونے پر اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ڈاکٹر حسن روحانی کو اس وقت بھی سخت ندامت کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ انہوں نے 100 دن میں تبدیلی والا کوئی نعرہ نہیں لگایا تھا اور نہ ہی ایسا کوئی بیان دیا تھا۔ اس پر ان کے مخالف صدارتی امیدوار محمد باقر قالیباف نے انہیں انہی کی ویب سائٹ کا لنک پیش کر دیا اور اب سوشل میڈیا پر ڈاکٹر حسن روحانی کے گذشتہ الیکشن میں کئے گئے وعدوں کی ویڈیوز اور اخباری تراشے خوب گردش کر رہے ہیں۔ ایران کے سات صوبے ایسے ہیں، جہاں ہر سال سیلاب آتا ہے اور یہ صوبے گرمیوں میں مٹی کے طوفانوں کی زد میں رہتے ہیں، اس بار شہر اہواز میں مٹی کا طوفان آیا تو وہاں دس روز تک بجلی کا نظام مکمل طور پر ڈسٹرب رہا۔ مخالف امیدوار ڈاکٹر حسن روحانی کی حکومت پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ ان چار برسوں میں ان طوفانوں سے نمٹنے کیلئے کوئی اقدام کیا اور نہ ہی سائنسی بنیادوں پر ان طوفانوں سے نمٹنے کیلئے کچھ سوچا گیا۔ اصول پسندوں کے امیدوار سید ابراہیم رئیسی اپنے منشور میں اس مسئلے کے حل کیلئے پروگرام پیش کر رہے ہیں۔

ایران کی ٹوٹل آبادی آٹھ کروڑ ہے، جس میں بیروزگاروں کی تعداد ایک کروڑ بتائی جا رہی ہے، جن میں چالیس فیصد گریجوٹس اور ماسٹر ڈگری ہولڈرز ہیں۔ ڈاکٹر حسن روحانی پر بےروزگاری کے خاتمے کیلئے مناسب اقدام نہ کرنے اور کوئی باقاعدہ پروگرام پیش نہ کرنے کا بھی الزام لگایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان چار برسوں میں ایک کروڑ ساٹھ لوگ دیہی علاقوں سے شہری مضافات کی طرف منتقل ہوئے ہیں، جس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ شہروں میں جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے۔ جبکہ ان چار برسوں میں 40 سے 60 کارخانے بھی بند ہوئے ہیں، جسے ڈاکٹر حسن روحانی کی خراب معاشی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ صدر حسن روحانی کی کایبنہ کے دو ایسے وزیر بھی سامنے آئے ہیں، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر ملکی پراڈکٹس درآمد کرکے مقامی سطح پر چلنے والے کارخانوں کو نقصان پہنچایا ہے، جبکہ اسی پارلیمنٹ نے ہی اس عمل پر پابندی لگا رکھی ہے اور قانون سازی کی تھی کہ لوکل سرمایہ کاروں کو سپورٹ کیا جائیگا اور مقامی انڈسٹری کو پروان چڑھانے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

آخری مناظرہ اسی جمعہ کو ہونے جا رہا ہے، جس میں معیشت کے موضوع پر امیدوار اپنا اپنا پروگرام پیش کریں گے، اس مباحثے کے بعد مقبولیت کا گراف دیکھ کر دونوں دھڑوں (قدامت پسند اور اصلاح پسند) میں حتمی امیدوار سامنے آئیں گے۔ اصلاح پسندوں کی جانب سے قوی امکان ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی ہی صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑے ہوں گے جبکہ اسحاق جہانگیری اور مصطفٰی ہاشمی طبا ان کے حق میں بیٹھ جائیں گے، جبکہ اصول پسندوں (قدامت پسند) سے سید مصطفٰی آقا میر سلیم کے بیٹھنے کا امکان ہے، البتہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی اور محمد باقر قالیباف فائنل ریس میں موجود رہیں گے۔ محمد باقر قالیباف گذشتہ الیکشن میں بھی صدارتی امیدوار کھڑے ہوئے تھے اور رنر اپ رہے تھے۔ ایران کے الیکشن میں کسی بھی امیدوار کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ وہ ٹوٹل کاسٹ ہونے والے ووٹوں کے 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرے۔ اگر پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا تو الیکشن دوسرے مرحلے میں چلا جائیگا، جس میں پہلی اور دوسری پوزیشن پر آنے والے امیدواروں کے درمیان الیکشن کرایا جائے گا۔ اصول پسندوں کی اس وقت پالیسی یہ ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی کو شکست دینے کیلئے الیکشن دوسرے مرحلے میں داخل ہو، جبکہ اصلاح پسندوں کی کوشش ہے کہ پہلے مرحلے میں ہی کامیابی سمیٹ لی جائے۔ حتمی نتیجہ کیا سامنے آتا ہے، اس کا پتہ انیس مئی کو چلے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے