مسئلہ کشمیر اور کاروبارِمنافقت

کہا جاتا ہے آزادی فطرت کی پکار ہوتی ہے ،ہر ذی شعور آزاد رہنا چاہتا ہے ۔ایک انسان اس وقت تک آزاد نہیں سمجھا جاتا ہے جب تک اسے اپنی زندگی کے معاملات انفرادی اور اجتماعی شکل میں سلجھانے کی اجازت اس کے ان اصولوں کے تحت حاصل نہ ہو جن کو اس نے حق سمجھ کر قبول کر رکھا ہے ۔ایسے انسان کو غلام تصور کیا جاتا ہے جس کو اجتماعی اور انفرادی معاملات خود سلجھانے کی اجازت نہ ہو ۔جس معاشرے کو یہ نعمت حاصل نہ ہو اس معاشرے کو غلام معاشرہ تصور کیا جاتا ہے ۔

ریاست جموں و کشمیر کی غلامی کی تاریخ بھی بہت طویل ہے ۔ طویل عرصے سے ریاست جموں و کشمیر سامراجیوں کے مختلف النوع ظلم و استبداد کی چکی میں پس رہی ہے مگر کشمیریوں نے ہر حال میں اور ہر دور میں استعماری قوتوں کی مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد میں قربانیوں اور استقامت کی ایسی تاریخ رقم کی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔

اس وقت کشمیر میں جو تحریک اپنے عروج پر ہے اس میں جہاں بھارتی سامراج کے ظلم و استبداد کی ناکامی الم نشرح ہے وہاں کشمیر کے بچوں اور جوانوں ہی نے نہیں خواتین کی بے جگری نے سب کو ششدر کر دیا ہے ۔بندوق کا مقابلہ پتھر سے کیا جارہا ہے ۔صنف نازک کہلائی جانے والی خواتین نے مردوں کی فوقیت پر سوالیہ نشان چھوڑ دیا ہے اور اب معلوم یوں ہو رہا ہے کہ شاید کشمیری عوام نے واپسی کی کشتیاں جلادی ہیں کیونکہ بھارت کے وعدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے غیر موثر ہونے ،پاکستان اور بھارت کی سیاسی ،عسکری اور معاشی قوت کے تفاوت ،پاکستانی حکومتوں کی غلطیوں ،کمزوریوں اور آزادی کے بیس کیمپ کے لیڈروں کی اقتدار کی ہوس اور بے حسیوں اورمسلح جدوجہد کی ناکامیوں کے بعد مقبوضہ کشمیر کی عوام کے پاس شاید یہ آخری آپشن تھا اس لیئے یہ کہنا غلط نہیں کہ کشمیری کشتیاں جلا چکے ہیں اور واپسی کے راستے بند ہوچکے ہیں۔

آخر کشمیریوں کے پاس اس کے علاوہ راستہ بھی کیا ہے ؟ لاکھوں کی تعداد میں کشمیری قربانیاں دے چکے ہیں ،یتیم بچے ،بیوہ عورتیں اور کشمیر میں لہو کا سیلاب بھی دنیا کے ٹھیکداروں کے ضمیر کو بیدار نہیں کر سکا ، بے حس اور خواب غفلت میں سوئے ہوئے اسلامی ممالک کے کانوں تلے جوں تک نہیں رینگی کبھی،کشمیر کی وکالت کرنے والے پاکستان اور آزادی کا بیس کیمپ کہلائے جانے والے آزاد کشمیر کے سیاستدان اور لیڈران اقتدار کی شرمناک جدوجہد میں دست گریباں رہے اور ابھی تک اقتدار کی جنگ جاری ہے تو ایسی صورت حال میں بے یار و مددگار کشمیریوں کے پاس یہ آخری آپشن استعمال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔

برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جنم لینے والی تحریک ،صنف نازک کاموجودہ تحریک میں کردار ،وادی میں پیلٹ گن کا قہر آزاد کشمیر کی قیادت اور پاکستان کے کردار پر بے شمار سوالات اٹھاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر لہو میں ڈوبا ہوا ہے ،وادی میں قربانیوں کی نئی داستانیں رقم ہورہی ہیں اور یہاں اقتدار کی جنگ جاری ہے ۔نام نہاد سول سوسائٹی نے مظلوم کشمیریوں کی چیخیں سن کر کانوں میں انگلیاں کیوں ٹھونس لی ہیں؟پاکستان میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کی زبانوں پر تالے کیوں لگے ہوئے ہیں؟

یہاں ایک عام کشمیری کے ذہن میں یہ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ 70 سالوں سے وکیل ہمارے مقدمے کو فیصلے تک کیوں نہیں پہنچا سکا؟کشمیریوں کی لاکھوں قربانیوں کے باوجود آج حالات اس حد تک کیوں پہنچ گے کہ گھروں کی عزتوں کو سامراجی فوج کے سامنے سنگ اٹھاناپڑے؟کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو کیوں کوئی سفارتی کامیابی نہیں ملی؟ کیا پاکستانی قیادت کے لیے پاک آرمی کی قربانیوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں؟دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانے مسئلہ کشمیر کو کس حد تک اجاگر کررہے ہیں؟کیاپاکستان کے پاس کشمیر پالیسی ہے بھی یا نہیں؟

اگر پاکستان کے پاس کشمیر پالیسی ہے تو گزشتہ ۸ سالوں میں کشمیر کمیٹی نے کیا کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں؟کیا مولانا فضل الرحمن کے علاوہ کشمیر کمیٹی کی قیادت کے لیئے کوئی باشعور انسان پاکستان کے پاس موجود نہیں تھا؟ اربوں روپے کشمیر کے نام کی ایک میٹنگ پر خرچ کرنے والے مولانا صاحب کشمیر کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟کیا مولانا صاحب کوکشمیر میں ہوتا ظلم دکھائی نہیں دے رہااگر دکھائی دے رہا ہے تو مولانا صاحب گونگے کیوں بنے ہوئے ہیں؟ان تمام سوالات کے جوابات ایک عام کشمیری مانگتا ہے ۔

ایک سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کشمیر کا وکیل ہے ،پاکستان کا کشمیر کے ساتھ ایک رشتہ ہے تو ایسے حالات میں جب وادی میں کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے ،ظلم و استبداد اپنے انتہا کو پہنچ چکا ہے ایسے حالات میں وزیر اعظم پاکستان بھارتی سٹیل ٹائیکون سجن جندال سے ملاقاتیں کر کے کونسا رشتہ نبھا رہے تھے ؟کیا وزیراعظم پاکستان کو پاکستان اور کشمیریوں سے زیادہ بزنس پیارا ہے ؟کیا وزیر اعظم پاکستان کو کشمیری بیٹیوں پر ہوتا ظلم دکھائی نہیں دے رہا ؟ مظلوم کشمیری یہ سوال پوچھتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب اگر ایسا ہی ظلم وستم آپ کے خاندان کی بیٹیوں کے ساتھ ہوتا تو کیا آپ پھر بھی خاموش رہتے؟وزیراعظم صاحب آپ کیوں بھول گئے کہ ایک دن آپکو بھی مرنا ہے اور موت سے آپکو نہ آپکی دولت بچا سکے گی نہ پانامہ کیس لڑنے والے آپ کے وکیل بچا سکے گیں۔یہ اقتدار ،مال و دولت اور شہرت سب عارضی ہیں،آپکے ساتھ قبر میں مال ودولت کچھ نہیں جائیگا نہ ہی آپکے کفن میں جیب رکھا جائے گا۔

قارئین کرام:اب اگر پاکستانی میڈیا کے کردار کی بات کی جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے یہ دیکھ کر کہ ایسے وقت میں جب میڈیا کو مظلوم کشمیریوں کی آواز بننا چاہیئے تھا ، جب کشمیریوں سب سے زیادہ ضرورت تھی میڈیا کی ایسے وقت میں میڈیا منافقت کی آخری حدوں کو چھو رہا تھا ۔میڈیا24 گھنٹوں میں ۵ سے ۷ منٹ کشمیر کی صورتحال بیان کرتا ہے اور اس میں بھی میڈیا کو کشمیریوں پر ہوتے ظلم و ستم سے زیادہ کشمیریوں کے ہاتھوں میں جھنڈوں کی فکر ہوتی ہے کہ کشمیریوں نے ہاتھوں میں جھنڈے کونسے اٹھا رکھے ہیں،وہ آزاد کشمیر کے جھنڈے ہیں یا پاکستان کے۔میڈیا کو پانامہ کیس ،اور دیگر جلسے جلوسوں پر پورا دن پروگرام کرنے کے لیئے وقت میسر ہوتا ہے ۔مگر مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے کے لیئے وقت نہیں ہوتایہ سب شاید اس لیئے کہ مظلوم کشمیریوں سے میڈیا کو منافع کی توقع نہیں۔

اب رہی بات بیس کیمپ کی تو بیس کیمپ کی لیڈر شپ نے بے حسی اور بے شرمی کی آخری حدیں بھی پار کردی ہیں۔بیس کیمپ کی لیڈر شپ کو وادی میں ہونے والے ظلم وستم سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر ہوتی ہے ۔بیس کیمپ کی لیڈرشپ کو پانامہ کیس اور ڈان لیکس جیسے ایشوز کی فکر ہوتی ہے کیونکہ ان ایشوز کا تعلق براہ راست ان کے اقتدار سے ہوتا ہے ۔مگر پھر بھی کشمیریت تو خون میں ہے تو کبھی کبھی جب فرصت ملے تو مظلوم کشمیریوں پر ہونے والے ظلم وستم کا سن کر خون کھولتا ہے اور لیڈران جوش خطابت میں سیز فائر لائن توڑنے کا اعلان کر دیتے ہیں مگر پھر حالات سازگار نہیں رہتے اور سیزفائر لائن توڑنے کا فیصلہ مؤخر ہوجاتاہے ۔منافقت کی انتہا تو تب ہوتی ہے جب بیس کیمپ کی سیاسی قیادت میں سے کوئی میڈیا پر آکر کشمیر ایشو پر بات کرتا ہے اور کشمیر ایشو پر بات کرتے ہوئے یہ کہنا فرض سمجھا جاتاہے کہ میاں نوازشریف صاحب کشمیر ایشو کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہے ہیں اور ہماری حکومت کا مقصد ہی تحریک آزادی کشمیر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے