مدرزڈے اور ہم

"تم نے ہم کو مدرزڈے پر وِش نہیں کیا, ہم تم سے ناراض ہے.”

ایک دوکاندار پٹھان بھائی کی زبانی مدرزڈے کے حوالے سے پہاڑی علاقے کے دوردراز گاؤں میں رہنے والی اپنی اَن پڑھ ماں کا شکوہ. دو سال قبل, اس تذکرے کے ذریعے ہمیں "مدرزڈے” نامی دن سے متعلق کچھ آگہی ہوئی. ہوا یوں کہ امی کے لئے کپڑے لینے ایک مال میں جانے کا اتفاق ہوا. دوکاندار حیرت سے بولا ” آپ آج آۓ ہیں باجی ؟ ” اس کے استفسار پر ہماری نگاہ بےاختیار اطراف میں اٹھ گئی. واقعی خلافِ معمول رش نہیں تھا. وجہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک دن قبل مدرزڈے تھا. اس سے قبل ہفتہ بھر مدرزڈے کے اعزاز میں خواتین کی مصنوعات پر ڈسکاؤنٹ کا اہتمام تھا. لوگ (بلکہ خواتین) ہفتہ بھر اس سیل کی مسلسل پذیرائی سے تھک گئے تھے. اسی لئے "آج نہ صرف یہ کہ رش نہیں بلکہ مال کم ہو جانے باعث ورائیٹی بھی کم ہے” پٹھان بھائی کے لئے, ہمارے انٹرنیشل شہر میں رہنے کے باوجود اس انٹرنیشل ڈے سے آگاہ نہ ہونا کچھ معیوب سا تھا شائد . سو انہیں مدرزڈے کی اہمیت مذید اجاگر کئے بِنا چین نہ آیا کہ ” باجی …پھر ہم نے کال کا پیکج کروا کے ماں کا دل بھرنے تک اس سے باتیں کیں.” اس کی بس ایک یہ ہی بات ہمیں پسند آئی. بہرحال اس کا رِکارڈ بند کروا کے جلدی جلدی امی کے پسندیدہ رنگوں کی عدم موجودگی کے باوجود ہی, وقت کی بچت کی غرض سے کچھ کپڑے خرید کر اٹھ کھڑے ہوۓ. مگر چلتے چلتے بھی وہ پٹھان بھائی اگلے مدرزڈے کی یاددہانی کروانا نہ بھولا. ہم نے بھی اس کے رزقِ حلال کی امید کی لاج رکھنے کی خاطر کہہ دیا کہ "ٹھیک ہے بھائی, دیکھیں گے اگلے سال…”

اگلے مدرذڈے تک امی تو نہ رہیں. مگر مدرزڈے کا تذکرہ ذہن میں موجود رہا. پھر اس حوالے سے میڈیا کی خدمات نے اس تذکرے کو تازگی بخشی. مدرزڈے کی خوشی میں عورت کا نام ایک اور تجارت کا عنوان. جگہ جگہ خواتین کی مصنوعات (خصوصاََ ملبوسات) پر خصوصی رعایت کے پرکشش اشتہارات کی بھرمار. کہیں ماؤں سے اظہارِحُب اور ان کی قدردانی کی پوسٹس بھی ہیں. کہیں کچھ مُفتیانہ قسم کے تنقیدی تبصرے بھی ہیں کہ "یہ مغرب کی ضرورت ہے… ہم مسلمان ہیں…ہمارا کیا واسطہ اس ایک دن کے مدرزڈے سے….وغیرہ وغیرہ” یہ سب کسی حد تک درست بھی ہے. کہ مغرب میں ماؤں کے اولڈہومز میں ہونے یا گھروں میں, مصروف ترین اولاد کی توجہ سے محروم ماؤں کے حقوق کی ادائیگی کا کچھ سامان ہو سکے. پھر چوں کہ اس کے پیچھے سرمایہ دارنہ زہن بھی کار فرما ہے سو اس مدرزڈے کا اہم مقصد خواتین کی مصنوعات کی تجارت بھی ہے. یوں تالی کے لئے دونوں ہاتھ سرگرم ہیں تو اس دن کا فروغ بھی روزافزوں ہے. مگر یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ وہاں یعنی مغرب کے سمجھدار مسلمان اس دن کو اپنے دین کی حدود میں رکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے بھی کوشاں ہیں.

یہ بھی درست ہے کہ ہماری اسلامی تہذیب میں اس ایک دن کے مدرزڈے کی گنجائش کیسے ہو کہ جہاں پندرہ سو برس قبل ماؤں کے حقوق تاقیامت طے کئے جا چکے ہوں. پھر ان حقوق کی ادائیگی کو اولاد کی دنیا و آخرت کی کامیابی کے ساتھ مشروط بھی کر دیا گیا. اور اہم ترین اعزاز یہ کہ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے ماں باپ کے حقوق, بندوں کے حقوق پر مقدم رکھ کر اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ بیان کئے. ماں باپ کے حقوق میں سے بھی ماں کے حقوق کو باپ کے مقابلے میں سہ چند مقدم رکھا. اس سب کے جواب میں معاشرے میں ماں کے اعزاز اور حقوق کی ادائیگی کی کربناک صورتِ حال بھی ماضی اور حال کے فرق کے ساتھ ہمارے سامنے ہے.

ہمارا حال یہ ہے کہ چاہے نہ چاہے گلوبلائزیشن کا حصہ بھی بن رہے ہیں. اپنی مشرقی اقدار پر فخر کرتے ہوۓ, مغرب کے ایک دن کے مدرزڈے پر تنقید بھی کرتے ہیں. اس دن کے اعزاز میں سوشل میڈیا پر منفی مثبت اظہارِ خیال بھی خوب کرتے ہیں. سب سے بڑھ کر اس دن کے تجارتی مقاصد کی تقویت کا بھی اہتمام کر جاتے ہیں. اس کا ثبوت مدرزڈے کے عنوان سے روزافزوں کاروبار کی وسعت ہے.

جب یہ دن, کسی نہ کسی عنوان سے منایا ہی جارہا ہے اور جس انداز سے منایا جارہا ہے کہ اس کا مادی پہلو ہی غالب ہے. اور اس سے قبل کہ مادیت یا سرمایہ داری کا یہ غلبہ ہمیں بالکل ہی بےبس کر دے تو کیوں نہ اس کے صرف اچھے ہی پہلوؤں کو ممیّز کر لیا جاۓ.

نبی کریم ص نے دس محرم کا روزہ رکھا..مگر جب معلوم ہوا کہ یہود ونصاریٰ بھی اس دن کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں تو آپ (ص) نے ان سے مماثلت کو رد کرنے اور اپنی اسلامی شناخت کی خاطر دس محرم کے ساتھ نو محرم کا روزہ رکھنا بھی پسند فرمایا.

تو جب یہ دن ہمارے ہاں منایا ہی جا رہا ہے اور قبل اس کے کہ یہ پوری طرح مغرب کی نقالی میں ڈھل جاۓ. کیوں نہ اس کے غیراسلامی انداز سے بچتے ہوۓ صرف اچھے پہلوؤں کو اسلامی شناخت کے ساتھ اختیار کیا جاۓ.

الحمدللّٰہ, اس گئے گذرے ماحول میں بھی مغرب کے مقابلے میں ہماری تہذیبی اقدار ابھی باقی ہیں. ہماری ماؤں کی اکثریت اولڈ ہومز یا علیحدہ رہائش کے بجاۓ اولاد کے ساتھ باعزت سکونت اختیار کئے ہوۓ ہے. مغرب جیسی شدید مصروفیات کے باوجود بھی ماؤں کے حقوق کی ادائیگی میں دینی احکام کا پاس اور احساس بھی باقی ہے.

ہمارے مغربی میڈیا جس طرح ماؤں یا والدین کے عدم احترام کی فضا بنانے میں میں سرگرم ہیں. اس کی روک تھام کے لئے مدرزڈے کے موقع کو مہم کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے. ماؤں یا والدین کے حقوق, احترام یا خدمت کے جو اسباق بچوں کے نصاب میں شامل ہیں. وہ فقط اس دنیا کے امتحان میں کامیابی کی غرض سے رٹے اور رٹواۓ جاتے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ماؤں یا والدین کے حقوق کی آگہی اور ادائیگی کا احساس مہماتی طور پر ہی ہو. آخر دنیا کے دیگر کاموں کو انگیز کرنے کے لئے بھی تو مہمات کی مدد لی جاتی ہے. اس اہم ترین کام, کہ جس پر دنیا اور آخرت دونوں ہی کے اچھے یا برے نتائج کا انحصار ہے تو کیوں نہ اس کے لئے بھی مہماتی منصوبہ بندی کی جاۓ. اس سے ہمارا مقصد کسی قسم کا کوئی دینی تہوار ہرگز بھی نہیں. بلکہ قائدِاعظم ڈے یا اقبال ڈے وغیرہ کی طرح قومی و مِلّی اہمیت کے دن کے طور پر ہی اس کا اہتمام کیا جا سکتا ہے.(اگرچہ یہ ایام بھی اب اپنی اہمیت و اہتمام کے متقاضی ہیں)

اس غرض سے اسکولوں و دیگر تعلیمی اداروں میں ماؤں کے احترام, خدمت, حقوق کی آگہی و احساسِ ادائیگی کے لئے مختلف دلچسپ سرگرمیاں ترتیب دی جا سکتی ہیں.ان میں اسلامی اقدار و شناخت کا خصوصی لحاظ رکھتے ہوۓ حُبِ والدہ کے اعزاز میں ترانے, ٹیبلو, ڈرامے, تحریری و تقریری مقابلے اور اس حوالے سے خاندانی اجتماعات رکھے جا سکتے ہیں. حال ہی میں ایک بلاگ سائٹ نے مدرز ڈے کے حوالے سے بلاگنگ کے مقابلے کا اہتمام کیا ہے. جو کہ اس سلسلے کا ایک تعمیری اور خوش آئند قدم ہے.

ہر کام میں تنقید براۓ تنقید کے روئیے کو نظرانداز کرتے ہوۓ اصلاح کے پہلو کی تلاش, تعمیر کا ذریعہ بن سکتی ہے. شر کے کھوٹ سے خیر کا کندن حاصل کرنا بھی کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے. ان شاء اللّٰہ.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے