بڑا آدمی

ریحان پال راوی ہیں۔۔۔وہ شخص بولتا جارہا تھا میں اس کا منہ دیکھتا رہا۔۔ اس کی باتوں پر ششد ر رہ گیا۔۔ اس کا ہر ہر لفظ میرے اندر تحریک پیدا کرتارہا۔۔ ایک پل میں تو مجھے لگا میں بہت نکما آدمی ہوں۔۔ کام میں بھی اور کردار میں بھی۔۔لیاقت کا اخلاقی قد کاٹھ اتنا بڑا تھا کہ ایک تناور درخت کے نیچے میں خود کو چھوٹا سا پودامحسوس کر رہا تھا۔۔۔ میری لیاقت سے ایک عرصہ کی شناساہی تھی۔۔میری طرح وہ بھی اسی فیلٹ کا کرایہ دار تھا۔ہم یہاں گزشتہ چار سال سے مکین اور ایک دوسرے کو جانتے تھے۔۔ علیک سلیک بھی تھا مگر میری کبھی لیاقت کے ساتھ نشست نہیں ہوئی تھی۔۔
آج میری آفس سے چھٹی تھی۔۔ میں اور لیاقت فلیٹ کی چھت پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔ لیاقت یو این او آفس میں افسر تھا لیکن کبھی اس کی چال ڈھال ، اٹھنے بیٹھنے اور باتوں سے یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ کسی اچھے عہدہ پر فائز ہے۔۔۔ موقع غنیمت جان کر میں نے صرف بات چھیڑی آپ اپنے بارے میں بتائیں۔۔۔۔ میرا خیال تھا کہ لیاقت سفید پوش اور بڑا افسر ہے اپنی تعلیم ، کیریئر ، خاندان اور ورثہ کے بارے میں متاثر کن معلومات فراہم کرے گا۔۔۔ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں ہوتا ہے۔۔ کوئی اچھے آفس میں کلرک بھی بھرتی ہو جائے تو اس کارنگ ڈھنگ۔ چال ڈھال بدل جاتی ہے۔۔۔ لوگ اپنے خاندان کی انفرادیت کے بھی چرچے کرتے ہیں
لیاقت کی پہلی بات نے ہی میرے رونگٹھے کھڑے کردیئے۔۔۔ اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور گویا ہوا۔۔۔ میں ایک کمار کا بیٹا ہوں۔۔ایک چوہدری کے گھر بچپن سے ملازم ہو گیا تھا۔۔ میں نے چہرے پر خودساختہ مسکراہٹ سجائی اور اس کے الفاظ کی نفی کی۔۔ نہیں سر آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں۔۔مجھے سچ سچ بتائیں۔۔۔۔ لیاقت پہلے ہشاش بشاش ہو کر بات کررہا تھا۔۔ میرے ذیلی استفسار پر وہ فوری سنجیدہ ہوگیا۔۔ اس نے جگہ بدلی اور میرے اور قریب آ گیا۔۔ اس نے کہا آپ کو یقین کیوں نہیں آرہا؟۔۔۔ چلو میں آپ کو شروع سے بتاتا ہوں ہم کون ہیں؟
لیاقت نے فضا کو ایسے گھورا جیسے یاداشت کو واپس لا رہا ہو۔۔۔ میرا والد ایک غریب آدمی تھا۔۔ مٹی کے برتن بناتا اور بیچتا تھا۔۔ پنجاب کے مضافات میں مٹی کے برتن بنانے والے کو لوگ کمار کہتے ہیں بلکہ پورے خاندان کو کمار ہی سمجھتے ہیں۔۔دن بھر میرا والد جون جولائی میں دھوپ کی تمازت سے بے نیاز ہو کر ہم پانچ بہین بھائیوں کی روزی روٹی کیلئے برتن سازی لگا رہتا تھا۔۔۔غربت ہمارا اوڑھنا بچھونا تھی۔۔ تب ہم گاوں میں اس بات سے کبھی عار محسوس نہیں کرتے تھے کہ ہم کمار ہیں۔۔۔ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔۔ کبھی رات کو ایسی نوبت بھی آجاتی کہ ہم بغیر کھانا کھائے بھی سو جاتے تھے۔
میرے والدمٹی کے برتن بنانے کے ساتھ ساتھ چوہدریوں اور جاگیر داروں کے گھروں میں ہونے والی پارٹیوں میں ویٹر کا کام بھی کرتے تھے۔۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ وہ ویٹری کرکے واپس آ جاتے مگر پیسے کئی دنوں بعد ملتے۔۔۔ اللہ پاک نے میرے لئے راستہ بنانا تھا۔۔۔ ایک دن میں ابو کے ساتھ چوہدری کے بنگلے پر چلا گیا۔۔۔ والد محترم اپنے کام کے پیسے لینے جارہے تھے مجھے بھی ساتھ لے گے۔۔چوہدری صاحب نے میرے والد کو پیسے دیتے ہوئے کہا۔۔۔ کوئی لڑکا دے دو جو بنگلے پر کام کرسکے۔۔۔ میر ے والد نے فوراً میری طرف دیکھا۔۔ کہنے لگے اسے ہی رکھ لو صاحب۔۔۔ کرے گا جو کام ہوا۔۔۔۔میری عمر اس وقت آٹھ یا نو سال ہوگی۔۔
چوہدری نے مجھے سر سے پاوں تک دیکھا۔۔۔ پھر کہنے لگا یہ بہت چھوٹا اور ناسمجھ ہے یار۔۔۔ کسی اور کا پتہ کرو۔۔ میر ے والد نے کہا نہیں صاحب بہت سمجھدار ہے۔۔۔ چوہدری نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور سو کا نوٹ مجھے تھما دیا۔۔ جاو وہ سامنے دکان سے سگریٹ لے آو۔۔ میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔۔ اپنے بابا اور بھائی کیلئے یہ مشقت میں پہلے بھی کرتا رہتا تھا۔۔ میں نے واپس آکر سگریٹ اور پیسوں کا حساب کرکے اسے بتایا تو چوہدری کے ابتدائی انٹرویو میں مجھے کامیابی مل گئی۔۔
یو ں بابا میرے بغیر گھر لوٹ گئے۔۔ اور میں چوہدریوں کاملازم ہوگیا۔۔چند دن بعد ہی چوہدری صاحب نے پڑھنے کا پوچھا تو میں نے فوراً ہاں کردی۔۔۔چوہدری صاحب کے کہنے پر مجھے ایک قریبی سکول میں دو گھنٹے روزانہ بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔۔ میں روزانہ دو گھنٹے سکول جا کر پڑھتا تھا پھر واپس آکر گھر والوں کی بھگاریں بھگتاتا رہتا۔۔۔سچی بات ہے یہ سب کرنا مجھے معیوب نہیں لگتا تھا۔۔۔ وہ اس لئے کہ میرے بابا کہا کرتے تھے کہ محنت میں عظمت ہوتی ہے بیٹا۔۔۔
چند سال بعد لیاقت چوہدریوں کے ڈیرا چھوڑ کر واپس گھر آگیا۔۔۔ پڑھائی کے جراثیم اس کے لہو میں شامل ہو چکے تھے۔۔میٹرک ، ایف اے ،بی اے کے بعدلیاقت نے پڑھائی جاری رکھی۔۔ دن کو پڑھتا اور شام کو محنت مزدوری کرتا تھا۔۔ ایم بی اے کے بعد لیاقت کو یو این او میں ملازمت مل گئی۔۔۔ وہی لیاقت اب یواین او میں فنانس منیجر کے عہدہ پر فائز ہے اور اپنے شعبے کا انچارج ہے۔۔۔۔ ظاہر تنخواہ بھی لاکھوں میں لے رہا ہے۔۔۔ سوٹڈ بوٹڈ بھی رہتا ہے۔۔ کار ہے۔۔بچے اچھے سکولوں میں پڑھتے ہیں۔۔۔بہت اچھی تربیت کررہاہے لیاقت اپنے بچوں کی۔۔۔۔
آفیسرز کے شہر اسلام آباد کی چکا چوند۔ بااثر ہونے کا وائرس اب بھی لیاقت کے شخصیت پر اثر انداز نہیں ہو سکا۔۔لیاقت بلند بالا عمارتوں میں بیٹھ کر پنجاب کے مضافات۔ گرد آلود زندگی کے روز و شب نہیں بھولا۔۔۔ریحان پال کی آنکھوں میں حیرانگی بھی تھی اور تحسین بھی۔۔
سچ پوچھوتو میں خود انگشت بدنداں ہوں۔۔۔ افسر ہونا کوئی بڑ ی بات نہیں ہے۔۔ محنت کرنا کوئی انفرادیت نہیں ہے۔۔۔ آگے بڑھنا کوئی معرکہ سر کرنا نہیں ہے۔۔۔انسانیت کی معراج وہ سچائی ہے جو لیاقت آج تک نہیں بھولا۔۔۔ آج بھی وہ تعارف کراتے بتارہاہے کہ میں کسی جاگیر دار وڈیرے کانہیں ایک کمار کا بیٹا ہوں۔
کمار کون ہوتا ہے؟ محنت کرنے والا۔۔ اور محنت کرنے والے کو خود خدانے اپنا دوست کہاہے۔۔جس مقام پر لیاقت پہنچا ہے اس کیلئے اپنے ساتھ پرکشش سابقے لاحقے لگانا کوئی مشکل بات نہیں ہوتی۔۔۔ صرف زبان ہی تو چلانی ہوتی ہے۔۔۔ لیاقت بھی اپنے عہدہ اور شخصیت کے بل بوتے پر اپنے خاندان اور پس منظر کوکوئی بھی لیبل لگا سکتا تھا۔۔ لیکن اگر آج بھی وہ اپنا تعارف کراتے جھوٹ نہیں بولتا تو اس زمانے میں اس سے بڑا آدمی اور کون ہو گا۔۔بڑا پن انسان کے کردار میں ہوتاہے اظہار میں نہیں۔۔۔ ہمارے ارد گرد اور ممکن ہے خود مجھ میں۔۔۔ کئی ایسے ادھورے پن ہوں گے جن کا اعتراف کرتے ہمیں عار محسوس ہوتی ہے۔
میں ایسے بے شمار لوگوں کو جانتا ہوں جو معمولی سے پس منظر کے حامل ہوتے ہیں لیکن عہدہ یا دولت ملنے کے بعد لہجہ، طرز زندگی، لوگوں سے ملنے کا انداز اور طور طریقے ایسے ہو جاتے ہیں کہ الا مان الا حفیظ۔۔ کئی تو اس خمار میں خود کو خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔۔ جیسے ہمیشہ یہ منصب ، دولت اور حوالہ قائم رہے گا۔۔۔ اصل لوگ لیاقت ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔ جو اپنے آج کو دیکھ کر کل نہیں بھولتے۔۔لوگوں سے نرم لہجوں میں بات کرتے ہیں۔۔حقیقت میں ایسے ہی لوگ بڑے انسان ہوتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے