حالات کا ستم اور باہمت لڑکی کا عزم

میرے والدین شادی سے پہلے فرسٹ کزن تھے ۔دادی نہیں چاہتی تھی کہ ان کی آپس میں شادی ہو ۔دیہاتوں میں شادیاں بڑوں کی رضا مندی سے ہوتی ہیں ۔میرے والد میری والدہ سے شادی کرنا چاہتے تھے بزرگوں کے کہنے پر دادی اماں مان گئی اور اس طرح ان کی آپس میں شادی ہوگئی ۔

دادی اماں نے پہلے دن سے ہی میری والدہ کو بہو کے طور پر تسلیم نہیں کیا تھا ،شادی کے چھ ماہ بعد انہوں نے میرے والدین کو گھر سے نکال دیا ،اپنا آبائی شہر چھوڑا اور راولپنڈی آگئے ،یہاں آکر انہوں نے کرایہ پر مکان لیا اور اس میں رہنے لگے میرے والد پیشے کے لحاظ سے راج گیری کا کام کرتے ہیں ،ہمارے چھوٹے سے گھرانے میں خوشیوں کا راج تھا ،

پھر نہ جانے کس کی نظر لگی کہ خوشیاں ہم سے ہمیشہ کے لیئے روٹھ گئیں، ہوا کچھ یوں کہ دادی نے میرے والد کو ملنے کے لیئے بلایا وہ ان سے ملنے کو گئے پھر انہوں نے پلٹ کر ہماری طرف نہ دیکھا ۔

میری والدہ پر دکھوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، ددھیال والوں نے پہلے ہی گھر سے نکال دیا تھا ،اور اب بیچ راہ والد کے ساتھ چھوڑنے کے بعد میری والدہ کے پاس کرایہ
کا مکان چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ،ہمارے ہاں شادی کے بعد عورت کی میکے واپسی کو بہت برا شگون سمجھا جاتا ہے ،مگر ایک تنہا عورت اپنے ساتھ اپنے شکم میں ایک زندگی کو لیئے آخر جاتی تو کہاں جاتی ،

یہ بات تو ہم بخوبی جانتے ہیں اس مردانہ سماج میں ایک تنہا عورت کا باعزت طریقے سے زندگی گزارنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، بھیڑیے کی طرح کاٹنے کو دوڑتا ہے ہماراسماج ایک مجبور اور لاچار عورت کو اور سماج کی منافقت انتہا کو پہنچتی ہے جب کسی عورت کے ساتھ یہ ٹیگ لگ جائے کہ اس کا خاوند اسے چھوڑ کے چلا گیا تو ہمارا یہ سماج قصوروار عورت کو ہی جان کر اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے،المختصر میری والدہ کو مجبوراََ میکے واپس آنا پڑا۔

میرا جنم نانی اماں کے گھر ہوا ،میری پیدائش پر کسی نے خوشی کے شادیانے نہیں بجائے ، نانی اماں مجھ سے بے انتہا پیار کرتی تھی ،وہ میری خواہشات کو ہر ممکن پورا کرنے کی کوشش کرتی تھی ،جب تک وہ زندہ رہی ایک سائبان کی طرح رہی ،مگر خوشیوں کی یہ عمر بھی بہت مختصرثابت ہوئی، میں نے ابھی بچپن سے لڑکپن کا سفر شروع ہی نہ کیا تھا کہ ہم سے ہمارا سائبان چھن گیا،مصیبتوں ،تکلیفوں نے ایک بار پھر ہمارے گھر کا رخ کر لیا ،ہمیں ننھیال سے طعنے سننے کو ملتے ،کم سنی میں طعنے سن کر میں رونے لگ جاتی ،گھنٹوں روتی رہتی ،وہ عمر جو بچوں کے کھیلنے کی ہوتی ہے جس عمر میں بچے ہر غم سے بے نیاز ہوتے ہیں،جس عمر میں ہر طرف خوشیاں ہی ہوتی ہیں ،وہ عمر جس میں والدین بچوں کے ضد کو محبتوں سے پورا کرتے ہیں ،وہ عمر جس میں نہ حال کی پرواہ اور نہ مستقبل کی فکر ہوتی ہے ۔

اس عمر میں رونا شاید میرے مقدر میں لکھا گیا تھا،شاید لکھنے والے نے خوشیاں میرے مقدر میں لکھی ہی نہ تھی ،میرے لیئے خوشیاں کی مثال یہ تھی کہ جیسے خوشیا ں تتلی کی مانند تھی اور میں اس تتلی کو پکڑنے جب بھی اس کے قریب جاتی تو ہوا کا کوئی بے رحم جھونکا اسے اڑا کر کہیں دور لے جاتا ۔

میری والدہ نے مجھے اچھی تعلیم دینے کے لیئے فیکٹریوں میں کام کرنا شروع کر دیا اور مجھے گورنمنٹ سکول میں داخل کر ادیا گیا،پرائمری سے ثانوی اور ثانوی سے سیکنڈری کا سفر طے کیا ،جب میٹرک میں پہنچی تو فیس کے لیئے پیسے نہیں تھے ،گھر میں فاقے تھے ،یہ سوال پہاڑ بن کر سامنے کھڑا تھا کہ پیٹ کی آگ کو کیسے بجھایا جائے یا فیس کے پیسوں کی تگ و دو کی جائے ، ،بہرحال ماں تو پھر ماں ہوتی ہے اور وہ ماں جس کی زندگی کا مقصد ہی ایک بیٹی ہو وہ ماں کیسے اپنی بیٹی کا مستقبل تاریک ہوتے دیکھ سکتی تھی ،میری ماں نے فاقہ کشی بھی کی اور کہیں سے میری فیس کے پیسوں کابندوبست بھی کیا۔

اللہ بہت مہربان اور منصف ہے ،جہاں میری زندگی میں غموں کے سائے تھے وہاں اس مالکِ کائنات نے مجھے اتنا حوصلہ اور ہمت بھی دیا تھا اور دماغی صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا کہ ان تمام تر مشکلات کے باوجود میں نے امتیازی نمبروں کے ساتھ میٹرک میں کامیابی حاصل کی ،یہ وہ وقت تھا جہاں سے میری زندگی نے اک نیا رخ اختیار کیا،میری سوچوں کا زاویہ بدلا،مجھ میں ایک نئے عزم اور حوصلے نے جنم لیا۔میں نے اپنی ذات سے خود کو نکالا،جینے کا مقصد بدلا،میں نے فیصلہ کیا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے اور اس ماں کے لیئے جینا ہے ،جس نے اپنی خوشیاں،اپنی جوانی،میرے کل کے لیئے قربان کی ۔

بس یہی سوچ لیئے کہ ماں کا کچھ بوجھ اپنے کندھوں پر لے لوں ایک نجی تعلیمی ادارے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئی،میری آمدن بہت قلیل تھی مگر دل کو ایک عجیب سی خوشی تھی کہ ماں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش تو کر رہی ہوں،میرا تعلیمی سلسلہ منقطع نہیں ہوا،انٹر سے گریجویشن تک اور پھر گریجویشن کے بعد صف اول کی جامعہ سے پوسٹ گریجویشن کرنا میرا خواب تھا ۔گریجویشن کے بعد ایک دوسرے تعلیمی ادارے میں انٹرویو دیا اور میں بطور معلمہ منتخب ہوگئی۔میری آمدن میں تھوڑا سا اضافہ ہوا اوراپنی والدہ کو فیکٹری سے کام کرنا چھڑوا دیا ۔

دسمبر2013 تک میں گریجویشن امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کر چکی تھی ،جنوری 2014میں مختلف جامعات میں پوسٹ گریجویشن ایڈمیشن شروع ہوئے ،میرا خواب تھا صف اول کی جامعہ سے پوسٹ گریجویشن کرنا،میں نے بنا سوچے سمجھے صف اول کی ایک جامعہ میں ایڈمیشن کے لیئے فارم جمع کروادیئے،انٹری ٹیسٹ کا بلاوا آیا ، میں نے انٹری ٹیسٹ دیا،انٹری ٹیسٹ سے واپس آکر مجھے خیال آیا کہ ایڈمیشن تو میرا ہوجائے گا ،مگر یہ صف اول کی جامعہ ہے ،اب گورنمنٹ سکول یا کالج والی تو بات رہی نہیں کہ فیس کسی نہ کسی طرح ادا ہو جاتی تھی ،مگر یہاں تو فیس بھی زیادہ تھی اتنی تو میری چھ ماہ کی تنخواہ نہیں تھی جتنی یہاں فیس تھی،

سوچوں کا دائرہ وسیع کرنے اور سوچوں کی آخری حد تک پہنچنے کے بعد دماغ میں ایک ترکیب آئی کہ کمیٹی ڈالی جائے تو میں نے کمیٹی ڈال لی اور پہلی کمیٹی بھی خود ہی لی اور یوں میری فیس کا بندوبست ہو گیا اور میں نے اپنی کلاسز سہ پہر میں رکھوا لی ،صبح میں سکول جاتی اور سکول سے واپسی پر میں کلاسز کے لیئے جامعہ جاتی ،دو سال کی محنت شاقہ کے بعد خواب کو تعبیر ملی ،میں جیسے جیسے تعلیمی مدارج طے کرتی گئی میرے خونی رشتہ دار میری جان کے دشمن بنتے گئے ،مگر صاحب! ابھی میری منزل بہت دور ہے ،مجھے منزل تک پہنچنے کے لیئے ابھی دو سیڑھیاں مزید اوپر جانا ہے ،وہ ہیں ایم فل اور پی ایچ ڈی ۔

یہ کہہ کر شاید ضبط نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ،اس کی آنکھوں سے بہتی آنسو کی جڑی نے شدت اختیار کر لی ،میں نے الفاظ ڈھونڈنا چاہے جن سے اس کی ڈھارس بندھائی جائے مگر جب تک میں اپنی زبان کو جنبش دیتا وہ اٹھ کے جاچکی تھی اور میرے لیئے ایک سبق اور بے شمار سوالات چھوڑ گئی۔

بہت دیر تک میں اس کی زبان سے نکلے لفظوں میں کھویا رہا کہ ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ رکھنے والی ایک صنف نازک اس بے حس سماج میں کس دلیری سے اپنی نزاکت کو زندگی کے مصائب پر قربان کرکے سماجی نا انصافیوں کا مقابلہ کر رہی ہے ،کچھ دیر کے لیے شرم سے میرا سر جھکا رہا ،مجھے اپنے مرد کہلوانے پر شرمندگی ہوتی رہی ،مجھے عورت پر اپنی فوقیت پر رونا آتا رہا،اور مجھے اس صنف نازک پر رشک آیا جس نے ایک مثال قائم کی کہ ہمت سے کام لیا جائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں

اس نے ثابت کیا وقت کو ساتھ لے کر چلاجا سکتا ہے ہمت اور حوصلے سے وقت کا دھارا موڑا جا سکتا ہے ،سوالات اٹھا گئی یہ صنف نازک ان نوجوانو ں پر جو وسائل ،عیش و آرام اور زندگی کی ہر آسائش ہونے کے باوجود تعلیم سے دور بھاگتے ہیں اور ان نوجوانوں کے لیے بھی جو محنت کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے